عام انسانوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور کوئی اس طرف
توجہ نہیں دے رہا ہر سیاسی حکمران اپنی اپنی باری کے چکر میں ہے اور ایدھر
عوام ہے جو ایک دوسرے سے دس و گریبا ں ہو رہی ہے ہر طرف لوٹ مار کا سلسلہ
تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے سزا وجزا کا عمل ختم ہو چکا ہے نئی نسل بے راہ
روی کے راستہ پر چل نکلی ہے چھوٹے چھوٹے مسائل نے ہماری زندگیوں کو الجھا
رکھا ہے ایک طرف غربت اپنی آخری حدو ں کو چھو رہی ہے تو دوسری طرف حکمرانوں
کی لاپرواہی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اسی لیے تو لوگوں کی محرومیوں
میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے سرکاری ادارے افسران کے لیے عیاشی کے اڈے
بن چکے ہیں سرکاری دفتر ،سرکاری گھر،سرکاری ٹیلی فون ،سرکاری گاڑی ،سرکاری
پیٹرول ،سرکاری ڈرائیور،سرکاری راشن ،سرکاری خانسامہ ،سرکاری مالی ،سرکاری
بجلی ،گیس،پانی ،اور تو اور انکے کے کپڑے بھی سرکاری ہی ہوتے ہیں اگر
سرکارکی کوئی چیز نہیں ہے تو وہ صرف ان افسران کا بدن نہیں ہے ان سرکاری
افسران کے لیے تو جیل بھی عیاشی کا اڈہ ہی ہے جبکہ ایک غریب پاکستانی کے
لیے آزادی بھی کسی جیل سے کم نہیں ہے انہی افسران کی عیاشیوں نے اس ملک کے
ہر بچے کو ڈاکو بنا دیا ہے جو اپنے جیسوں ہی کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور جو
اس ملک میں اچھا کام کررہے ہیں انکے بھی ہاتھ باندھنے کی کوشش کی جارہی ہے
اگر خدانخواستہ یہ خدائی خدمتگار بھی ہم سے الگ ہو گئے تو پھر اس ملک میں
قیامت سے پہلے ہی قیامت کا منظر دیکھنے کو مل جائے گا نہ کسی کی عزت محفوظ
ہو گی اور نہ کسی کا مال جسکے ہاتھ میں جو آئے گا وہ اسے ہی اٹھا کر بھاگ
جائے گامیں خود اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں کہ اس
ملک میں ایک عام آدمی کے ساتھ ایک عام آدمی کیا کررہا ہے عیدسے قبل غالبا
بیسویں روزے کی بات ہے کہ میں ایک دن کسی کام کے سلسلہ میں وزیر اعلی پنجاب
میاں شہباز شریف کے شکایت سیل میں گیا وہاں پر موجود شکایت سننے والے خود
مظلوم لگ رہے تھے اور ایسے افسران سے کیا مید رکھی جاسکتی تھی کہ اسی بھیڑ
میں ایک معذور شخص نے اپنی معذور نابینا ماں کو اٹھا رکھا تھا جو وہاں سے
اپنی معذور ماں کے لیے وہیل چیئر لینے کی امید لگائے بیٹھا تھا جب میں
شکایت انچارج کے دفتر سے نکل کر انکے قریب سے گذرنے لگا تو انہوں نے مجھے
روک کر اپنے حالات بتانا شروع کردیے جس پر میں نے انہیں اپنا نمبر اور تسلی
دی اور وہاں سے چلا گیا ابھی عید کو گذرے چند دن ہی ہوئے تھے اور اس دوران
بارشیں بھی لاہور میں بڑی شدید ہورہی تھی کہ اچانک ایک دن مجھے اسی معذور
شخص کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ کہ ہم وزیر اعلی کے دفتر کے چکر لگا کر
تنگ آگئے ہیں اورہمیں صرف وعدوں کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا گیا اور اب ہم
مایوس ہوچکے ہیں اپنی جمع پونجی بھی رکشوں کے کرایہ میں اڑادی ہے جبکہ ان
شدید بارشوں میں ہمارے پاس رہنے کو بھی کوئی جگہ نہیں اور اس وقت ہم سنگھ
پورہ سبزی منڈی کے ساتھ ٹیلی فون کی ایکسچینج کے باہر ماں بیٹا بارشوں میں
بھیگ رہے ہیں آپ ہی ہمیں ایک وہیل چیئر کا کہیں نہ کہیں سے بندوبست کروادیں
جس پر میں نے اپنی ایک جاننے والی سماجی کارکن اور اخوت کی روح رواں روبی
دانیال سے اس وقعہ کا ذکر کیا تواس نے اگلے ہی د ن وہیل چیئر دینے کا وعدہ
کرلیا دوسرے دن اتوار کی چھٹی بھی تھی مگر اس خاتون نے اپنی اپنی چھٹی کی
قربانی دیتے ہوئے وہیل چیئر بازار سے خریدی اور پھر ہم دونوں معذور ماں
بیٹے کو وہ وہیل چیئر دینے انکے پاس جا پہنچے اور جب وہ معذور ،نابینا
بوڑھی ماں اس وہیل چیئر پر بیٹی تو اس وقت اسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو
اوردعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں نے ہماری آنکھیں بھی نم کردی اور اسی دوران
جب میں نے روبی دانیال سے کہا کہ آپ اماں جی کے ساتھ کھڑی ہو جائیں تاکہ
ایک تصویر بن جائے مگر اس نے اپنے آنسوں کو جذب کرتے ہوئے انکار کردیا جبکہ
ماں جی کا معذور بیٹا کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے چائے بنانے کا سامان مل جائے
تو میں یہاں پر ہی چائے بنا کر اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پال سکتا ہوں اور
شائد روبی اس سلسلہ میں اسکی مدد کرنا چاہ رہی تھی کہ اسی دوران ایک موٹر
سائیکل پر بیٹھے لڑکوں نے ہماری کار کی اگلی سیٹ پر پڑے ہوئے روبی کے بیگ
کو اٹھایا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے فرار ہوگئے جس میں روبی کے ضروری
کاغذات ،پیسے اور موبائل بھی موجود تھا اس وقت ایک طرف تو خدمت کا جذبہ تھا
اور دوسری طرف لوٹے جانے کا غم وہ بھی جی ٹی روڈ مین شاہرہ پر جہاں ہر وقت
بے پناہ ٹریفک کا ہجوم رہتا ہے ایسے وقت محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم لٹیروں
کے ملک میں رہ رہیں ہیں یہی چھوٹے چھوٹے سٹریٹ کرائم بعد میں بڑھتے بڑھتے
بڑے جرائم بن جاتے ہیں اور ہمارے سیکیورٹی کے ادارے ہیں کہ ان پر کوئی توجہ
نہیں دے رہے اگر پولیس چاہے تو اسی واردات کا کھوج بڑی آسانی سے لگا سکتی
ہے مثال کے طور پر روبی کے پرس میں موبائل بھی تھا جسے وہی مبینہ ڈاکوکہیں
نہ کہیں استعمال ضرور کریں گے یا کسی کو فروخت کردیں گے اسکا تمام ڈیٹا
نکلوا کر مطلوبہ شخص تک بڑی آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے مگر یہ سب کچھ کرنے
سے ہو گا صرف تھانہ کلچر تبدیل کرنے سے نہیں ہو گا |