پروفیسر خضر حیات جب گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج میں بطورِ
استاد پڑھاتے تھے تو ان کی شخصیت کا اس قدراثر تھا کہ آرٹس کے مضامین پڑھنے
والے طلباء جن کا ان سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا وہ بھی اس کلاس روم کے
سامنے سے نہیں گزرتے تھے ، ایک وہی نہیں بلکہ اس وقت کے سب ہی اساتذہ اپنی
شخصیت میں ایک’’ نکھا ر‘‘ رکھتے تھے اور انہیں دیکھ کر ایک امید کی کرن
پھوٹتی تھی کہ آئندہ نسل کی درست سمت کا تعین یقیناًیہی اساتذہ کریں گے۔
ایک دن پروفیسر خضر حیات سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے وقت کا ایک واقعہ
سنایا جب وہ اس کالج میں پڑھاتے تھے ، کہنے لگے کہ ’’مجھے صبح سویرے کالج
آنے کی عادت تھی یہ میرا معمول تھا کہ میں کالج ٹائم سے کچھ وقت پہلے کالج
پہنچ جاتا تھا لیکن ہمارے پرنسپل شریف چھتر تھے کہ جو مجھ سے بھی پہلے کالج
آ جاتے تھے ، کالج کا موجودہ گراؤنڈ انہوں نے ہی ذاتی کاوشوں سے ہموار کر
وایا تھا اور پھر اسکی دیکھ بھال بھی وہ بطورخاص کرتے تھے ،ا یک دن صبح
سویرے وہ آئے توکیا دیکھتے ہیں کہ درجن بھر کتے گراؤنڈ میں’’چہل قدمی‘‘ کر
رہے ہیں ، پرنسپل صاحب نے اس چوکیدا رکو بلایا جو اس گراؤنڈ کی حفاظت پر
مامور تھا اور ان سے دریافت کیا کہ گراؤنڈ میں یہ کیا تماشا لگا ہوا ہے؟
چوکیدار نے معصوم سے انداز میں کہا کہ’’ سر یہ کتے ہیں ، گراؤنڈ میں رہتے
ہیں‘‘، پرنسپل صاحب نے چوکیدا ر کی طرف غصے سے دیکھا اور اسے پانچ منٹ کا
وقت دیا کہ ان کتوں کو فوری طو ر پر نہ صرف گراؤنڈ بلکہ کالج کی حدود سے
باہر نکال دو ورنہ تمہاری نوکری بھی خطرے میں ہو گی ، پرنسپل صاحب کا یہ
کہنا تھا کہ چوکیدار نے ایک’’ بیت‘‘ لیا اور کتوں کو سی ایم ایچ سے نیچے تک
مارتا ہوا چلاگیا ، پرنسپل صاحب نے چوکیدار سے کہا کہ دیکھ میاں یہ گراؤنڈ
ہم نے بچوں کے کھیل کود،تفریح اور کالج کی خوبصورتی کے لیے تعمیر کروایا ہے
نہ کہ کتوں کی عیاشی کیلئے ، اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کی حفاظت کریں
اور اس کی خوبصورتی بحال رکھیں۔
یہ واقعہ مجھے اسی وقت یاد آیا جب کچھ دن قبل پروفیسر خدیجہ حفیظ (
مرحومہ)کی نمازِجنازہ اسی کالج گراؤنڈ میں ادا کی گئی تو نما ز جنازہ میں
شریک لوگوں میں سے ہر ایک نے حیرت کااظہار کیا کہ کیا اس کالج کا کوئی وراث
بھی ہے ، ایک فٹ سے زائد گھاس نہ صرف گراؤنڈ بلکہ اس کے اطراف میں بھی اس
طرح لہلا رہی تھی کہ جیسے وہ اس گراؤنڈ میں ہر جانے والے کو سلامی دے رہی
ہو ، ایک دفعہ پھر ان پرنسپل صاحب کی یاد آئی جو کتوں کو بھی کالج گراؤنڈ
سمیت ان ساری جہگوں پر جہاں سبزہ ہوتاہے گزرنے نہیں دیتے تھے اور ہر وقت اس
گھاس کا سر منڈوا دیتے تھے۔اب موجودہ وقت کیا یہ گراؤنڈ یا صحن اس کالج کا
حصہ نہیں ہے؟ گھاس کاٹنے یا صحن کی صفائی کرنے پر کتنا بجٹ خرچ ہوتاہے؟ کیا
کالج کی انتظامیہ کے پاس دو مالی بھی نہیں ہیں؟ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے
تو اسوقت تو یہاں’’ سبز پتی‘‘ بھی ہوا کرتی تھی جسے ہمہ وقت کوئی نہ کوئی
کالج کا مالی تراشتہ رہتا تھا ، یاد گار سے کیمپس تک کے راستے میں تو یہ اس
قدرخوبصورتی سے تراشی جاتی تھیں کہ کسی بڑے شہر کے کالج کا گمان ہوتا تھا ،
لیکن اب تو محض قدرتی گھاس ہے جسے اگر دو مزدور لگائے جائیں تو ایک دن میں
صفایا کر سکتے ہیں، کالج کے ایک کونے پر صدیوں پرانی ٹین کے شیڈ آج بھی
2005 کے زلزلے کی نشانی کے طور پر محفوظ کیے گئے ہیں جہاں رات کو کتے بسیرا
کرتے ہیں اور اکثر نشہ کے عادی نوجوان بھی اسے اپنا بسیرا بناتے ہیں، اس سے
بھی گراؤنڈ کی خوبصورتی مانند پڑتی ہے ، کالج کی عمارت میں سے ایک بلاک میں
ماڈل سائنس کالج کا بھی کیمپس ہے جسے دوسرے کیمپس سے منفرد کرنے کیلیے زنگ
آلود چادرروں سے دیوار بندی کی گئی ہے حالانکہ طلباء کا یہی زنگ دور کرنے
کیلئے یہ ماڈل کالج کا کیمپس علیحدہ کیا گیا تھا۔یہی ٹین کی چادریں فروخت
کر کے بہت اچھے قسم کی دیوار تیار کی جا سکتی ہے۔
قبل ازیں ایک عرصہ تک طلباء یہ احتجاج کرتے رہے کہ ایرا نے کالج کی عمارت
کی تعمیر میں کوتاہی برتی یاپھر نقشہ تبدیل کر لیا، ممکن ہے یہ ساری باتیں
درست ہوں ، لیکن جو عمارت وہ تعمیر کر کے گئے ہیں، اس کی حفاظت یا اس کی
خوبصورتی بحال رکھنے کی ذمہ داری بھی کیا ایراء کی ہے؟، وثوق سے یہ کہا جا
سکتاہے کہ اگر کالج سٹاف اور طالب علم ایک دن ہفتہ صفائی منائیں تو یہ سارا
کیمپس دیکھنے کے قابل ہو جائے گا، کالج کے مین گیٹ سے داخل ہونے کے بعد
اگرہر چیز پر کشش لگے گی تو یہ بچوں کی ذہنی سطح بلند کرنے میں بھی مددگار
ہو گی ۔
یہ مادرِعلمی ہماری پہچان ہے اور اس کی حفاظت اور قدر کرنا ہم سب پر فرض ہے
، کیا اگر کالج کے پاس وسائل نہیں یا پھر ملازم نہیں تو کالج اتنظامیہ کو
اس کے متبادل کوئی طریقہ نہیں کرنا چاہیے؟ بلدیہ سے خاکروب مستعارنہیں لیے
جا سکتے؟ یونیورسٹی سے دو دن کیلئے مالی نہیں لیے جاسکتے؟ کالج کے پاس
اسقدر فنڈز نہیں کہ چند مزدوروں کو کام پر لگایا جا سکے؟ کالج کیمپس کو
خوبصورت بنانے کے ایک نہیں کئی طریقے ہیں ، جن میں فنڈز بھی ضرورت نہیں،
صرف جذبہ اور حکمت عملی درکار ہے ، اس ساری تمہید کا مقصد کسی پر تنقید
کرنا نہیں ، بلکہ اصلاح احوال کیلئے مشورہ ہے جس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا
اختیار بھی کالج انتظامیہ کے پاس ہے ۔ |