حجاب میرا انتخاب

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 4 ستمبر کو ’’حجاب‘‘ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر مختلف تنظیمو ں کے زیر اہتمام تقریبات منعقد کی جارہی ہیں جن میں حجاب کی اہمیت، افادیت پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی جبکہ تمام بڑے شہروں میں خصوصی سیمینارز اور کانفرنسز کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے ۔ مذکورہ دن 4 ستمبر 2004ء کو فرانس میں حجاب پر پابندی کے قانون کی منظوری کے بعد سے منایا جاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ سال بھی یہ دن بھرپور جوش و جذبے سے منایا گیا ،جس میں ناصرف مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا بلکہ سکولز اور کالجز کی لڑکیوں کا جوش بھی دیدنی تھا۔اس سال بھی بہت سی جماعتوں کی طرف سے حجاب کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ 2ستمبر2003ء میں فرانس میں ہیڈ سکارف پر پابندی کا قانون منظور کیا گیا تھا اور مسلمانوں میں اس بات پر بڑا غم و غصہ پایا جاتا تھا ،لیکن یہ پابندی صرف فرانس تک ہی نہیں رہی بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی مسلمان لڑکیوں اور خواتین کے لئے حجاب کا استعما ل کرنے پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔مغربی ممالک کبھی آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا فرض سمجھتے ہیں تو کبھی انہیں مذہبی فرائض کی ادائیگی پر سزائوں سے نوازا جاتا ہے۔ جرمنی اور ترکی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو حجاب پہننے پر جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔لیکن وہیں عالمی عدالتوں نے مسلمان لڑکیوں کے جذبے کے آگے ہار مانتے ہوئے ان کے اس مذہبی اور انسانی حقوق کے حق میں فیصلے بھی کئے۔2005ء میں ایک برطانوی عدالت نے لیوٹن کے ایک سکول سے ایک سولہ سالہ طالبہ شبینہ بیگم کو اس کے حجاب پہننے کی بنا پر خارج کرنا سکول کے عملے کا غیر قانونی فعل قرار دیا۔سولہ سالہ شبینہ بیگم کا اصرار تھا کہ مذہبی وجوہات کے تحت وہ روایتی حجاب پہنیں گی جو کہ سر کے سکارف اور گاؤن پر مشتمل ہے۔ سکول کے حکام نے شبینہ کو یہ لباس پہننے سے منع کیا تھا اور ایسا نہ کرنے پر طالبہ کو سکول سے خارج کردیا گیا۔لیوٹن کی اپیل کورٹ کے ایک جج جسٹس بروک نے کہاکہ سکول نے شبینہ کو اپنے مذہبی تقاضے پورے کرنے سے روکا، اور سکول انسانی حقوق ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرا ہے۔2006ء میں تیونس میں لگائی جانے والی پابندی تو انتہائی مضحکہ خیز تھی۔جب پولیس نے 1981 ء میں بنائے گئے اُس قانون کو دوبارہ بہت گرم جوشی سے نافذ کرنے کی مہم چلانی شروع کردی، جس کے تحت عوامی مقامات میں حجاب کے پہننے پر پابندی تھی۔تیونس میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا ہے کہ حکام ملک کی خواتین کو ایک ایسے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ انہیں آئین کے تحت حاصل ہے۔1981ء میں بنائے گئے قانون کے تحت تیونس میںخواتین کو سکولوں یا سرکاری دفاتر میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں تھی لیکن کبھی بھی مسلمان خواتین کو مشکل یا شرمندگی کا سامنا نہیںکرنا پڑا تھا،2006ء میں پولیس نے سڑکوں پر مسلمان خواتین کو روک کر ان کے حجاب اترواکر ان سے وعدے ناموں پر دستخط کرائے کہ وہ آئندہ یہ نہیں پہنیں گی۔تو یہاں حیران کن سوال یہ اٹھا کہ کیا خواتین گھروں میں حجاب کریں جہاں حقیقتاً اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ فرانس جیسا ملک جہاںپچاس لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔کابینہ کے منظور شدہ قانون پر بہت شور اٹھا۔ جس کے تحت سرکاری سکولوں میں حجاب سمیت دیگر مذہبی علامات کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔مسلمانوں کی اکثریت نے اس قانون کو اپنے انسانی اور مذہبی حقوق پر حملہ قرار دیا ،جس کے تحت سرکاری سکولوں میں حجاب پر پابندی تولگی ہی لیکن اس سے دنیا کے دوسرے ممالک جہاں مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں انہیںبھی اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔لیکن دنیا بھر کی مسلمان خواتین یہ پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ،وہ عالمی قوتوں کے اس ناروا سلوک کے سامنے ڈٹ گئی ہیں،اور کسی طور بھی حجاب پر لگی پابندی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حجاب اوڑھنے والی نوجوان لڑکیوں اور خواتین نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ حجاب اوڑھنے میں نہایت آسان ہے اور دیکھنے میں بھی خوبصورت لگتا ہے

حیاء ، پردہ ،عفت و عصمت اور حجاب ایک پورے نظامِ اخلاق کا نام ہے جس کے احکام کا آغاز اللہ رب العلمین مردوں سے مخاطب ہو کر کرتاہے۔ عفت وعصمت جتنی عورت کے لیے اہم ہے اتنا ہی مردوں کے لیے لازم رویہ ہے لیکن چونکہ عورت اس کائنات کی واحد اہم ترین ہستی ہے جسے خالق کائنات نے اپنی صفت تخلیق عطاکی ہے ۔ عورت ہی وہ مخلوق ہے جس سے نسل انسانی کی بقاوابستہ ہے اور اقبال اپنی فارسی شاعری میں جا بجا عورت کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ عورت کو اپنی اس صفت تخلیق پر بہت فخر کرنا چاہیے ۔ فرماتے ہیں: ’’عصر حاضر کا ضمیر بے نقاب ہے اس کی چمک دمک رنگ وآب کی مرہون منت ہے مگر اے دختر ملت پورے جہاں کو اپنے کردار سے منورکرنے کا سلیقہ نورِ حق سے سیکھ لے کہ وہ صدہا تجلیوں کے باوجود حجاب میں ہے۔ ‘‘ ایک اور جگہ اقبال بچیوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں جو میرے آغا جان مجھے بچپن سے ہی سنایا کرتے تھے ۔ بہل اے دخترک ایں دلبر یھا مسلمان رانہ زیبد کافریھا منہ دلبر جمال غازہ پرور ازنگاہ باموز غارت گری ہا اے میری چھوٹی بٹیا !(دختر پیار سے اپنی چھوٹی بیٹی کو کہتے ہیں) یہ کافرانہ ناز و انداز اور آرائش وزیبائش ترک کردو۔ اپنے کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرناسیکھو۔ عورت اللہ کی وہ حسین تخلیق ہے جس کی وجہ سے کائنات میں رونق اور رنگینی ہے۔ اور وہ ایک بے جان لوتھڑے کو اپنے خونِ جگر سے سینچ کر انسان بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حجاب کی یہ صفت اتنی محبوب ہے کہ وہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب کا پابند بناتاہے کہ اپنی تخلیق کی بہتر نگہداشت کرسکے۔ اسی لیے اقبال فرماتے ہیں : در نگر ہنگامہ آفاق را زحمتِ جلوت مدہ خلاّق را حفظ ہر نقش آفرین از خلوت است خاتم اُو رانگین از خلوت است آفاق کے سارے ہنگامے پرنظرڈالو،تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموںکی تکلیف نہ دواس لیے کہ ہرتخلیق کی حفاظت کے لیے تنہائی اور خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اوراس کے صدف میں موتی خلوت اور تنہائی میں ہی پرورش پاتا اورنکھرتاہے ۔(علامہ اقبال ۔ جاویدنامہ۔محکمات عالم قرآنی) قوموں کی زندگی میں عورت کاکردار نہایت اہمیت کاحامل ہے۔ ان کو دنیا میں سربلندی اور سرفرازی کا مقام دینے کا سہرا مضبوط اور اعلیٰ اخلاق کی حامل عورت کے سر ہی ہوتا ہے اور عورت سے اگر حیا کی صفت ختم ہوجائے تو معاشرہ بگڑ کر حیوانوں کا معاشرہ بن جاتاہے۔ یہ فطرت کااصول ہے کہ جو شے جس قدر قیمتی ہے اُسی قدر اُسے لوگوں کی نظروں سے دور رکھا جاتاہے ۔ جتنے قیمتی زرو جواہر ہوتے ہیں انہیں ڈبوںمیں بند کرکے لاکرز اور سیفوں میں چھپاکر رکھا جاتاہے اور جو چیز قدر معمولی ہے وہ بازاروں تھڑوں پر سرعام رکھی ہوئی ہوتی ہے ۔ جو شخص جتنا اہم ہوتاہے اس کی اُس قدر سیکورٹی رکھی جاتی ہے۔ جو چیز جتنی مقدس ہوتی ہے اُتنا ہی غلافوں میں لپیٹ کر رکھی جاتی ہے ۔ جیسے خانہ کعبہ قرآن کریم اور دوسری مقدس اشیاء قیمتی اشیاء کو پردے میں رکھنا عقل اور فطرت دونوں کاتقاضا ہے تاکہ اُسے بیرونی آلائشوں اور ماحول کی گندگی سے دور رکھاجاسکے اور اُس کی قدر و قیمت برقرار رہے۔ اللہ کے نزدیک عورت بھی ایک مقدس اور قیمتی ہستی ہے جس کو اُس کا حجاب مزید وقار عطاکرتاہے اور اُسے افتخار اور اعتبار بخشتاہے۔ تہذیب جدید نے اس فطری اصول سے بغاوت کرکے عورت کو محبت اور حفاظت کے حصاروں سے نکال کر آزادی ، مساوات اور حقوق کے نام نہاد نعروں کے دھوکے میں مبتلا کرکے شمع محفل اور (Commercial Commodity)بنادیا ہے۔ عالمی استعماری طاقتوں نے اُمت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعائر کو ہدف بنایا ہواہے ، جہاد ،ناموس رسالتؐ ،خاندانی نظام اور حجاب ان کے خصوصی اہداف ہیں ۔ ہرجگہ پر اُن شعائر کو جو تہذیب اسلامی کی علامات ہیں کو انتہا پسندی ، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جا رہاہے۔ فرانس ، ہالینڈ ، ڈنمارک بیلجیئم اور اٹلی حجاب پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ اُمت مسلمہ بالخصوص مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان ان متعصب رویوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے مسائل سے دوچار ہیں۔ خود ترکی میں جوکہ عظیم الشان خلافت عثمانیہ کا مرکز اور مسلمانوں کے تہذیبی عروج کا علمبردار رہاہے، حجاب پر پابندی عائد کرد ی گئی تھی ۔ وہاں کی با حجاب رکن پارلیمنٹ مروہ قواچی انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین میں میری ساتھی رہ چکی ہیں۔ ہم نے اُس وقت سے حجاب کے لیے ایک انٹرنیشنل موومنٹ شروع کرلی ہوئی تھی جب اُسے حجاب کی وجہ سے اسمبلی کی رکنیت اور اپنے ملک کی شہریت سے بھی محروم کرلیا گیاتھا ۔ 2004ء میں لندن میں ’’اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب ‘‘ کے زیر اہتمام ایک اجلاس منعقد کیاگیا اور حجاب کے خلاف متعصبانہ رویوں کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے آواز بلند کرنے کے لیے باقاعدہ، منظم اور مربوط تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ علامہ یوسف القرضاوی صاحب کی قیادت میں 4ستمبر کو عالمی یوم حجاب قرار دے دیا گیا ۔ پاکستان میں میرے والد محترم قاضی حسین احمد جوکہ اُس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے امیر تھے ، اس تحریک کے قائد اور علمبردار بنے اور ہم نے اُن کی سرپرستی اور راہنمائی میں 2004ء سے ہی 4ستمبر کو عالمی یوم حجاب قرار دے کر اس تحریک کاآغاز کیا۔اللہ اس 4ستمبر یوم حجاب کو بھی 5فروری یوم کشمیر کی طرح اُن کے لیے صدقہ جاریہ بنادے،آمین۔ فرانس جو کبھی روشنیوں ،خوشبوئوں ،فنون اور آزادی کا ملک سمجھا جاتاتھا۔ آج حجاب پر پابندی کی وجہ سے وہاں مسلمانوں کے لیے متعصبانہ رویے عام ہوگئے ہیں۔ اس ایک گز کے خطرناک کپڑے نے فرانس اور یورپ کی اربوں ڈالر کی فیشن انڈسٹری کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھا ہوا ہے اور حجاب کے اس ٹکڑے سے اُن کی معیشت کو زبردست خطرات لاحق ہیں ۔ دوسری طرف شرق وغرب ایک ایسی مسلمان نسل کو جود میں آتا دیکھ رہی ہے جو اپنے شعائر اسلام اور اپنی تہذیبی علامتوں کو فخر وانبساط کے ساتھ اپنا رہی ہے اور اس کی خاطر ہر طرح کے جبر اور تعصب کا مقابلہ کررہی ہے۔ حتیٰ کہ اسی حجاب کی خاطر ہماری شہید بہن مروہ الشربینی نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہماری اس حجاب کی تحریک کے لے مینارۂ نور بننے کی سعادت حاصل کرلی ہے۔ ترکی کی مروہ قواچی سے لے کر مروہ شربینی تک اور اب مصر کی اسماء بلتاجی اور حبیبہ کے خون سے رنگین حجاب کی خوشبو کا سفر جاری ہے اور تاریخ نے کبھی بھی اس ایک گز کے ٹکڑے کو کبھی اتنی طاقت حاصل کرتے نہ دیکھا ہوگا جتنا کہ آج یہ آزادی اور اختیار کی توانا علامت بن چکاہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ عالمی یوم حجاب کا دن بھی 4ستمبر قرار پایا اور مصر میں اخوان کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کامیدان بھی رابعہ کا میدان ٹھہرا ہے اور عربی میں رابعہ 4کو ہی کہتے ہیں ۔ قربانیوں کی اس داستان کو چار انگلیوں کے نشان کی علامت کے طور پر پورے عالم میں اُجاگر کیا جارہاہے ۔ ہم اس دفعہ کا یوم حجاب 4انگلیوں کے اس نشان کے ساتھ مصر اور شام کی مظلوم عورت کے ساتھ ساتھ تمام عالم کے مظلومین کے نام کرتے ہیں جنھوںنے عمر مختار کے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ ہم کبھی نہیں ہارتے ،ہم فتح یاب ہوتے ہیں مر جاتے ہیں ۔ ٭…٭…٭

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 259079 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More