سیلاب کی تباہ کاریاں اور وزیر اعلی پنجاب کی کاوشیں

تحریر :محمد اسلم لودھی

سیلاب کا آنا تو اب معمول بن چکا ہے ہر سال کروڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں ٗ لاکھوں مکانات ٗ ہزاروں مویشی ٗ سینکڑوں انسان سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومت کی ریلیف سرگرمیوں پر جو اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں جس قدر تکلیفیں ٗ اذیتیں اور پریشانیاں دریاؤں اور آبی گزرگاہوں کے ارد گرد رہنے والے غریب لوگوں کو برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اسی طرح ہر سال تباہی و بربادی کا کھیل جاری رہے گا کیا اسی طرح انسان سیلابی پانی میں ڈوب کر مرتے رہیں گے کیا اسی طرح گھر مکانات مال مویشی سیلابی پانی کی نذر ہوکر تباہ و برباد ہوتے رہیں ۔ کیا اسی طرح راستے ٗ سڑکیں اور پل برباد ہوتے رہیں گے کیا اسی طرح سیلابی پانی میں گھر ہوئے لوگ وبائی امراض کا شکار ہوکر موت کی وادی میں اترتے رہیں گے ۔

اس کے باوجود وزیر اعلی میاں محمد شہبازشریف ممکن حد تک سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں پھربھی سینکڑوں دیہات اور انسانی بستیاں ایسی ہیں جہاں تک حکومت کی امداد اور وزیر اعلی کی نظر کرم نہیں پہنچتی ۔چین کے دریاؤں میں بھی 35 سال پہلے سیلاب آیا تھا اگلے سال چینی قوم اور حکومت نے مل کر دریاؤں کو اس قدر گہرا کرلیا کہ سال کے بارہ مہینے دریا نارمل حالت میں اپنی گزر گاہوں میں ہی بہتے ہیں۔حیرت تواس بات کی ہے کہ تمام پاکستانی دریا زمین کی سطح پر ہی بہتے ہیں تھوڑا سا پانی بھی سیلاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں میں جہاں جہاں شدید طغیانی کی وجہ سے بند ٹوٹ جاتے ہیں وہاں وہاں ان دریاؤں کو حکومت اور کسانوں کے باہمی اشتراک عمل سے آٹھ دس فٹ مزید گہرا کرکے پانی کی مزید گنجائش پیدا کرلی جائے اس طرح جو مٹی اور ریت میسر آئے گی اس سے دریاؤں کے بندوں کو مضبوط بنانے کا کام لیا جاسکتا ہے ۔ بطور خاص جنوبی پنجاب کے علاقوں ( جو ہر سال سیلاب سے شدید متاثر ہوتے ہیں ) میں چھوٹے چھوٹے پانی کے ڈیم بنا لیے جائیں اس طرح جو زائد پانی سیلاب کی شکل اختیار کر کے انسانی آبادیوں اور کھیتوں کو برباد کرتا ہے وہ زراعت کی ترقی کے لیے استعمال ہوسکے گا۔ اسی طرح دریائے ستلج ٗ بیاس اور دریائے راوی جن کا پانی معاہدہ سندھ طاس کے مطابق بھارت نے روک کر بہت بڑی تعداد میں ڈیم بنا لیے ہیں موسم برسات میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بھارت ان ڈیموں کا پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے انسانی بستیاںٗ سڑکیں ٗ پل اور تیار کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں ۔بھارت کو اس آبی جارحیت سے روکنے کی جرات شاید حکومت نہ کرسکے کیونکہ موجودہ اور سابقہ تمام حکمران اس مجرمانہ خاموشی میں برابر کے شریک ہیں ۔اگر ان دریاؤں کے اردو گرد پچاس مربع میل چوڑے اور لمبے تالاب بنا لیے جائیں ۔ موسم برسات میں جب بھارت ان دریاؤں میں پانی چھوڑتا ہے تو وہ پانی بھی ذخیرہ گاہوں میں محفوظ کرکے سال بھر زراعت کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے اس طرح نہ حکومت کو ہر سال سیلاب زدگان کی آبادکاری اور دیکھ بھال پر کچھ خرچ کرنا پڑے گا او رنہ ہی اربوں روپے کی کھیتوں میں تیار فصلیں ٗ مویشی اور انسانوں کو ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جن لوگوں پر ہر سال سیلاب کی آفت ٹوٹتی ہے وہی جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے وہ کیا کھاتے ہوں گے سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ان مصیبت زدوں کو پینے کا پانی کہاں سے میسر آتا ہوگا رات کو سونے کے لیے انہیں چارپائیاں اور بستر کہاں سے ملتے ہوں گے بارش سے وہ کس طرح خود کو بچاتے ہوں گے ۔اپنے بچوں کو دودھ کہاں سے پلاتے ہوں گے آگ جلانے کے لیے سوکھی لکڑیاں کہاں سے لاتے ہوں گے روٹی پکانے کے لیے آٹااور سبزیاں انہیں کہاں سے میسر ہوتی ہوں گی ۔

کس طرح یہ غریب لوگ تنکا تنکا اکٹھا کرکے اپنا گھر تعمیر کرتے ہیں اورکس طرح یہ اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے جہیز جمع کرتے ہیں کن مشکلات کا سامنا کرکے کتنی محنت سے فصلیں اگاتے ہیں پھر راتوں کو جاگ کر ان کی حفاظت کرتے ہیں کتنی مشکل سے پیسے اکٹھے کرکے دو دولاکھ روپے کی گائے اور بھینسیں خریدتے ہیں لیکن دریاؤں میں آنے والا سیلاب کتنی آسانی سے ان غریبوں کو ہرسال تباہ و برباد کرجاتا ہے پھر سیلابی پانی کے واپس ہونے تک عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو جن مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا اس کا تصور کرکے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ حکومت تباہی و بربادی کا یہ کھیل ختم کرنے میں سنجیدگی کامظاہرہ کرے اور دریاؤں کو گہرا کرنے کے ساتھ ساتھ بطور خاص نشیبی علاقوں میں سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے اتنی تعداد میں ذخیرہ گاہیں تعمیر کرے جہاں سیلابی پانی کو محفوظ کرکے کاشتکاری کے لیے استعمال کیاجاسکے اور ہر سال کی طرح سیلاب کا پانی انسان ٗ بستیوں اور کھربوں روپے کی تیار فصلوں کو تباہ نہ کرسکے اور دیہاتوں میں رہنے والے غریب بھی سکھ کاکوئی سانس سکیں ۔بے شک وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی کاوشیں اپنی جگہ لائق تحسین ہیں لیکن تباہی و بربادی کے موذی کھیل کو ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہنا چاہیئے کیونکہ ابھی پچھلے سیلاب کے زخم بھرتے نہیں ہیں کہ نیا سیلاب دہلیز پر دستک دینے لگتا ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.