باسمہ تعالیٰ
ہندستان اس وقت بڑے ہی نازک دورسے گذررہاہے،ہماراملک سماجی،اخلاقی،معاشی
اورسیاسی طورپرتباہ ہوچکاہے،ملک میں آئے دن رونماہونے والے واقعات ہندستان
کو عالمی سطح پرشرمندہ کررہے ہیں،ایسامحسوس ہورہاہے کہ ہندستان جوکہ دنیاکی
قدیم تہذیب وثقافت کی علامت تھی،آج اسی قدیم تہذیب کے باشندے،سیاست داں
اورتاجراس تہذیب وثقافت کاجنازہ اپنے کاندھوں پہ اٹھائے اسے دفن کرنے کی
تیاری میں جٹے ہوئے ہیں۔ایک طرف ملک سماجی اوراخلاقی طورپراتناگرچکاہے کہ
عورتیں سڑکوں پر تو دور گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں،روزکے اخبارات اس طرح
کی سرخیوں اورخبروں سے بھری رہتی ہیں کہ آج فلاں مقام پہ عورت کے ساتھ دست
درازی کی گئی توآج فلاں میٹرو پولیٹن سٹی کے فلاں علاقہ میں کسی دوشیزہ کی
عصمت تارتارکی گئی،اسی طرح معاشی اعتبارسے آج ملک اتناپسماندہ ہوچکاہے کہ
آزادی کے بعد۶۷؍سالوں میں ترقی کے ۶۷؍ زینے طے کرنے کے بجائے تنزلی کی ۶۸؍کھاری
نیچے چلاگیاہے،۱۹۴۷ء میں جب ملک آزادہواتھااس وقت ملک کی کرنسی ڈالرکے شانہ
بہ شانہ کھڑی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گذرتاگیابجائے روپیہ ترقی کرنے کے
نیچے کی طرف گرتاچلاگیااورآج اس مقام پرپہونچ چکاہے کہ ۶۷؍سالوں میں روپیہ
اپنے وقت کی سب سے بڑی گراوٹ کے ساتھ ۶۸؍ کی قدرکوپہونچ گیاہے جوکہ ملک کی
معیشت کی تباہی کے واضح اشارے ہیں،ملک کی سیاست کایہ عالم ہے کہ سیاست سے
اخلاقی قدریں ناپیدہوچکی ہیں ا ورایمانداری پرانے ز مانے کی بھولی بسری
یادیں بن چکی ہیں،آج سیاست کوپیسہ کمانے اورغیراخلاقی طاقت حاصل کرنے
کاشارٹ کٹ ذریعہ سمجھاجاتاہے جس کے ذریعہ وہ ایم ایل اے یاایم پی بن کربہت
ہی کم وقت میں سماج کاسب سے امیرترین اورطاقتورترین شخص بننے کے اپنے
دیرینہ خواب کوپوراکرتاہے،خواہ اس کے لیے کتنی ہی انسانی جانوں کوضائع
کرناپڑے یا پھر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوناپڑے،ا س سے اسے کوئی فرق
نہیں پڑتاہے،اسے بس ووٹ اورنوٹ چاہیئں،اس ووٹ اورنوٹ کے غیراخلاقی کھیل
کاہندستان کی سماجی ، معاشی اورسیاسی تباہی میں اہم کردارہے،جس سے ملک
کاہرشخص واقف ہے۔
گذشتہ سال ۱۶؍دسمبرکوملک کی قومی راجدھانی دہلی جسے بعدمیں لوگوں نے ریپ کی
راجدھانی کہناشروع کردیا،ایک میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ سماج کے کچھ درندوں
کی جانب سے اجتماعی عصمت دری کاواقعہ پیش آتاہے جوکہ اتناخطرناک ثابت
ہوتاہے کہ وہ لڑکی زخموں کی تاب نہ لاکراس دارفانی کوالوداع کہہ دیتی
ہے،ملزمین جوکہ مجرمین ہی ہیں ان پر مقدمہ شروع ہوتاہے ،اس میں سے ایک ملزم
کووکیل دفاع نابالغ ثابت کردیتاہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جسے وکیل دفاع
نابالغ ثابت کرکے سزاکم کرانے کی بات کرتاہے (اورجیساکہ عدالت نے اسے
نابالغ مانتے ہوئے صرف ۳؍سال کی سزاسنائی ہے جس پرورثہ ناراض ہیں اورورثہ
کیاپورے ملک کاانصاف پسندطبقہ اس فیصلہ سے ناخوش ہے)اس نابالغ نے اس لڑکی
کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی کی تھی اوراس نے اس متاثرہ کے ساتھ
دوبارگھناؤنی حرکت کی تھی،سزاکیاملی صرف ۳؍سال قیدکی،باقی ابھی زیرسماعت
ہیں، اوران کے ساتھ بھی بہت زیادہ کچھ نہیں ہونے والاہے،جس وقت یہ حادثہ
ہواتھااس وقت پوراملک جاگ گیاتھا،ملک کے کونے کونے میں احتجاج
ہواتھااورہرایک کی زبان پر ایک ہی مطالبہ تھاکہ مجرمین کوپھانسی دو،لیکن
کیاہوا،وہی مقدمہ،وہی عدالت کے چکراوروکیلوں کی بکواس،جب کہ ان ملزموں کے
مجرم ہونے کے تمام ثبوت عدالت کے پاس موجودتھے لیکن اس کے باوجودعدالت آج
تک مقدمہ کوفیصل نہیں کرسکی،انگریزی کابہت ہی مشہورمقولہ ہے:’’Justice
delayed Justice denied‘‘کہ فیصلہ میں تاخیرفیصلہ نہ ہونے کے مترادف
ہے۔اگراس وقت ان مجرمین پربروقت کارروائی کرتے ہوئے عدالت تمام ثبوتوں کی
روشنی میں عمرقیدیاپھانسی کی سزاسنادی ہوتی توآج وہ نہ ہوتاجوممبئی کے شکتی
مل کمپاؤنڈمیں ایک فوٹوجرنلسٹ کے ساتھ ہوا،اوران تمام خواتین کے ساتھ ملک
کے کونے کونے میں مسلسل یہ گھناؤنی حرکت نہ ہوتی جوکہ ۱۶؍دسمبرکے واقعہ کے
بعدسے تسلسل کے ساتھ روزانہ ایک نہیں بلکہ کئی کئی واقعات ملک کے طول وعرض
میں ہوتے رہے،اورہندستان کی خواتین اپنے گھروں میں اپنے آپ کوغیرمحفوظ
محسوس نہیں کرتیں،ایسانہیں ہے کہ ۱۶؍دسمبرکاواقعہ ملک کی تاریخ میں
رونماہونے والاپہلاواقعہ تھا،ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہتے تھے،لیکن جس
اندازسے ۱۶؍دسمبرکاواقعہ پیش آتا اور اس کے بعدسے مسلسل پیش آتے رہے اس کی
نظیرہندستان کی تاریخ میں نایاب نہیں توکمیاب ضرورہے،اوراس کی اہم وجہ صرف
اورصرف خاطیوں کوکبھی ثبوتوں کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑدیاجاناہے تو
کبھی کیس میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے یاپھرمتاثرہ کے اہل خانہ کواس طرح
ڈرادھمکادیاجاتاہے کہ وہ اپنابیان واپس لے کرمجرم کوعدالت میں مزید سرخرو
بنادیتے ہیں اورانہیں نیک نامی کاسرٹیفکٹ عطاکردیتے ہیں،ان سب کی وجہ سے
مجرموں کے حوصلے بلندہوجاتے ہیں اورپھراپنایہ شیطانی عمل جاری رکھتے ہیں
اتناہی نہیں بلکہ ان سزامعاف مجرموں کودیکھ کرمزیدنئے مجرم پیداہوجاتے ہیں
اورپھراس طرح کے واقعات کاتسلسل شروع ہوجاتاہے ۔اس میں جہاں سماج کاایک
بڑاطبقہ ذمہ دارہے وہیں اس سے کہیں زیادہ ملک کاقانون اورعدالت کاطریقۂ
انصاف بھی خودمجرم کے کٹہرے میں کھڑانظرآتاہے۔
۱۶؍دسمبرکے واقعہ کے بعدجب ملک بھرسے احتجاج کاسلسلہ شروع ہواتھااس وقت
اسلام مخالف لوگوں نے بھی حکومت ہندسے یہ مطالبہ کیا تھاکہ زانیوں کے ساتھ
کسی قسم کے رحم کا معاملہ نہ کیاجائے اورانہیں اسلامی قانون کے مطابق سزادی
جائے،بلکہ کیرالہ کے ایک آچاریہ نے تویہاں تک کہاتھاکہ یہ سلسلہ تبھی رک
سکتاہے جب کہ زانیوں کواسلام کے مطابق سزادی جائے گی اس کے علاوہ بہت سارے
ایسے افرادنے عورتوں سے اپیل کی تھی کہ اگرانہیں اپنے آپ کوبچاناہے
تواسلامی پردہ اختیار کریں،اورحقیقت ہی یہی ہے کہ اسلام سب سے پہلے ہرگناہ
کے اسباب کوختم کرتاہے،لیکن قانون انسانی کاکمال یہ ہے کہ وہ اسباب کوتوختم
کرنے پرتوجہ نہیں دیتاہے لیکن گناہ کوختم کرنے کی کوشش کرتاہے،نہ جانے
انہیں کون سمجھائے،اسلام کاواضح اصول ہے کہ :مسلمان عورتوں سے کہوکہ وہ بھی
اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اوراپنی زینت
کوظاہرنہ کریں سوائے اس کے جوظاہرہے ،اوراپنے گریبانوں پراپنی اوڑھنیاں
ڈالے رہیں اوراپنی آرائش کوکسی کے سامنے ظاہرنہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے
اپنے والدکے یااپنے خسر کے یااپنے لڑکوں کے‘‘(النور:۳۱)قرآن کایہ حکم
مسلمان عورتوں کے ساتھ خاص ضرورہے لیکن دنیاکی تمام عورتیں اس حکم پرعمل
کرکے اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کرسکتی ہیں۔
ممبئی کے شرمناک واقعہ کے بعدخودبازارحسن کی عریاں ایکٹریسوں نے بھی اس
واقعہ کی مذمت کی اورانہوں نے بھی عورتوں کواپنے لباس پرتوجہ دینے کی ہدایت
کی،اپنے وقت کی ڈریم گرل کہلانے والی ہیمامالنی تک نے اس بات سے اتفاق
کیاکہ اس طرح کے واقعات کابڑاسبب لڑکیوں کابے ہنگم لباس اورلڑکوں کے ساتھ
آزادانہ میل جول بھی ہے، ذراغور کریں یہ بات وہ لوگ کہہ رہی ہیں جوکہ خوداس
فحاشی اورعریانیت کی علمبردارہیں لیکن انہیں بھی احساس ہے کہ جوکچھ ہم
کررہے ہیں سماج اسے قبول نہیں کرتاہے اورسماج میں بگاڑ کا یہ بڑاسبب ہے ،لیکن
پھربھی وہ لوگ کررہے ہیں اس کی وجہ فن یاآرٹ یاتہذیب وثقافت کی خدمت نہیں
ہے بلکہ پیسہ اورپیسہ ہے۔یادرکھیں!یہ سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب
تک اس کے جڑکوختم کرنے کے بجائے شاخوں کوکچلنے کی باتیں کی جائیں گئی بلکہ
یہ شرمناک حرکتوں کاسلسلہ اسی وقت بندہوسکتاہے جب کہ اس کے سرچشمہ کوہی ختم
کیا جائے، لیکن افسوس ہے اس عقل کی اندھی حکومت پہ کہ آج وہ اس سرچشمہ
کوبندکرنے کی بجائے اسے تہذیب وثقافت کی خدمت کانام دے کرانہیں اعزازات سے
نوازا جا رہاہے، انہیں ایوان کی رکنیت دے کران کے اس عریانیت وفحاشیت
کوبڑھاوادینے کاانعام واکرام دیاجارہاہے اورپھریہ امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ
ملک میں اس طرح کی شرمناک حرکتوں کاسلسلہ بندہو۔افسوس تواس وقت ہوتاہے جب
کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے مہذب اوراسلامی ادارہ میں یہ سرکولرجاری
کیاگیاکہ لڑکیاں مخرب اخلاق اورفیشن ایبل لباس یونیورسٹی کیمپس میں نہیں
پہن سکتیں توایساواویلامچاکہ بالآخراس سرکولرکوواپس لیناپڑااوربڑوں بڑوں نے
اس پرچپی سادھ لی توجب مسلم یونیورسٹی کوبھی اسلامی اصولوں پرمبنی احکامات
پسند نہیں تو دیگراداروں سے توقع رکھناہی فضول ہے۔
یادرکھیں!ملک اس وقت جس نازک دورسے گذررہاہے ایسے میں امیدکی صرف ایک کرن
دکھائی دیتی ہے اوروہ ہے اسلامی اصولوں پرمبنی قیادت کی،جب تک ملک کوایسے
قائدین نہیں ملیں گے ملک یونہی تباہی کے مہیب غارمیں گرتاچلاجائے گا،موجودہ
دورکی جس تعلیم سے عوام یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ تعلیم انہیں
اچھاشہری دے گی یہ ناممکن ہے،آج جس تعلیم کے بوتے یہ ملک کی قیادت کاخواب
دیکھ رہے ہیں اس کاحشرسب کے سامنے ہے،بلکہ میں توان لوگوں سے مخاطب
ہوکرکہناچاہتاہوں جویہ کہتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے،
آج مدارس کے نصاب سے زیادہ اسکول ،کالج اوریونیورسٹی کے نصاب میں تبدیلی کی
ضرورت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکول،کالج اور یونیورسٹی کے نصاب تعلیم
میں ابتداء سے ہی اسلامی اخلاق اوراصولوں پرمبنی تعلیم دی جائے جس کے ذریعہ
وہ ملک کی حفاظت کرسکیں،انہیں ابتداسے تعلیم دی جائے کہ عورت کی
کیاہے،سوداوررشوت خوری ملک کوتباہ کرسکتی ہے بچانہیں سکتی اورسیاست دین
ومذہب سے کوئی الگ چیزنہیں بلکہ دین ومذہب کے ساتھ سیاست ،اصل میں سیاست ہے
اورتبھی ملک کوایک ایمانداراوربااخلاق لیڈرمل سکتاہے جب کہ اس کادین ومذہب
سے بھی گہراتعلق ہو۔آج ملک کے معاشی نظام کے بگڑنے کی ایک بڑی وجہ سودی
نظام،رشوت خوری اوربے ایمان تاجروں کی ٹیکس چوری ہے لیکن اگرایک شہری
کوبچپن سے ہی ان اخلاقیات کی تعلیم دی جائے تووہ ملک کااچھاشہری
ہوگااورپھرملک بھی ترقی کرے گا،اسی طرح زندگی کے عملی میدان میں اسے
ایمانداری اوراخلاقی اقدارکی تعلیم دی جائے گی تووہ ایک ایمانداراوربااخلاق
سیاست داں ہوگانہ کہ موجودہ دورکے سیاست دانوں کی طرح بے ایمان،بدعنوان
اورگھوٹالے باز،اسی لیے اگرملک کوبچاناچاہتے ہیں تواس کے لیے ایسے
افراداورایسی قیادت پیداکریں جوکہ اسلامی اصولوں پرمبنی ہواوربااخلاق
اورایمان دار ہو۔ |