ان دنوں دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو رہا
ہے۔تشنگان علوم نبوت کے قافلے رواں دواں ہیں ،دینی مدارس اور جامعات میں
داخلوں کا سلسلہ جاری ہے ۔دو ماہ تک جامعات کے درودریوا ر ویران اور سنسان
رہنے کے بعد یکایک سب کچھ جگمگا اٹھا ہے سب کچھ مسکرا دیا ہے ۔یوں لگتا ہے
جیسے بہار چلی آئی ہو ۔اپنے ماں باپ ،گھر بار اور کنبے قبیلے کو خیرباد کہہ
کرا ور اپنے راحت وآرام کو تج کر تشنگان علوم نبوی اپنی اپنی منزل کی جانب
رواں دواں ہیں ۔بعض دینی مدارس اور جامعات میں داخلوں کا سلسلہ تکمیل تک
جاپہنچا اور باضابطہ افتتا ح ہو تدریس وتعلیم کا اغاز بھی ہو چکا ہے ۔
اس تعلیمی سال کے آغاز پر کچھ چیز یں بڑی حوصلہ افزاء ہیں اور کچھ قابل غور
ہیں ۔حوصلہ افزاء تو یہ ہیں کہ ملک بھر کے دینی مدارس اور جامعات سے یہ
اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ اس گزشتہ سالون کی بہ نسبت طلباء کے مدارس دینی
کی طر ف رجوع میں اضافہ دیکھنے میں آر ہا ہے ۔اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ
ہے کہ معاشرے کے باصلاحیت ،دنیوی علوم پر دسترس رکھنے والے ،اثر ورسوخ کے
حا مل لوگوں کی بچیوں اور بچو ں نے مدارس دینیہ کا رخ کر لیا ہے ۔بڑی تعداد
ان جوان سال طلباء کی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب دینی مدارس کا
رخ کر رہے ہیں ،بعض اپنی تعلیمی اور کاروباری مصروفیت کے ساتھ ساتھ حصول
علم میں مصروف عمل ہیں ۔آج سے چند عشرے قبل کی صورت حال یہ تھی کہ لولے
لنگڑییا معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بچوں کو دینی مدارس میں بھیجا جا تا تھا ،یا
یہ کہا جاتا تھا کہ یہ بچہ چونکہ کالج اور اسکول میں نہ چل پارہا اس لیے اس
کو ہم مدرسہ میں داخل کرنا چاہتے ہیں جبکہ اب یہ صورتحال ہے کہ والدین بھی
اپنے ذہین تریب بچوں کو مدارس دینیہ میں بھیجتے ہیں اور خود لڑکے اور لڑکیا
ں از خود تقاضے اور فرمائش کر کے مدار س دینیہ میں داخلہ لیتے ہیں ۔اسی طرح
پہلے غریب غربا ء لوگوں کے بچے دینی مدارس کی طر ف رخ کرتے تھے اور بہت سے
امراء محض اپنے اسٹیٹس کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو مدارس میں
داخلہ نہیں دلوا پاتے تھے ۔ لیکن اب صورت حال بد ل گئی ہے ۔ایسا نہیں کہ
غرباء اور فقراء خاندانوں کے بچوں نے مدارس میں آنا چھوڑ دیا ہو بلکہ وہ
بھی آر ہے ہیں کیونکہ فقرا ء میں طلب ،خلوص اور وفا کا عنصر امراء سے زیادہ
ہوت ہے کہ لیکن یہ بھی ہر گز ہر گز نہیں کہ صرف فقراء کے بچے مدار میں
داخلہ لیتے ہوں بلکہ اب یہ ایک عمومی رجحان بنتا جا رہا ہے کہ امراء اور
اغنیاء سب کے بچے ہی حصول علم کے دینی مدارس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ایک اور
عجیب بات یہ سامنے آئی ہے کہ بچوں کے مقابلے میں بچیوں اور مستورات کی
تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔اگرچہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے بچیوں
کی تعداد بچوں سے بڑھ گئی ہے تاہم اس کے قریب قریب پہنچ چکی ہے ۔
ہم نے دینی مدارس کی طرف بڑھتے ہوئے طلباء وطالبات کے رجحانات اور اسباب کا
جب جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اس کی کئی وجوہ ہیں مثلاً
٭……چونکہ پوری دنیا میں دین کی طرف اور دینی اقدار ورویا ت کی طر ف رجحان
میں جہاں اور جیسے عمومی طور پر اثرات مرتب ہوئے اسی طرح ان اثرات کی برکت
سے اب دینی علوم کے حصو ل کی طلب اور ضروت بھی بڑھ گئی ہے ۔
٭……جوں جوں فتنے بڑھتے جا رہے ہیں ایسے ہی اپنے دین اور ایمان کے تحفظ کی
ذمہ داری کا احساس بھی دوچند ہوتا جا رہا ہے ۔اس وقت تمام والدین کا یہ
مشترکہ مسئلہ ہے کہ اپنی اولا د کی تربیت کے حوالے سے بہت پریشان اور فکر
مند ہیں ۔گمراہی ،بے حیائی اور بے راہ روی کے اسباب کی اس قدر کثرت اور
فروانی ہو گئی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اس دلد ل سے نکالنا چاہتے ہیں ۔بالخصوص
بچیوں کا معاملہ چونکہ بہت نازک ہے اور نام نہاد روشن خیالی اور خود ساختہ
آزادی کے نتیجے میں بچیوں کے گھروں سے بھاگنے کے واقعات میں آئے روز اضافہ
ہو رہا ہے ۔ایسے میں والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں اور بچیوں کو دین
وایمان اور شرم وحیا کی نعمت عطا ہو ا س لیے وہ انہیں دینی مدار س کی طرف
بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
٭……دینی مدارس کی طرف بڑھتے ہوئے اس رجحان کی ایک بڑی وجہ کالجز اور
یونیورسٹیز کا مخلوط ماحول اور کلچر بھی ہے جسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت
رواج دیا جا رہا ہے ۔جو والدین یونیورسٹیوں کے داخلی ماحول کو دیکھ چکے
ہوتے ہیں یا اپنے کسی ایک آدھ بچے یا بچی کی وجہ سے اس ماحول میں بچوں کو
بھیجنے کا خمیازہ بھگت چکے ہوتے ہیں وہ بھی دینی مدارس کو ترجیح دیتے ہیں
کہ کم از کم انہیں اپنے بچے بچیوں کی وجہ سے کل شرمندگی تو نہیں اٹھانا پڑے
گی۔
٭……دینی مدارس کی طرف رجحان کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس وقت عصری تعلیم کے
ہر ادارے میں تربیت کا فقدان ہے ۔غلط سوسائٹی اورگمراہ کن حلقہ احباب میں
بچوں بچیوں کے گھر جانے کے خدشات ہر وقت سر پر سوار رہتے ہیں جبکہ دینی
مدارس میں بچوں بچیوں کوبھیج کر تربیت اور ماحول کے اعتبار سے تو والدین
سکھ کا سانس لیتے ہیں ۔
٭……دینی مدارس کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ والدین
دینی علوم سے نابلد اور خود کو پڑھے لکھے کہلانے والوں کے طرز عمل سے شاکی
ہیں،وہ جب دیکھتے ہیں کہ سیکولر اور لادین اولاد والدین کو سرے سے نظر
انداز کر دیتی ہے ،شادی بیاہ کر کے دیارِ غیر میں جا مقیم ہوتی ہے او ر
والدین بیمار پڑ جائیں توا نہیں وقت دینے اور خدمت کرنے کے لیے تیار نہیں
ہوتی ،فوت ہو جائیں تو انہیں جنازہ پڑھنے ،دعائے مغفرت کرنے اور صدقات
جاریہ کا اہتمام کرنے کی توفیق تک میسر نہیں ہوتی اس لیے والدین ایسے کل سے
ڈرتے ہیں کہ کہیں خسر الدنیا والآخرۃ کامصداق ہی نہ ہو جائیں ۔
٭……دینی مدارس کی طرف رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت مروجہ عصری
تعلیم کاروبار بن کر رہ گئی ہے اور ہر آدمی کے لیے اپنے بچوں بچیوں کی عصری
تعلیم جاری رکھنے کے لیے بھاری بھرکم فیسوں کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں رہا
اس لیے وہ اپنے بچوں کو مدارس دینیہ میں بھیجتے ہیں جہاں صرف تعلیم ہی نہیں
قیام وطعام ،علاج معالجہ ،لباس اور کتابیں تک مفت دی جاتی ہیں ۔اور جہاں
تعلیم کو کاروبار نہیں ایک مشن سمجھ کا سرانجام دیا جاتا ہے ۔
٭……دینی مدارس کی طرف اس رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دینی مدارس کے نظام
ونصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت بہتری ،نظم وضبط اور معیار دیکھنے میں آرہا
ہے ۔بالخصو ص وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اس حوالے سے سب سے زیادہ
کردار ادا کیا ۔وفاق نے ہزارو ں دینی مدارس کے نیٹ ورک کو منظم اور باہم
مربوط کرنے کے لیے اور ان مدارس میں زیر تعلیم بیس لاکھ سے زائد طلباء
وطالبات کو باضابطہ تعلیمی سسٹم کا حصہ بنانے کے لیے جو خدمات سرانجام دیں
وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔دینی مدارس کی دینی تعلیم تو پہلے ہی دنیا
بھر میں سند کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اب عصری تعلیم پر جب سے مدارس نے توجہ
دینا شروع کی تو مدارس دینیہ کے طلباء بہت سے امتحانی بورڈ ٹاپ کرنے لگے
ہیں بلکہ کچھ عرصے سے یہ بات بھی نوٹ کی جارہی ہے کہ جب بھی کسی امتحانی
بورڈ کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو اس میں یا تو لڑکیاں پوزیشن ہولڈر ہوتی
ہیں یا پھر حفاظ بچے اور دینی مدارس کی دنیا میں رہ کر محنت کے عادی ہو
جانے والے خوش نصیب کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک
وڈیو گردش کر رہی ہے جس میں دینی مدرسہ کے ایک فاضل کو اتنی کثرت سے
میڈلزاور اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور ان کی کامیابی کی اتنی طویل فہرست
ہے کہ نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں یہ صرف ایک نوجوان کا معاملہ نہیں ایسی
کامیابی کی طویل فہرست ہے اس لیے بھی بہت سے والدین بچوں کو مدارس کی طرف
بھیجتے ہیں ۔
٭……دینی مدارس کی طرف رجحان کی ایک بڑی وجہ مدارس دینیہ کے خلاف عرصے سے
جاری جھو ٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی ہے ۔شاید دینی مدارس صدیوں تک
لوگوں کی اتنی توجہ حاصل نہ کر پاتے جتنی توجہ انہوں نے اس پروپیگنڈہ کی
وجہ سے مختصر سی مدت میں حاصل کرلی ہے۔اور دلچسپ ترین امر یہ ہے کہ مدارس
دینیہ کی طرف آنے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد میں نائن الیون کے بعد اور
پرویز مشرف کے دور میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیوں کہ انسان
کی یہ فطر ت ہے کہ اسے جس چیز سے روکا جاتا ہے وہ اسی میں زیادہ دلچسپی کا
اظہار کرتا ہے ۔اس لیے اگر نائن الیون سے پہلے اور بعد کی تعداد میں موازنہ
کیا جائے تو انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔
٭……دینی مدارس کی طرف رجحان کی ایک وجہ ایسے تعلیمی ادرے بھی ہیں جنہوں نے
اسکولنگ کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کریم کی بنیاد ڈالی ہے ان اداروں کی وجہ سے
بھی تبدیلی کی لہر دیکھنے میں آرہی ہے ۔
الغرض یہ تو چند ایک اسباب تھے ورنہ اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے
دینی مدارس کا نصابِ تعلیم ،معیارِ تعلیم ،مقصدِ تعلیم اور نظامِ تعلیم سب
سے منفرد اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظامِ تعلیم سے جس کو آگاہی حاصل
ہوتی ہے وہ اس سے بہر حال استفادہ کی کوشش کرتا ہے ۔اﷲ رب العزت سے دعا ہے
کہ وہ مدارس کے اس نظم کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور ہمیں اور
ہمارے بچوں کو بھی اس سسٹم کا حصہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ |