دسمبر2012ء بھی گزر گیا ۔گزشتہ
ہر سال کی طرح ایک ایک کرکے ماضی کے دریچے وا ہوتے چلے گئے ۔ انگنت یادیں
پے درپے موتیوں کی طرح لڑیوں میں پروتی چلی گئیں ، نقش اُ بھرتے رہے ،
دھندلاتے رہے ، تصویریں بنتی رہیں ، مٹتی رہیں ۔تصّور کی بنجر زمیں پر
گلکاریاں ہوتی رہیں ، رنگ بکھرتے رہے ۔ کبھی نغمے ، کبھی آنسو ، کبھی آہیں
،کبھی سسکیاں ، سب گڈ مڈ ہوتے رہے اور پھر ۔۔۔ پھر اچانک ایک چہرہ اُبھرا ،
ہنستی مسکراتی آپا شمیم کا چہرہ ۔ اپنے بچوں کے کام کرتے ہوئے کبھی نہ
تھکنے والی آپا شمیم ۔ جس کی جان اپنے بچوں کی خوشیوں میں اٹکی ہوئی ۔ جس
کے لیے پوری کائینات اُس کا بیٹا راحیل اور بیٹی صائمہ تھے ۔
ماں ۔۔۔ ممتا کا انوکھا ہی انداز ہوتا ہے ، جس کے دل میں جذبات کی گہرائیاں
پوری شدّومد سے اُبھرتی ہیں اور اپنی اولاد کو زمانے کی سرد و گرم ہوا ؤں
سے بچانے کے لیے اس طرح اپنی اوٹ میں چھُپا لیتی ہے جیسے مرغی اپنے ننھے
مُنّے چوزوں کو اپنے پروں تلے ۔ماں کا پیار سُچے موتیوں سے بڑھ کر قیمتی
اور شہد سے میٹھا ہوتا ہے ۔اُس کے تبّسم کی اوٹ میں بچوں کی مسکراتی جبینیں
چمکتی ہیں ۔یہ مائیں ہی تو ہوتی ہیں جو زندگی کی تمام اُمیدیں اپنے بچوں سے
وابستہ کیے ، دُکھ پہ دُکھ جھیلتی چلی جاتی ہیں اور جب بچے کامیابی و
کامرانی سے ہمکنار ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھتی ہیں کہ کسی نے اُن کے سر پر
کوہِ نور جڑا تاج رکھ دیا ہو ۔گویا زندگی کا ہشاش بشاش پہلو بھی ماں سے جڑا
ہے اور افسردہ بھی ۔ ماں کے بنا کائینات کی رنگا رنگی فضول و بے معنی ہے ۔آپا
شمیم بھی انہی ماؤں میں سے ایک تھی جو ساری زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں کے
لیے تگ و دو کرتی رہی آج اُس کے سر پر کوہِ نور جڑا تاج رکھنے کی گھڑی آئی
۔ گھر میں ہر طرف گہما گہمی ، خوشیوں کی برسات اس لیے کہ جنوری کی 16 تاریخ
کو راحیل کی شادی جو ہونے والی تھی۔ تیاریاں زوروں پر تھیں۔ راحیل نے ایک
سال پہلے میڈیکل مکمل کیا تھا اب ہاؤس جاب بھی ختم ہونے کو تھا ۔ آج دسمبر
کی ۳۱ تاریخ تھی ، ٹیلی ویژن پر نیوائیر کے رنگا رنگ پروگرام چل رہے تھے ۔نئے
سال کی مبارک باد دی جا رہی تھی ۔رنگ و نور کا سیلاب اُمڈ آیا تھا ۔موبائل
فون پر دھڑا دھڑ مبارک باد کے میسجز آ رہے تھے۔ گھر مین روڈ پر واقع ہونے
کی وجہ سے باہر کی ’’ہا ہو ‘‘کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ آوارہ
منش نوجوان بنا سلنسر کے موٹر بائیک پر ریسیں لگا رہے تھے ۔ون ویلنگ کر رہے
تھے۔کھڑکی میں سے باہر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا ۔اتنے میں چند منچلوں
کا ٹولا گذرا جو سڑک کے بیچ گاتے بجاتے ، جھومتے جھماتے جا رہے تھے ۔ دور
کہیں آتش بازی ہو رہی تھی ۔ میں بھی شمیم کے ہاں ڈنر پر مدعو تھی ۔کھڑکی کے
پاس بیٹھی باہر کا سارا منظر دیکھ رہی تھی اتنے میں راحیل کچھ سوچتے ہوئے
بولا ’’ ـ بابا جانی !ہم مسلمانوں کا سال تو ہجری ہے جب کفارِ مکہ کی ۱۳
سالہ جبر و تشدد کا خاتمہ ہوا تھا ـ ‘‘ ۔ ہاں بیٹا راحیل ! تم ٹھیک کہ رہے
ہو ۔نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے تو عیسائیوں کے تہوار ہیں لیکن آج کل
مسلمانوں میں قبولِ عام حاصل کر چکے ہیں ۔ تم دیکھ رہے ہو ناں کہ شدید سردی
میں کتنی بے حیائی سے سڑکوں پر مدہوشی کی حالت میں رقص کرتے جا رہے ہیں ۔
ستم تو اس بات کا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان تمام بے حیائی کی
محفلوں اور اخلاق سوز پروگراموں کا انعقاد سرکاری سر پرستی میں ہوتا ہے ۔
اسی لیے تو آج کے دن پولیس بھی آنکھیں اور کان بند کیے بیٹھی ہے ، شائد وہ
بھی ہیپی نیو ایئر منانے میں مشغول ہیں ۔ صائمہ ، جو بڑی دلچسپی سے اپنے
بابا کی باتیں سُن رہی تھی اُس سے مزید برداشت نہیں ہوا اور بولی ’’ بابا
جانی ! کتنی بُری بات ہے کہ ہم عیسائیوں کی رسم کو اس جوش و خروش سے مناتے
ہیں ۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ناں ؟ ‘‘۔ بیٹی ! تم صحیح کہہ رہی ہو ہمیں
تو ہجری سال کو محرّم ا لحرام کا چاند دیکھ کر خوش آمدید کہنا چاہیے اور اس
کے لیے پوری ا مت مسلمہ کی کامیابی و کامرانی کے لیے خصوصی دعائیں مانگنی
چاہییں۔اپنی بخشش کی دعائیں مانگنی چا ہییں ۔حضرت عمر ؓ کا یہ سنہری
کارنامہ ہے کہ انہوں نے سنِ ہجری کا اجراء کیا اور آغاز محرم ا لحرام سے
کیا کیونکہ اﷲنے محرم ا لحرام اور ذی ا لحجہ کو حرام مہینے قرار دیا ہے ۔
جن میں جنگ و جدل اور لڑائی جھگڑا سب حرام قرار دئیے گئے ہیں ۔ اسلام تو ہے
ہی امن اور سلامتی کا مذہب اس لیے اسلامی سال کا آغاز بھی امن سے اور انجام
بھی۔‘‘ ۔ راحیل کے بابا ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ٹھاہ ، ٹھاہ ۔ کی
آوازیں آنے لگیں۔ راحیل جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر چلا گیا ۔پیچھے ہی
صائمہ بھی ۔ ابھی راحیل دیوار کے پاس جا کر کھڑا ہی ہوا تھا کہ زناٹے کے
ساتھ ایک بے رحم گولی آئی اور راحیل کے دل کے آر پار ہو گئی ۔ شائد وہ اسی
کا انتظار کر رہی تھی ۔خون کا فوارہ ابھرا ۔بہن کی چیخ سنائی دی ۔سب بھاگے
بھاگے اوپر گئے ۔لیکن ۔راحیل نیو ائیر کی بھینٹ چڑھ چکا تھا ۔کتنی ہی ماؤں
کے لختِ جگر نیو ائیر کی بھینٹ چڑھے ہونگے ۔ کتنی ہی بہنوں کے بھائی داغِ
مفارقت دے گئے ہونگے ۔ کبھی ون ویلنگ کرتے ہوئے تو کبھی گولی کا نشانہ بن
کر۔کبھی نہ آنے کے لیے ۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ۔ ملنے کے نہیں نا یاب ہیں ہم
ماں نے بیٹے کو خون میں لت پت دیکھا تو اپنے ارمانوں کے جنازے کو کندھا
دینے کے خوف سے وہیں ڈھیر ہو گئی ۔ باپ حیران حیران آنکھوں سے کبھی بیٹے کو
تکے جا رہا تھا تو کبھی بیوی کو ۔ بہن پر سکتے کا عالم تھا ۔ ایک ، صرف ایک
پل میں ہنستا بستا گھرویران کھنڈر بن گیا ۔وہ ماں جو اپنے بچے کی ذرا سی
پریشانی پر یوں بلکتی تھی کہ اسے دیکھ کر دریا کی روانی بھی تھم جائے آج
موت نے اُس کے لبوں پر مہرِ خامشی ثبت کر دی تھی ۔ زندگی میں کبھی بیٹے کو
تنہا نہیں چھوڑا تھا تو آج اپنے لختِ جگر کو اکیلا کیسے جانے دیتی ۔بیشک
زندگی اُس ذاتِ پاک کی امانت ہے ۔ہم سب کو لوٹ کر آخر کار اپنے خالقِ حقیقی
کے پاس ہی تو جانا ہے۔ فرق صرف آگے پیچھے کا ہے لیکن دائمی جدائی کی کسک
پیچھے رہ جانے والوں کو بیقرار تو رکھتی ہے ناں ۔
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
اس سانحے کو آج ۶ سال گذر چکے ہیں لیکن ہر سال جب دسمبر کی ۳۱ تاریخ کو رقص
و سرور کی یہ محفلیں اور سڑکوں پر ناچتی گاتی ٹولیوں کو دیکھتی ہوں تو وہی
دلدوز منظر یوں آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے جیسے کسی نے فلم چلا دی ہو ۔
نیو ائیر منانے والوں سے میرا یہ سوال ہے کہ یہ جو خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔
آخر کس بات کی ؟
کیا زندگی کا ایک سال کم ہونے کی ؟۔ کیا موت کے ایک سال مزید قریب آنے کی ؟
۔کیا ایسے تہوار کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق
ہے ؟ ۔ کیا یہ تہوار ہر لحاظ سے غیر شرعی نہیں ؟ ۔ کیا ایسے تہوار کی ہماری
اقدار میں کہیں بھی گنجائش ہے ؟ ۔کیا عیسوی سال ہی مسلمانوں کے لیے اہمیت
کا حامل ہے ؟ ۔ اگر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہم ہر سال اس
تہوار کو منانے کے لیے کروڑوں روپیہ پانی کی طرح کیوں بہا دیتے ہیں ؟ ۔۔۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سر برا
ہان اس غیر شرعی رسم کی سر پرستی کیوں کرتے ہیں ؟ ۔۔۔ آخر کیوں ؟ ۔۔۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا |