ہیما مالنی کی نصیحت ‘امید کی کرن

وہ ہندوستان جس پر کبھی بے تحاشا ناز کیا جاتا تھا اور اس کی تقدیس کی قسمیں کھا ئی جاتی تھیں۔اس کی پاکیزگی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اس کی تہذیب اور رشتوں کی طہارت اقوام عالم کے لیے قابل تقلید تھی ‘اس کے بتا ئے اصولوں کی روشنی میں اقوام عالم ز ندگی گزارنے میں فخر محسوس کرتی تھیں ․․․․․․․افسوس !آج وہی ہندوستان کسی چیچک زدہ شخص کی طرح ہو گیا ہے ۔ جس سے سب نفرت کرتے ہیں اوراسے کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیتے ہیں۔ شاید اسے ہی زوال کہتے ہیں ۔شاید اسے ہی پستی کہتے ہیں․․․․آج وہ ہندوستان قتل‘خون ‘لوٹ مار اورعصمت ریزیوں کی آماج گاہ بن چکا ہے ۔یہاں ان دنوں نئی دہلی ‘ ممبئی ‘ بنگلور ‘ جودھپور ‘کلکتہ جیسے بڑے پیمانے کے عصمت دری کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔نیز چھوٹے قسم کے جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ ساتھ اس گھناؤنی کوشش میں بڑے بڑے مذہبی گر و اور پیشوا بھی ملوث ہورہے ہیں ۔حال میں آسارام باپو کی درندگی کے واقعات بچے بچے کی زبان پر ہیں۔اس پر حکومتوں کا آپسی خلفشار اور فسطائی جماعتوں کی ناجائز حمایت اس کے مذموم سلسلے کو اور آگے بڑھا رہی ہیں۔

ہندوستان کی آزادی اوروقار کی بحالی کے لیے جان قربان کر نے والے باغبانوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دن ان کے ارمانوں اور امنگوں کا لگایا ہوا چمن اپنوں کے ہی ہاتھوں بری طرح بر باد ہو گا اوراس میں ایسی آتشیں خزاں آئے گی کہ پوری دنیا اس سے نفرت کرے گی اسے شرمسار کر ے گی ․․․․․․یہ سب ہو رہا ہے اور ہندوستان کی آن و شان پر مرنے والوں کی قربانیاں رائیگاں جارہی ہیں ۔

یہ حالات کیوں ہو رہے ہیں اور کیوں یہ مہلک جر ائم عام ہو تے جارہے ہیں ؟ اسی طرح ان پر روک کس طرح لگائی جاسکتی ہے ؟ان سوالوں کے جواب ہر دانشور اور مفکر نے اپنے اپنے طور پر دیے ہیں اور ان کے انسداد کے لیے بھر پور کوششیں بھی کی ہیں مگر یہ سیلاب بڑھتا ہی جارہا ہے جس کی چپیٹ میں بڑے بڑے شہر آتے جارہے ہیں ۔ اندھیر ے بڑھتے جارہے ہیں ․․․․․اور تایکیاں گہری ہوتی جارہی ہیں۔نہ جانے اندھیروں کی یہ رات کتنی طویل ہوتی کہ اچانک کہیں دور سے اجالے اور امید کی ایک کرن ’ شعلے‘ کی’ بسنتی ‘اورحقیقی دنیا کی ’ڈریم گر ل‘ ہیما مالبنی کی صورت میں نظر آئی ۔انھوں نے پونے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں نیزاپنے ٹوئٹر پر چند نصیحت آمو ز باتیں کہہ کر اجالوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ․․․․ہماری لڑکیاں جو محفوظ نہیں ہیں اور جو ان کی عصمتیں سر بازار لٹ رہی ہیں۔اس کے ذمے دار جہاں غیر سماجی عناصر ہیں وہیں ہماری بیٹیاں اور لڑکیاں بھی ہیں۔ انھوں نے اس خیال کا خلاصہ کر تے ہو ئے کہا کہ اکثر لڑکیاں اکیلے ہی گھر وں سے باہر نکل جاتی ہیں یہ کتنی بے حیائی کی بات‘ایسے میں وہ مجرموں کی ہوس کی شکار ہوجاتی ہیں۔اس لیے لازم ہے کہ چاہے دور ہو یا پاس و ہ کبھی اکیلا باہر نہ نکلنا چاہیے بلکہ گھر کا کو ئی نہ کو ئی فرد ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسے لڑکے جو ’بوائے فرینڈز‘ ہوتے ہیں وہ تو اور بھی مصیبت لاتے ہیں ان سے تو دور ہی رہنا چاہیے ․․․․․اور میں کہتی ہو ں کہ ہمارے سماج میں ’گر ل فرینڈ و بوائے فرینڈ ‘کیا بلا ہے ؟یہ کیسا رشتہ ہے ؟اس کے لیے ہماری تہذیب میں کہاں جگہ ہے ؟مگر تعجب ہے سب اسے تسلیم کرتے ہیں اور برائیوں کے فروغ میں دیکھتے رہتے ہیں کو ئی کچھ نہیں کہتا ۔حالانکہ اکثر و بیشتر یہ عناصر ہی سماج میں تباہی لاتے ہیں ۔ ان سے تعلیمی سلسلوں میں بھی رکاوٹ آتی ہے اور لڑکیاں وقت سے پہلے دوسرے جہانوں کی سیر کر نے لگتی ہیں۔خود فیصلے کر نے لگتی ہیں اور دوسروں کی دخل اندازی پسند نہیں کرتیں چاہے وہ ماں‘ باپ‘ بھا ئی کوئی بھی ہو ۔اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے اس لیے اسے اپنے دشمن اور غیر دوست دکھا ئی دیتے ہیں․․․․․․

انھوں نے مزید کہا کہ زمانہ چاہے کتنا ہی آگے بڑھ جائے اور چاہے کتنا ہی آگے ہمارا ملک چلا جائے لیکن ہم مشرقی اقدار سے بغاوت نہیں کر سکتے ۔مشرق جو ہماری اصلی پہچان ہے اور ہماری زندگی کی علامت ۔ہم مشرقی اقدار کو چھوڑ کر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ جو لوگ ان خیالات کو پس ماندہ اور دقیانوسی کہتے ہیں وہ جاہل ہیں ۔انھیں پتا ہونا چاہیے کہ ہمیں عالم میں اسی کی بدولت امتیاز حاصل ہے۔ ہمیں عورت اور مرد کے مابین واضح فرق کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔محرم غیر محرم کا امتیازہماری سجاوٹ کے ہیرے موتی ہیں۔ تہذیب و تمدن کی پاسداری مشرق پر اخلاقی فرض ہے ۔ جسے ہر حال میں ادا کر نا ہوگا ۔
میں کہتی ہوں کہ آج سے پہلے بھی لوگ زندگی گذارتے تھے ۔سو سال پہلے بھی انسان جیتے تھے کیا وہ ایسے بے راہ ہو ئے اور انھوں نے اپنے بندھنوں کو توڑا تھا؟کیا انھوں نے مغربی اطوار کو اپنا کر مشرقی اقدار کو ترک کر دیا تھا ؟کیا ان کی بہن بیٹیوں نے عریانیت کو اپنا یاتھا؟نہیں ہر گز نہیں ‘تاریخ گواہ ہے کہ وہ بھوکے رہے ‘تنگی ترشی کے حالات میں رہے‘کپڑو ں میں پیوند لگاکر انھوں نے زندگی بسر کی اس کے باوجود انھوں نے وہ کارنامے انجام دیے جو آج بھی زندہ ہیں اور ان سے ہم فایدہ اٹھا رہے ہیں ․․․․․اب مجھے یہ نیم انگریزی پروڈیکٹ بتائیں کہ انھوں نے اپنے ملک وطن اور سماج سے بغاوت کر کے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے بس یہی ہے کہ ماں باپ کو قتل کر دیا ۔اپنے پیار کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بے دردی سے کچل دیا۔آج کی نسل اسے بڑا کارنامہ کہتی ہے کہ پارکوں میں غیرلڑکوں کے ساتھ گھومے پھرے ۔اگر یہ نہیں تو کو ئی مجھے بتا ئے اس نسل نے اور کیا کارنامہ انجام دیا ہے․․․․․

اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لڑکیاں رات گئے گھروں کو واپس آتی ہیں ‘ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اتنی دیر کہاں تھیں تو کبھی کو ئی بہانہ اور کبھی کسی کی پارٹی کی آڑ لے کر بات بنا دی جاتی ہے اس وقت تو غضب ہوجاتا ہے جب ایسا روز روز ہوتا ہے اور ماں باپ یا رشتے دار اس سے پوچھتے ہیں تو وہ انھیں ایسے دیکھتی ہیں جیسے آزادی کے دشمن کو دیکھا جاتا ہے ۔ پھرناقابل بیان واقعات رونما ہوجاتے ہیں اور خبریں چھپتی ہیں بیٹی ماں باپ اور خاندان کے بڑے لوگوں کو قتل کر کے بوائے فرینڈ کے ساتھ فرار ہو گئی ۔․․․․ یہ سب کیا ہے ‘یہ کونسی تہذیب درآئی ہے ہمارے سماج اور معاشروں میں۔ان حالات کی ذمے دار جہاں لڑکیاں ہیں ان سے زیادہ کہیں ماں باپ ہیں ۔بچہ گھرسے ہی سیکھتا ہے ‘جب ماں بچوں کی تربیت کر نے بجائے انھیں اچھا برا بتانے کے بجائے سیریل اور فلمیں دیکھیں گی ۔ان کی خیال کر نے بجائے انھیں ٹی وی پر و گراموں کا خیال ہوگا تو ایسا نہ ہوگا تو پھر کیسا ہوگا ۔کیا اس سے اچھا ئی کی امید کی جاسکتی ہے۔کیا ایسے معاشرے سدھر سکتے ہیں ؟کسی بھی طرح نہیں اس لیے ضرورت ہے کہ ماں باپ اور لڑکیاں اپنی اقدار سے کسی طرح غافل نہ ہوں ۔انھیں ہمیشہ مشرقیت کے لباس کو زیب تن کیے رہنا چاہیے اور مشرق و مغرب کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشرق اور مغرب میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے․․․․․․․․․․۔‘‘

ہیمامالنی کی ان کی حقیقت بھری باتو ں پر کانفرنس میں موجود لوگوں اور خواتین کے منہ بننے لگے ہوں گے اور انھوں نے پہلو پہ پہلو بدلے ہوں گے ۔ہیما جی کے ٹوئٹر پر آنے والے بہت سے مخالفت کے ٹوئٹ اور رد عمل یہ ہی ظاہر کرتے ہیں ۔ لوگوں کے منہ کچھ کہنے کو کھل رہے ہیں اس طرح وہ اس آئینے کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں جو حقیقت بیان کررہا ہے ۔یہ کتنی بڑی حماقت ہے ان کی اور بدقسمتی․․․․․․ مگر ہیما جی نے بے خوف اور ببانگ دہل یہ باتیں کہیں ۔شاید انھوں نے ان زخموں پر مرہم پٹی کر نے سے بہتر جرح کاری کر نا ہو گا سمجھا ہو گا ۔شاید ان کے سامنے یہ حقیقت واشگاف ہو گئی ہو گی کہ احتجاج ‘مظاہروں ‘ کھوکھلی بیان بازیوں سے اب کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔اب اس کا طریقہ بدل جانا چا ہیے ۔یہ وقت کا تقاضا اور حالات کی پکار بھی ہے۔

میں ہیماجی کے طریقہ کار اور اس جرات مندانہ انداز کی بھر پور تائید کر تا ہوں اور انھیں مبارک باددیتا ہوں کہ انھوں نے ملک کے دھواں دھواں حالات میں بہت شاندار اور بصیرت افروز باتیں کہہ کر برائیوں کے دہانے کو بند کر نے کی کوشش کی ہے ۔کاش ہیما جی کی یہ باتیں اور پہلے آجاتیں اور ان برائیوں پر کچھ قدغن لگتی ۔لیکن ابھی بھی شاید دیر نہیں ہو ئی اور اند ھیر و ں میں ـضرور اجالا ہوگا۔

احساس
O زمانہ چاہے کتنا ہی آگے بڑھ جائے اور چاہے کتنا ہی آگے ہمارا ملک چلا جائے لیکن ہم مشرقی اقدار سے بغاوت نہیں کر سکتے ۔مشرق جو ہماری اصلی پہچان ہے اور ہماری زندگی کی علامت ۔ہم مشرقی اقدار کو چھوڑ کر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ جو لوگ ان خیالات کو پس ماندہ اور دقیانوسی کہتے ہیں وہ جاہل ہیں ۔انھیں پتا ہونا چاہیے کہ ہمیں عالم میں اسی کی بدولت امتیاز حاصل ہے۔ ہمیں عورت اور مرد کے مابین واضح فرق کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔محرم غیر محرم کا امتیازہماری سجاوٹ کے ہیرے موتی ہیں۔ تہذیب و تمدن کی پاسداری مشرق پر اخلاقی فرض ہے ۔ جسے ہر حال میں ادا کر نا ہوگا ۔
Oمیں کہتی ہوں کہ آج سے پہلے بھی لوگ زندگی گذارتے تھے ۔سو سال پہلے بھی انسان جیتے تھے کیا وہ ایسے بے راہ ہو ئے اور انھوں نے اپنے بندھنوں کو توڑا تھا؟کیا انھوں نے مغربی اطوار کو اپنا کر مشرقی اقدار کو ترک کر دیا تھا ؟کیا ان کی بہن بیٹیوں نے عریانیت کو اپنا یاتھا؟نہیں ہر گز نہیں ‘تاریخ گواہ ہے کہ وہ بھوکے رہے ‘تنگی ترشی کے حالات میں رہے‘کپڑو ں میں پیوند لگاکر انھوں نے زندگی بسر کی اس کے باوجود انھوں نے وہ کارنامے انجام دیے جو آج بھی زندہ ہیں اور ان سے ہم فایدہ اٹھا رہے ہیں ․․․․․اب مجھے یہ نیم انگریزی پرو ڈیکٹ بتائیں کہ انھوں نے اپنے ملک وطن اور سماج سے بغاوت کر کے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے بس یہی ہے کہ ماں باپ کو قتل کر دیا ۔اپنے پیار کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بے دردی سے کچل دیا۔آج کی نسل اسے بڑا کارنامہ کہتی ہے کہ پارکوں میں غیرلڑکوں کے ساتھ گھومے پھرے ۔اگر یہ نہیں تو کو ئی مجھے بتا ئے اس نسل نے اور کیا کارنامہ انجام دیا ہے․․․․․
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62289 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More