میں اپنے اردگرد نظر دوڑاؤں تو ہر طرف عجیب نفسا نفسی ـ‘
پریشانی‘ ڈپریشن‘بے سکو نی اورایسی ہی مضحمل کر دینے والی صورتِحال نظر آتی
ہے۔ یہ ساری دنیا کسی میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے جہا ں ہر کو ئی لڑ
تو اپنے اپنے طریقے سے رہا ہے مگر سب کا مقصد ایک ہے۔ اور مقصد ہے
survival۔ دورِحا ضر کا ہر انسان اس میں شا ملِ کردار نظر آتا ہے۔سب ایک نا
ختم ہونے والی دوڑ میں شریک اندھا دھند بھا گتے جا رہے ہیں۔ survival اور
status کا ایک ایسا منہ زورطوفان اور جنون ہے کہ وہ سر سے پا ؤ ں تک حرص و
حریص کی گرد میں اٹے ہیں کہ نا تو انھیں کچھ سنائی دیتا ہے اور نا
دکھائی۔بس ہر کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل کر لینے کی چاہ نے دیوانہ کر رکھا
ہے ۔ سب ایک دوسرے کو کچلتے ‘ مسلتے ‘ دھکیلتے‘ حق مارتے ‘ ڈاکے ڈالتے‘
رشوت دیتے ‘لیتے‘غلط کاریاں کر تے ‘ حرام کھاتے اور نجانے کیا کیا کرتے چلے
جا رہے ہیں ۔ صر ف پیسے اور سٹیٹس کے لیے۔ذرا سو چئیے ایسا کیو ں ہے؟ کہ ہر
انسا ن survival))کے لیے ایک لا محدود دوڑ میں لگا ہو ا ہے جسے میرے نزدیک
world war III) )کہنا غلط نہیں ہے۔جب کہ ناشکرے انسان کی ناقص عقل اپنے رب
کے ارشاد پہ غورنہیں کرتی ارشادِباری تعالیٰ ہے ـکہ اگر میں تمھارا رزق روک
لوں تو وہ کو ن ہے جوتمھیں رزق دے۔ اسی طر ح رسولﷺ نے فرمایا ـ ــ’’ اگر تم
لوگ اﷲ پر اس طرح بھروسا کرو جیسے اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں
اس طرح رزق دے جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے۔ وہ صبح (گھو نسلوں سے ) بھو کے
روانہ ہو تے ہیں اور شا م کو سیر ہو کر آتے ہیں۔ــ‘‘تو گو یا رزق کی ذمہ
داری تو خو د اﷲ لے رہا ہے وہ انسان سے وعدہ کر رہا ہے کہ اس کا رزق اس تک
پہنچ کر ہی رہے گا پھر انسان کیو ں نہیں سمجھتا ؟ کیا وہ اپنی عقل و طا قت
کے بل بو تے پر یہ دعویٰ کر تا ہے کہ وہ اس سے زیا دہ رزق حا صل کر لے گا
جتنے کا وعدہ اس کے رب نے کیا ہے؟ یقینا نہیں ۔ایک رزق وہ ہو تا ہے جو انسا
ن کے پیچھے بھا گتاہے ‘ ایک وہ ہو تا ہے جس کے پیچھے انسا ن بھا گتا ہے ۔
اور پھر وہ اپنی عقل اور سوچ سے تخلیق کیے رزق کے پیچھے ایسی اندھی آنکھ سے
بھا گتا ہے کہ اسے خو د کے پیچھے بھا گتا رزق دکھائی ہی نہیں دیتا اور پھر
وہ غلاظتو ں کی دلدل میں دھنستا چلا جا تا ہے ۔ اس مقا م پر اب چا ہے وہ
حلال روزی کمائے یا حرام ‘اسے فرق نہیں پڑتاکیو نکہ حلال اور حرام کے
درمیان بس ایک ہی چیز حائل ہو تی ہے زندہ واجاگر ضمیر ۔ جیسے ہی خواہشا ت ،لالچ
و حریص کا منہ زور سیلاب اسے ڈھا دیتا ہے تو پھر حلال و حرام کے درمیان کا
فرق مٹ جا تا ہے۔تو ایسے اس نئی جنگ کے چھڑنے کی وجہ انتہائی صا ف ہے کہ
انسا نی حرص بڑھ گئی ہے اس نے اپنی خواہشا ت کو ضروریا ت کا درجہ دے دیا ہے
اور یہ اتنی لا محدود ہیں کے محدود سی زندگی ختم ہو جا تی ہے مگر یہ بے لگا
م گھو ڑے کی طرح سر پٹ دوڑتی رہتی ہیں۔تبھی آج کا انسا ن خواہشات کو drive
نہیں کر تا بلکہ خواہشا ت اسے driveکر تی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’کامیاب
وہ ہے جسے اسلام کی ہدایت مل گئی ‘ ضرورت کے مطابق رزق مل گیا اور وہ اس پہ
قا نع ہو گیا‘‘۔اورہم نے قنا عت کی بجائے بے لگام خواہشا ت کو ضروریا ت کا
لیبل لگا دیا ہے ۔ اس معا ملے کی نسبت حضورپاکﷺ نے فر مایا ۔’’ جس کی صبح
اس حا ل میں ہو ئی کہ اسے بد ن میں عا فیت ‘ اپنے بارے میں امن اور دن بھر
کی خوراک حاصل ہو ‘ اسے گویا پوری دنیا جمع کر کے دے دی گئی۔‘‘ اور میں
پورے وثو ق سے کہہ سکتاہو ں کہ ہم میں سے بیشتر کی صبح اسی حالت میں ہوتی
ہے بات تو صرف ماننے اور شکر گزاری کی ہے۔ نبی کریم ﷺکا ارشا د ہے ’’ (دنیامیں)
اپنے سے نیچے والے کو دیکھو‘اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھو‘ اس سے یہ ہو گا
کہ تم اﷲ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔‘‘ جبکہ ہم دن رات یہی دیکھتے رہتے
ہیں اور پھر صبح ہوتے ہی دوبارہ سے نقل شروع کر دیتے ہیں مال میں دوسرے پر
برتری لے جا نے کی ریس۔ایسی بیمارسوچ رکھنے والے انسانوں سے جو ایسے میں
پھر حرام کماتے ہیں‘ ہمدردی اوران کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے۔کیونکہ
وہ رب جس نے انھیں تخلیق کیا رازق تو وہ ہے ۔ اگر وہ ایک پتھر میں مو جود
کیڑے کو رزق مہیا کر سکتاہے تو کیا وہ ایک چلتے پھرتے ‘ کوشش کر تے انسان
کو رزق نہیں دے گا؟ ارشادِنبویﷺہے۔’’امارت سامان کی کثرت سے نہیں ہوتی ‘
بلکہ امیری تو دل کی امیری ہے۔‘‘دولت مند وہ ہے جس کا دل دولت مند ہے ایسا
آدمی تھوڑے سے مال سے اتنی خوشی حاصل کر لیتاہے جو حریص آدمی کو بہت زیادہ
مال سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ پیسہ یقینا غیر اہم نہیں ہے اس کی اہمیت اپنی
جگہ بجا سہی اعتراض یہ ہے کہ اپنی بے جا فضول و غیر اہم خواہشا ت کے لیے
ایسے راستے اختیار نہ کیے جائیں جو آپ کو گمراہو ں میں سے کر دیں کہ جسم
ڈھانپنے والے کپڑے سے لے کر پکنے والے کھا نے تک میں حرام کی آمیزش ہو۔ کیو
نکہ سب کر نے کہ بعد بھی رازق تو وہ ہی رہے گا ـــ‘جس نے ہمیں خلق کیا۔ تو
پھر اس کے دئیے ہو ئے رزق کو چیلنج کر نے کا فائدہ؟؟؟عقل مندی یہی ہے کہ
عطا کر دہ وسائل پر قناعت کی جائے اورانھیں بھرپور طریقے سے جیا جائے ۔ کیو
نکہ زیادہ حاصل کر لینے کی خواہش نے ہمیں چھو ٹی چھو ٹی خوشیو ں سے محروم
کر دیا ہے اور اسکی جگہ حسد‘ بغض ‘ کینا‘ ٹینشن‘ ڈپریشن اور کمپلیکس نے لے
لی ہے۔ ہمیں ایک ہی زندگی عطا کی گئی ہے اسے ان سب کی نظر نہ کریں بلکہ
اپنے ایمان اور اﷲ کے درمیان تعلق کو مضبوط کیجئے۔تعلق بھلاکمزورہومگر صدقِ
دل سے ہو تو سہی ۔ ممکن ہے کہ آگاہی کے کسی لمحے وہ تعلق انتہائی مضبوط ہو
جائے۔ کیونکہ بندہ جب رب کی طر ف ایک قدم بڑھاتا ہے تو وہ دس قدم اپنے بندے
کے قریب آجاتا ہے۔یقینا وہ جاننے والا‘سننے والا‘ رحم کر نے والا ہے۔ اہمیت
اس بات کی ہے کہ آپ کتنی سچائی سے اس کی طرف پلٹتے اور اس کے سامنے ماتھا
ٹیکتے ہیں ۔ اپنا رابطہ اور امید اس رب سے جوڑ لیجئے ۔ ایک دفعہ پوری سچائی
اور ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ کیجئے اس کی طرف رجوع کیجئے۔یقین جانیئے
پھرآپ کو کسی اور بھروسے ‘ یاسہارے کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہے
گی۔یہاں تک کہ آپ کی تمام مادہ پرستی ایک وقت پر خود ہی دم توڑجا ئے گی پھر
آپ کو حرام جیسی لعنت اور survivalکی اس جنگ سے بھی نجات مل جائے گی۔ |