سب کچھ دو نمبر

جعلی ملک،جعلی چوھدری،جعلی خواجے،جعلی راجے،جعلی شیخ۔جعلی راجپوت۔ دلہہ بھٹی جیسے عظیم مرد مجاہد کو بدنام کرتے جعلی بھٹی،اور جس کو کوئی نہ جھلے تو وہ اعوان،جعلی سردار،جعلی خان اور جعلی نیازی ویسے ٹائیگر نیازی کے ڈھاکہ پلٹن میدان کے کارنامے کے بعد نیازی ذرا کم ہی اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہیں، جعلی دیوان ،جعلی مرزے اور تو اور جعلی سید،ان سب کی تفصیل میں جانیں سے پہلے تھوڑا اور آگے بڑھیے،جی ہاں جعلی صدیقی،جعلی فاروقی برادران،جعلی عثمانی ،جعلی حیدری،جعلی علوی ،جعلی نقوی،جعلی مخدوم اور جب ذاتیں ہی جعلی ہوں تو کسی اچھے کام کسی اچھائی یا کسی اصلی اور کھرے کام کی کیسے اور کس سے توقع کی جاسکتی ہے،کیا کوئی اصلی اور کھراصدیقی جھوٹ بول سکتا ہے،کیا کوئی ایک نمبر فاروقی کسی سے دھوکا اور فراڈ کر سکتا ہے کیا کوئی عثمانی بخیل ہو سکتا ہے اور کیا کوئی حیدر کرار کو چاہنے اور ماننے والاذرا سا کڑا وقت آنے پر بھیگی بلی بن سکتا یا دم دبا کر موقع سے بھاگ سکتا ہے،کیا امام جعفر صادق کا کوئی پیروکار جاہل ، میں ہی میں ،اور غرور و تکبر کا پتلا ہوسکتا ہے ،کیا اما م زین العابدین کی تعلیمات پر عمل کرنے والا معمولی اور حقیر سی بات پر کسی کے گلے پڑ سکتا ہے،اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان ایک مومن نبی آخرالزماں سرکار دوجہاںﷺ کو رحمت اللعلمین ماننے والا اپنے کسی بھائی کا حق کھا سکتا ہے کسی اپنے بھائی کا گلا کاٹ سکتا ہے،یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہورہا ہے صرف اسی لیے کہ نجانے یہ قوم کس کمپلیکس کا شکار ہو کر جعلی منڈی کا دو نمبر مال ہو کر رہ گئی،کبھی کوئی غور تو کرے کہ انڈیا تقسیم سے پہلے کتنا بڑا ملک تھا جب پاکستان اور بنگلہ دیش کا سارا علاقہ اور آبادی بھی اس کا حصہ تھی،اس وقت اس ملک میں زندگی کیا آج سے مختلف انداز میں بسر ہوتی تھی،میرے لفظوں کا پس منظر سمجھنے کی کوشش کیجئے اور بتائے کو ئی مجھے کہ کیا اس وقت پورے انڈیا میں کوئی ایک بھی جولاہا نہیں تھا،کوئی ماہی گیر نہیں تھا،کوئی ترکھان اور راج مستری نہیں تھا،وہ لوگ اپنے کپڑے کن شیخوں اور ملکوں سے سلائی کرواتے تھے ،اپنی شیو اور حجامت کن خواجے اور چوہدریوں سے کرواتے تھے،ان کے جوتوں کی مرمت کون کرتا تھا ان کے ادھڑے کپڑوں کو ٹانکے کون لگاتا تھا،رفوگر کون تھا،مٹی کے برتن گھڑے اور پیالے کون بناتا تھا،جدید مشینوں کی عدم موجودگی میں کپڑا بنانے کے لیے کھڈیوں پہ کون بیٹھتا تھا،مسجدوں میں ماشکی کی ڈیوٹی کون ادا کرتا تھا،مٹھائیاں اور کھانے گھروں اور ہوٹلوں میں کون تیار کرتا تھا،گھوڑے کون سدھاتا اور ان کا خیال کون رکھتا ہے،گلیوں نالیوں اور محلوں کی صفائی کون کرتا تھا،تیل کی ـ:گھانیاں :کون چلاتا تھاسبزیاں اور پھل کون سی قوم اور کون سے لوگ کاشت کرتے تھے،رئیسوں کے لیے رنگ برنگے کپڑوں کی جھالوں سے تیار بگھیاں اور غریب دلہنوں کے لیے سجی سجائی:ڈولی: کون لے کر آتا تھا میرا خیال ہے اتنا کافی ہے ،جتنے کام اور نام میں نے گنوائے ہیں ان کے لیے الگ لوگ متعین ہوتے تھے جن کے آباؤاجداد اور پھر نسل در نسل وہ لوگ اس پیشے سے منسلک ہوتے تھے کوئی ایک آدھ کبھی اپنے باپ دادا کے پیشے سے بغاوت بھی کر دیتا مگر عموماً یہ سلسہ یوں ہی چلتا رہا اور کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں آج بھی چل رہا ہے،گردن میں سریا اور دو نمبر کلف لگی قمیضوں اور گھر سے باہر اونچے شملے نے دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ان لوگوں کو کمی کمین کا خطاب دے دیا یہ سوچے بنا کہ کام اور محنت میں عظمت ہے حلال روزی کمانے والے کو اﷲ نے اپنا دوست قرار دیا ہے،اور اگر یہ کمی اور کمین نہ ہوتے تو ان کے تو مردوں کو بھی کوئی نہ نہلاتا کہ خود یہ اتنے جوگے ہیں نہیں ،کہ زندگی میں بزرگوں کو بوجھ سمجھتے ہیں مرنے کے بعد ان کے جسموں کو ہاتھ لگانا اور ان کو نہلا نا توبہ توبہ،یہ وہ کمی کمین ہی ہیں جو اصل میں اس معاشرے اور نظام کا حسن ہیں کہ اگر یہ آج کام چھوڑ دیں تو صرف سینٹری والوں کی ایک دن کی ہڑتال بڑے بڑے پھنے خانوں کی چولیں تک ہلا دیتی ہے خیر بات ہورہی تھی جعلی ذاتوں اور خاندانوں کی،کہ اتنے بڑے ملک کے کروڑوں لوگ جب ہجرت کر کے پاکستان سدھارے ،تو جولاہے کدھر گئے،ماشکی اور مستری کدھر گئے،پیالے اور ظروف بنانے والے کمھار کدھر گئے،کپڑے بنانے والے درزی اور ٹانکے لگانے والے رفو گر کدھر گئے،تیل نکالنے والے تیلی اور سبزیاں اگانے والے آج کہیں مہاجروں میں نظر کیوں نہیں آتے،یہ ماننا پڑے گا کہ یا تو یہ لوگ انڈیا میں تھے ہی نہیں اور اگر تھے تو یہ پاکستان بھی آئے پھر آگے کدھر گئے ،کہیں بھی نہیں گئے ہمارے اندر ہمارے ساتھ اور ہمارے آس پاس موجود ہیں۔وجہ صر ف یہ ہے کہ جب یہ لوگ یہاں پہنچے تو خواجوں اور شیخوں جیسے لوگوں کی وہاں پر جائیدادیں زیادہ تھیں مال و دولت بھی ان کازیادہ تھا اور ظاہر ہے وہ سب کا سب وہیں رہ گیا تو یہاں پر ان کو اسی حساب سے کسی نہ کسی حد تک اکاموڈیٹ کرنا مقصود تھا،ان لوگوں کو عام افراد سے ذرا بہتر کلیم ادا کئے گئے اور بس پھر کیا تھا کہ ہر چھوٹا بڑا ،شیخ،کشمیری اور خواجہ بن بیٹھا ،کچھ ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر سید بن گئے کیوں کہ اس کے لئے نہ زبان کی کوئی ٹینشن نہ رنگ و رعب کی ہی کوئی تمیز،اور پھر وہ اودھم مچا کہ خدا کی پنا ہ آج کراچی سے لیکر خیبر تک چمن سے لیکر ناروال اور شکر گڑھ و کشمیر تک ہر جگہ مہاجر موجود ہیں لیکن کمال حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی کوئی موچی نائی یا کمی کمین چھوٹی ذات کا آپ کو نظر نہیں آئے گا،ویسے چھوٹی ذات کوئی چیز نہیں اگر ہے تو سب کی ذات چھوٹی ہی ہے کیوں کہ اﷲ نے تو تمام انسانوں کو ر آزاد پیدا کیا ہے لیکن یہاں کمپلیکس کے ماروں نے اپنی ذات بلکہ باپ تک بدلا ڈالے اور جو یہاں تک گر جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ان سے خیر کی توقع رکھنا ہی عبث ہے ،جس کا خاندان ہی جھوٹا جس کی ذات ہی دو نمبر اس کی صفات کیسے ایک نمبر ہو سکتی ہیں،کام میں عظمت ہے محنت میں بڑائی ہے اگر کام نہیں محنت نہیں تو پھر ذلالت ہی ذلالت ہے، ایک نمبر اور بڑا بننے و کہلوانے کے لیے بڑے اور اور ایک نمبر کام کرنے پڑتے ہیں، کسی کے ماتھے پہ نہیں لکھا ہوتا کہ کون کیا ہے اور اس کے آباؤاجداد کیا تھے مگر کوئی نہ کوئی : چول : ضرور وج جاتی ہے ملک صاحب سے اور چوہدری صاحب سے جو یہ سمجھا دیتی ہے کہ جناب کے اندر کیسا انسان موجود ہے اور حضرت کتنے خاندانی ہیں،اور آخر میں پھر وہی تکرار کہ کوئی اصلی صدیقی جھوٹ بول ہی نہیں سکتا،کوئی اصلی فاروقی کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں کر سکتا اور کوئی عثمانی بخیل ہو سکتا ہے نہ ہی کوئی حیدری خدا کے علاوہ کسی سے خوف ہی کھا سکتا ہے،،،،،،