سرکاری ملازمین کو میٹنگز میں
بیٹھنے اور بولنے کے آداب سکھانے کی ضرورت
سرکاری ملازمین کو بولنے او ر میٹنگ میں بیٹھنے کے آداب سکھانے کی ضرورت ۔وزیر
اعلیٰ پنجاب یہ مہم بھی فوری شروع کریں۔ ہمیں سرکاری اورغیر سرکاری میٹنگز
، اجلاس اور ورکشاپس میں شرکت کرنے کا موقع ملا ۔ ان سب کی کارروائی اور اس
میں شرکاء کا طرزعمل دیکھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وزیراعلیٰ شہباز
شریف کو یہ مہم بھی فوری شروع کرنی چاہیے ۔ جس میں سرکاری ملازمین کو
میٹنگز ، اجلاس اور ورکشاپس میں شرکت کرنے اور اس میں بیٹھنے کے آداب
سکھائے جائیں۔ ہم ایک این جی اوز کے زیر اہتمام دوروزہ ورکشاپ میں شریک
ہوئے۔ اس میں ریسکیو1122نے ورکشاپس میں موجود شرکاء کو ابتدائی طبی امداد
کی ٹریننگ دی۔ انہوں نے دودن تک سب کچھ کرکے دکھایا بھی اور بتایا بھی۔
دوسرے دن انہوں نے سب کا ٹیسٹ لیا۔ اس ورکشاپ میں ٹیچرز زیادہ تھے۔ ایک
ٹیچرز سے انہوں نے ٹیسٹ لیا۔ تو انہوں نے کہا کہ میں بولوں گا کچھ نہیں۔
کرکے دکھاؤں گا۔ حالانکہ بولنا بھی اس ٹریننگ کا حصہ تھا۔ اس میں مرد حضرات
زیادہ تھے اور خواتین کم تھیں۔ ہمیں ایک اور میٹنگ میں شرکت کرنے کا موقع
ملا۔ یہ میٹنگ ضلع کے ایک اعلیٰ آفیسر نے بلائی تھی۔ اس میں خواتین زیادہ
تھیں اور مرد کم تھے۔ اس میں بھی اکثر سرکاری ملازمین ہی تھے۔ جس آفیسر نے
اجلاس بلایا وہ تو نہ آسکے انہوں نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ وہ بار بار
خاموش رہنے اور توجہ سے بات سننے کی اپیل کرتے رہے۔ وہ کسی محکمہ کے اعلیٰ
افسر تھے۔ پرائمری کلاس کے بچوں کی طرح وہ باربار ڈیسک (میز) بجا بجا کر
خاموش کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ کسی نے توجہ دی اور کسی نے نہ دی۔ بچوں کی
طرح سٹیج کی طرف توجہ بھی تھی اور آپس میں چہ مگوئیاں بھی جاری رہیں۔ اس
میٹنگ میں ہی یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے۔ سکول
ٹیچر جو کہہ رہے تھے کہ میں بولوں گا نہیں۔ ٹیچرز کاکام ہی تو بولنا ہوتا
ہے ۔ بچوں کو سبق پڑھانا ہو یا ان سے سننا۔ ان کو لکھوانا ہو یا لکھا ہوا
چیک کرنا۔ وہ بھی بولنے سے گھبرا رہے تھے۔ اور تمام سرکاری دفاتر اور
محکموں کی میٹنگز بھی ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری ملازمین کو توکسی بھی اجلاس
میں ایسے بیٹھنا چاہیے جیسے ان سے بڑا سلیقہ مند اس وقت کوئی نہ ہو۔ شور
مچانا تو بچوں کاکام ہوتا ہے۔بچوں والوں کا نہیں۔ بڑوں کو بھی اس سلسلہ میں
تربیت کی ضرورت ہے۔ ہم ان صفحات کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف
سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس طرف بھی خصوصی توجہ دیں۔ وہ خصوصی احکامات
جاری کریں کہ ہر شہر میں ایسی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے ۔ جس میں سرکاری
ملازمین کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ میٹنگز، اجلاس اور ورکشاپ میں کیسے
شرکت کرنی ہے۔ وہاں کس طرح بیٹھنا ہے۔ بات کس انداز میں کرنی ہے۔ کب بولنا
ہے کب نہیں بولنا۔ کیا کہہ سکتے ہیں کیا نہیں کہہ سکتے۔ اسی ورکشاپ میں
بولنے کی تربیت بھی دی جائے کہ اگر زیادہ لوگوں یا نئے لوگوں کے سامنے
بولنا پڑے تو گھبرانا نہیں ہے۔ اپنے حواس پر کیسے قابو رکھنا ہے۔ ایسی
باتیں بچپن میں سکھائی تو جاتی ہیں۔ مگر یہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بھول
بھی جاتی ہیں۔ ان ورکشاپ میں سرکاری ملازمین کے علاوہ دیگر افراد کو بھی
شامل کیا جائے۔ ہمارے اس مشورہ کو سرکاری ملازمین اپنی توہین نہ سمجھیں ہم
نے ایک مسئلہ کی نشاندہی کی ہے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر انسان ہر کام کر
سکتا ہو۔ کوئی بول سکتا ہے لکھ نہیں سکتا کوئی لکھ سکتا ہے تو بول نہیں
سکتا۔ اس لیے ایسی تربیتی ورکشاپس ہو جائیں گی ۔ تو آئندہ کی میٹنگز کا
ماحول ہی کچھ اور ہوجائے گا۔ پہلے ہر دفتر کی الگ الگ ورکشاپ کرائی جائے۔
پھر دو یا اس سے زیادہ دفاتر کی مشترکہ ورکشاپ کرائی جائے۔ ہم توقع کرتے
ہیں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف ہمارے اس مشورہ پر ضرور غور کریں گے۔ |