بھارت، جہاں کی حکمران جماعت کی سربراہ خود ایک خاتون ہیں۔
وہاں خواتین کے لیے صورتحال کافی تشویش ناک ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی
خواتین وہاں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ جس کے بعداس بات میں کوئی
شک نہیں رہ جاتا کہ بھارت خواتین کے لیے جہنم بنتا جارہا ہے۔گزشتہ دنوں
امریکا سے بھارت آئی ایک طالبہ نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا ہے
کہ”بھارت سیاحوں کے لیے جنت ،پر خواتین کے لیے جہنم۔۔۔“یہ الفاظ ہیں ایک
امریکی طالبہ کے، جس نے یہ جملے بھارت کا دورہ کرنے کے بعد لکھے۔ Cross
Michaela جو خود مغربی تہذیب کے سائے میں پلی بڑھی۔ اس کے لیے بحیثیت خاتون
بھارت جانے کا تجربہ کتنا تلخ رہا۔اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ وہ وہاں سے ذہنی مریضہ بن کر لوٹی اور اسکول سے غیر حاضر ہے۔اسٹڈی ٹور
پر وہاں جانے والی ”مشعلا“ کے لیے بھارت اب ایک ڈراﺅنا خواب ہے۔ وہاں گزرے
تین مہینوں کے بارے میں وہ بتاتی ہے کہ وہاں اس کے ساتھ دو دن کے دوران دو
بار زیادتی کی کوشش کی گئی۔بازاروں میں لوگ اسے چھونے اور ٹکرانے کی کوشش
کرتے رہے اور کچھ مرد تو گھنٹوں بری نظروں سے اسے گھورتے رہے۔ فیسٹیولز کے
دوران لڑکے اس کی وڈیو بناتے رہے اور اس پر فقرے کستے رہے۔امریکی طالبہ کے
مطابق جب صورتحال برداشت سے باہر ہوئی تو وہ واپس لوٹ گئی۔
امریکی طالبہ ہی نہیں بھارتی خواتین بھی ہوس کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ بھارت
میں خواتین کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی
کوئی دن ایسا گزرتا ہوں کہ بھارتی اخبارات میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی
کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔بھارت میںاس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی
ہے کہ بھارتی ”مذہبی“ پیشوا بھی اس گھناﺅنے فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں۔جس
ملک کے مذہبی پیشوا ہی برائی میں پیش پیش ہوں پھر وہاں سے برائی کو کیسے
ختم کیا جاسکتا ہے۔گزشتہ دنوں بھارت میں 72سالہ سنت آسا رام نے سولہ سالہ
لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ چودہ اگست کو آسارام کے چیلے اپنی بیٹی کو
آسارام کے” آشرم“ میں روحانی علاج کروانے کے لیے لے کر گئے تو اس نے علاج
کروانے کے لیے آنے والی سولہ سالہ لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالا، زیادتی
کے بعد سادھو نے اس واقعہ سے متعلق کسی کو بتانے پر لڑکی کو سنگین نتائج کی
دھمکی دی، لیکن لڑکی نے سب کچھ اپنے والدین کو بتادیا، جس سے لڑکی کے
والدین کا اعتماد اپنے گرو سے اٹھ گیا اور لڑکی کے والدین نے 20 اگست کو
نئی دہلی میں واقعے کی رپورٹ درج کرادی ، پولیس نے ہندو گرو کو گرفتار کرنے
کی کوشش کی تو پہلے تو اس نے واقعہ سے ہی انکار کردیا، لیکن جب واقعہ ثابت
ہوگیا تو اس نے اپنی بیماری کا بہانہ کردیا لیکن ڈاکٹروں نے جب چیک اب کیا
تو وہ بالکل صحت مند تھا۔اس کے بعدراجستھان پولیس نے ملک کے سرکردہ ہندو
مذہبی رہنما سنت آسارام باپو کو ریپ کے الزام میںمدھیہ پردیش میں اس کے
آشرم سے گرفتار کر لیا۔ اسے اس کے آشرم سے انتہائی ڈرامائی حالات میں
گرفتار کیا گیا ہے۔ آشرم میں آسارام کے ہزاروں پیروکار جمع تھے اور صورتِ
حال پر قابو رکھنے کے لیے وہاں سیکڑوں پولیس اہل کار تعینات کیے گئے تھے۔
آسارام کے حامی احتجاج کرنے کے لیے ایئر پورٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سنت
آسارام کے خلاف اتر پردیش کی ایک نابالغ لڑکی اور ان کے والدین نے 20 اگست
کو دلی میں رپورٹ درج کرائی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ لڑکی کے
والدین اسے آسارام کے پاس علاج کے لیے لے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق سنت
آسارام نے اپنے آشرم میں بچی کے ساتھ ریپ کیا اور اس بارے میں کسی کو نہ
بتانے کی تنبیہ کی۔ آسارام نے ریپ کے الزام کی تردید کی تھی اور گزشتہ دنوں
یہ الزام لگایا تھا یہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہول
گاندھی کی سازش ہے۔ انھیں جے جے پی کے کئی اعلی رہنماﺅں کی حمایت حاصل رہی
ہے۔ آسارام کے صاحبزادے اور وکیل نے ان کے دفاع میں متاثرہ لڑکی کو بھی
نشانہ بنایا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریپ کا یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سنت آسا رام بھارت کا معروف مذہبی پیشوا ہے۔سنت آسا رام کا نام
پہلے بھی کئی تنازعات میں سامنے آچکا ہے۔کچھ عرصے پہلے گجرات میں ان کے
آشرم سے بھی2بچوں کی لاشیں ملی تھیں۔کئی اعلیٰ سیاسی رہنماﺅں اور اہم
شخصیات سمیت سنت آسارام کے لاکھوں پیروکار ہیں اور راجستھان دلی، گجرات،
مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور اتراکھنڈ ریاستوں میں اس کے بڑے بڑے آشرم اور
مراکز ہیں۔ ریپ کا مبینہ واقعہ راجستھان کے جودھ پور شہر کے آشرم میں میں
پیش آیا ہے۔ ریپ کی رپورٹ لکھانے کے کئی روز بعد بھی پولیس نے انہیں گرفتار
کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن ممبئی کے حالیہ ریپ کے بعد میڈیا میں یہ بحث چھڑ
گئی کہ آسارام کو ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے بچایا جا رہا ہے۔ ادھر متاثرہ
لڑکی کے والد نے ان کی گرفتاری کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی اور پولیس
پر ان کی گرفتاری کے لیے دباﺅ بڑھتا جا رہا تھا۔ جمعے کے دن آسارام کے
حامیوں نے آشرم کے باہر جمع صحافیوں پر حملہ کیا تھا جس میں میں متعدد
صحافی اور کیمرہ مین زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے انہیں خود کو حکام کے جوالے
کرنے کے لیے 30 اگست تک کا وقت دیا تھا۔ لیکن وہ جمعہ کی شام سے اپنے آشرم
میں روپوش ہوگیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہبھارت میں پنڈتوں، پجاریوں اور سادھوﺅں
کی جانب سے عقیدت مند خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات عام ہیں۔خواتین کے
حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں ”مذہب“کے معاملات سے جڑے سادھوﺅں
، پجاریوں اور پنڈتوں کی ایک بہت بڑی تعداد زیادتوں کے واقعات میں ملوث
ہے۔حالیہ واقعہ میں بھی اگرچہ ”ٓآسو رام سیرومالانی“عرف”باپوآسا رام“ کو
جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن ملک بھر میں اس کے بیس لاکھ چیلے ہیں جن میں کئی
اعلیٰ سرکاری افسران، عہدیدر اور سیاست دان شامل ہیں، پولیس اور افواج کے
اہلکار بھی شامل ہیں ، اس لیے یہ امکان کم ہی کہ اسے سزا دی جائے گی۔
بھارت میںعورتوں کی آبروریزی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
بھارت کے نیشنل کرائم بیورو (این سی آربی) نے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف
کیا ہے کہ بھارت میں ایک گھنٹے میں دو عورتوں کو آبرورزی کا نشانہ بنایا
جاتا ہے اور گزشتہ سال ملک میں آبروریزی کے واقعات میں 7.2فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 133 معمر عورتوں کو بھی آبروریزی کا
نشانہ بنایا گیا۔ خواتین کو عصمت ریزی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے
حوالے سے ریاست مدھیہ پردیش سرفہرست ہے۔ پولیس اور سرکاری اعدادوشمار کے
مطابق گزشتہ سال بھارت میں آبروریزی کے 20737 کیس درج کیے گئے۔ بھارتی
دارالحکومت نئی دہلی میں 602 عورتوں کو آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ
ریاست اترپردیش ، مغربی بنگال اور راجستھان میں بھی اسی بارے میں صورتحال
انتہائی خراب ہے۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہرسال لاکھوں عورتوں
کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم بیشتر واقعات میں ملزمان کے
خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا اور بیشتر لوگ معاشرتی مسائل کے باعث پولیس کے
سامنے مقدمات درج کرانے سے گھبراتے ہیں۔ ”بھارت میں جرائم “ کے موضوع پر
تیار کی جانے والی رپورٹ میں نیشنل کرائم بیورو نے کہا ہے کہ درج ہونے والے
20737 مقدمات میں سے 19188 کیسوں میں ملزمان کی شناحت کے باوجود زیادہ تر
کے خلاف کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ زیادتی
کا نشانہ بننے والی 11984 عورتوں کی عمریں 18 سے 30 برس کے درمیان تھیں۔
بھارت میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کے مسلسل واقعات نے ملک
کی بڑی سیاحتی صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سے وہاں کاروباری حلقوں
میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے بھارت میں خواتین کے ساتھ
جنسی زیادتی کے واقعات مسلسل بین الاقومی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن رہے
ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں خواتین سیاحوں کی آمد میں 35 فیصد کمی واقع
ہوئی ہے۔ بھارتی ایوان صنعت و تجارت کی جانب سے جاری کیے گیے اعدادوشمار کے
مطابق بھارت میں سیاحتی سرگرمیوں میں مجموعی طور پر 25 فیصد کمی آئی ہے۔
تعطیلات کیلئے بھارت آنے والے غیر ملکی سیاح اب دیگر ایشیائی ممالک کا رخ
کر رہے ہیں۔پچھلے دنوں اقوام ِ متحدہ کی جانب سے بھارت بھیجے جانے والے وفد
کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں جنسی تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات میں
مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی واقعات پورے بھارت میں پھیلے دکھائی دیتے
ہیں۔اقوام ِ متحدہ کا وفد اپنے دس روزہ دورے میں بھارت کی مختلف ریاستوں
میں گیا اور وہاں پر حالات کا جائزہ لیا۔ اقوام ِ متحدہ کی سفارتی نمائندہ
راشدہ منجو کہتی ہیں کہ بھارتی خواتین کو عوامی جگہوں، خاندانوں اور دفتروں
میں ہراساں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا ایک معمول ہے۔ ان کے الفاظ، ”ہر
جگہ عدم تحفظ کی فضاءہے۔ عوامی مقامات ہوں یا پھر پبلک ٹرانسپورٹ، عورتوں
کو کہیں بھی جنسی طور پر ہراساں کر لیا جاتا ہے یا پھر جنسی تشدد کا نشانہ
بنایا جاتا ہے۔“واضح رہے کہ بھارت اپنے اس گندے کلچر کو پاکستان میں بھی
پھیلانا چاہتا ہے، بھارتی فلمیں، ڈرامے اور میڈیا پر دکھایا جانے والا گند
اسی سازش کا حصہ ہے تاکہ پاکستان بھی بھارت کی راہ پر چل نکلے اور سونیا
گاندی کی اس بات کو سچ ثابت کردکھائے کہ ”ہم پاکستان کو جنگ لڑے بغیر فتح
کرلیں گے۔“ |