علماء کونسل کے استحکام پاکستان کانفرنس کا احوال

پاکستان علماء کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں دانشوروں ،علماء اکرام ،سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کے رہنماؤں کی کثیر تعدادنے شرکت کی، اس موقع پر کچھ کٹھے میٹھے جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا ،معروف سکالر اورسینئر کالم نگار خورشید احمد ندیم کا کہنا تھا کہ استحکام پاکستان سماج کا مسئلہ ہے آئے روز نجانے ہم کیوں کانفرنسیں کرتے رہتے ہیں یہ مسئلہ علماء کا نہیں ہے اس کو سماج کے ہاتھوں میں دینا پڑے گا تب جا کر پاکستان استحکام کی جانب بڑھے گا۔علماء اکرام کے ذمے جو کام ہے اس کو سرانجام دیں خورشید احمد ندیم کے خطاب کے موقع پر کئی رہنماؤں نے ان سے اتفاق کیا اور شرکاء کی اکثریت بھی ان کے نظریے کی حامی نظر آئی، سینئر صحافی و کالم نگار خوشنود علی خان نے بھی استحکام پاکستان کانفرنس کو اسلام آباد کے بجائے کسی سیلاب زدہ علاقے میں منعقد کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آج سیلاب زدگان جس مصیبت کا شکار ہیں وہ ہم نہیں جانتے حکومتی نمائندے اپنی تشہیر کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں سیلاب زدگان کی کوئی امداد نہیں ہو رہی بل کہ ان کی تذلیل کی جا رہی ہے۔کانفرنس میں موجود امت مسلمہ کی وحدت اور پیغام امن کے داعی محترم غضنفر مہدی بھی شریک تھے انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں وحدت کے پیغام کو آگے پہنچاتے ہوئے کہا کہ میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری طرف سے منعقد کی جانے والی کانفرنسیں میں مولانا حق نواز جھنگوی بھی شریک ہوئے میں نے حضرت ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ و علیؓ پر سیمینار کروائے اور امت کو ایک ہونے کے پیغام کو آگے پہنچایا اور پہنچاتا رہوں گا، آج دشمن ہمارے معاشرے میں گھس چکا ہے اور مختلف انداز میں سنی شیعہ فسادات کروا رہا ہے ہمیں دشمن کے اس گھات سے بچنا ہوگا ورنہ استحکام پاکستان کو خطرہ ہے۔ استحکام پاکستان پر بہت کچھ لکھا جاچکا اور لکھا جاتا رہے گا اس موقع پر جاری ہونے والی اعلامیہ میں انتہائی اہم باتوں کی طرف توجہ مبذول کروانے کی سعی کی گئی جو میں قارئین کے نظر کرنا چاہوں گا۔ کانفرنس میں 30 سے زائد مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا شریف ہزاروی ، جمعیت علمائے اسلام (س) کے مولانا محمد عبد اﷲ، پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی ، صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی ، تحریک انصاف کے ساجد اسحق ، جمعیت مشائخ کے مفتی عبد القوی، تحریک اتحاد امت کے مولانا قاسم قاسمی ، ملی یکجہتی کونسل کے علامہ سید مزمل حسین ، جمعیت علمائے پاکستان سواد اعظم کے مولانا عامر شہزاد، علماء مشائخ کونسل کشمیر کے مولانا حافظ محمد طارق ، مولانا احمد علی سراج سیکریٹری جنرل انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ ، میاں عتیق ایم کیو ایم ، بشپ اسحاق مظہر پاکستان انٹر فیتھ لیگ ، قاضی عبد القدیر خاموش جمعیت علمائے اہلحدیث، ڈاکٹر غضنفر مہدی صدر آل پاکستان شیعہ کانفرنس ، صاحبزادہ خورشید ندیم ادارہ برائے تعلیم و تحقیق ، حافظ محمد قاسم خان جماعت اسلامی پاکستان ، مولانا محمد عمر عثمانی جمعیت علمائے اہل سنت والجماعت ، سکھ گردوارا کمیٹی کے سردار شام سنگھ اور دیگر نے شرکت کی۔ کانفرنس میں شامل تمام جماعتیں بھارت کی طرف سے مسلسل ایل او سی کی خلاف ورزی کی بھر پور مذمت کرتی ہیں اور بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے شہیدہونے والے افراد خواہ ان کا تعلق آرمی سے ہو یا سول سے ان کو سلام عقیدت پیش کرتی ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی مسلسل جارحیت کو نظر انداز کرنے کی بجائے عالمی سطح پر اس معاملے کو اٹھا یا جائے۔پاکستانی عوام بھارت سمیت تمام پڑوسیوں سے امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر پاکستان کی سلامتی ، استحکام اور خود مختاری کے ساتھ کوئی کھیلنے کی کوشش کرے گا تو پاکستانی قوم پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہوں گی اور جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔کانفرنس میں شامل تمام جماعتیں سانحہ بھکر ،اسلام آباد اور کراچی اور کوئٹہ کے اندر واقعات کی بھر پور مذمت کرتی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ سانحہ بھکر کی مکمل عدالتی تحقیقات کروائی جائیں اور نہ اہل انتظامیہ اور پولیس کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے۔اسی طرح کانفرنس میں شامل تمام جماعتیں اسلام آباد میں ایک مدرسے پر فائرنگ کی اور طلبا کو شہید کرنے کے واقعات کی بھی بھر پور مذمت کرتی ہیں اور حکومت سے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہیں۔کانفرنس میں شامل تمام جماعتیں سانحہ بھکر اور سانحہ اسلام آباد کو کراچی اور کوئٹہ کے بعد پنجاب کے اندر فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی سازش سمجھتی ہیں اور اس سلسلہ میں ملک کی تمام مذہبی تنظیموں سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ ایسے عناصر کی سازشوں سے ہوشیار رہیں جو پاکستانیوں کو پاکستانیوں سے لڑانا چاہتے ہیں۔یہ اجتماع مصر اور شام کے اندر مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھر پور آواز بلند کرے اور مصر اور شام کے معاملے کا پُر امن حل نکالنے کی کوشش کی جائے۔یہ اجتماع وزیر اعظم پاکستان کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مسلح قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ مذاکرات کے عمل سے قبل ملک کی تمام سیاسی ، مذہبی قوتوں کو اور عسکری اداروں کو متفقہ موقف اپنانا چاہیے اور اس سلسلہ میں وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں نہ صرف پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں بلکہ پارلیمنٹ سے باہر بھی موجود جماعتوں کو بلایا جائے اور مذاکراتی عمل کو حتمی شکل دینے سے قبل اس کے خدو خال ، اس کے مثبت اور منفی اثرات کو قوم کے سامنے رکھا جائے۔کانفرنس میں شریک تمام جماعتیں بعض شر پسند عناصر کی طرف سے کراچی ، حید رآباد اور دیگر مقامات پر غیر مسلم مذاہب کے لوگوں پر حملوں کی مذمت کرتی ہیں اور اس بات کا واضح اعلان کرتی ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے مسلم اور غیر مسلموں کے حقوق بطور شہری برابر ہیں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر کسی بھی فرد کے بنیادی انسانی حقوق کو غصب کرے ۔

اس موقع پر اعجاز الحق کی موجودگی میں مولانا احمد علی سراج نے جنرل ضیاء الحق کے بارے میں کہا کہ ہمیں وہ وقت نہیں بھولنا چاہیے جب ان کے دور میں کچھ شرپسند عناصر نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو انہوں نے ان کو کچل کر رکھ دیا اور پاکستان ان کے دور میں امن رہا۔ان کے یہ الفاظ وہاں بیٹھے کچھ رہنماؤں کو اچھے نہ لگے جس پر وہ حافظ طاہر محمود اشرفی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں شکوہ کرتے نظر آئے۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 51473 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More