پولیس سے شکایتیں کیوں۔۔؟

بلا شک و شبہ ملک میں جرائم پر قابو پانے، امن و امان قائم کرنے یا دہشت گردی کا مقابلہ کر نے کی ذ مہ داری پولیس کی ہو تی ہے جبکہ بیرونی جارحیت کے مقابلے کی ذمہ داری فوج کی ہوا کرتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ پولیس سے عام لوگوں کو بہت ساری شکایات ہوا کرتی ہیں۔ حال ہی میں جب صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت بنی تو وزیرِ اعلیٰ جناب پر ویز خٹک صاحب نے ایک کمپلینٹ سیل بنایا، کمپلینٹ سیل کو سب سے زیادہ شکایات جو ملیں، وہ پولیس سے متعلق تھیں۔آ ئیے ! آج اس بات کا مختصر سا جا ئزہ لیتے ہیں کہ اسکی بڑی وجہ کیا ہے اور اسے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے ؟

برِ صغیر پاک و ہند میں انگریزوں کو پولیس فورس بنانے کا خیال 1857کی جنگِ آ زادی کے بعد آیا تھا ا لئے انہوں نے 1861میں ایک پولیس ایکٹ بنایا جس کا مقصد یہ تھا کہ عام لو گوں کو دبا کے رکھا جائے۔ جنرل مشرف کے د ور میں اس ایکٹ کا نام بدل کر پولیس آرڈر 2002 رکھا گیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے 65سالوں میں پولیس کو صحیح تر بیت دینے ، مناسب تنخواہیں، ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام ، وردی یا مو ثر بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کا بندو بست کسی بھی حکومت نے نہیں کیا ۔ بلکہ ہر حکو متی جماعت نے پولیس کو اپنا ذاتی ملازم سمجھ کر انہیں اپنے سیاسی حریفوں کے خلا ف استعمال کیا ۔ میں نے ایک نہا یت ذمہ دار پولیس آ فیسر سے جب یہ سوال پو چھا کہ آپ یا دیگر پو لیس افسران سیاستدانوں کی حکومت میں اپنا فرائضِ منصبی صحیح طور پر سر انجام دے سکتے ہیں یا فو جی حکومت میں اپنا کام آزادانہ طریقہ سے کر سکتے ہیں ،،تو ان کا جواب تھا کہ سچی بات یہ ہے کہ ہم فوجی حکومت میں اپنے فرائض کی بجا آوری زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں، سیاستدان ہمیشہ ہم پر اپنی مر ضی اور دباوء مسلط کرنے کی کو شش کرتے ہیں بلکہ بعض عوام کے منتخب سیاستدان بذاتِ خود اغوا جیسے سنگین جرا ئم میں ملو ث ہو تے ہیں۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔کہنے کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ پولیس کی بھی بعض مجبو ریاں ہو تی ہیں ۔ ڈیرہ اسمعیٰل خان میں جب طا لبان جیل توڑ کر اپنے سا تھیوں کو چھڑا کر لے گئے تو پولیس کو خصوصی طور پر ہدفِ تنقید بنا یا گیا۔میں ان کا طالبان کا مقابلہ نہ کرنے یا گٹروں اور نالوں میں چھپنے کو میں ہر گز مناسب نہیں سمجھتا مگر انسانی نفسیات اور زمینی حقائق کو اگر ہم مدِ نظر رکھیں تو ایسا ہو نا ہی تھا۔لڑنے کے لئے will to fightہونا چاہئیے جو پولیس میں نہ ہونے کے برابر ہے اس کے مقابلہ میں طالبان میں حد درجہ will to fight موجود ہے ۔پولیس کے پاس اس طرح کے بھاری اور مو ثر ہتھیار مو جود نہیں تھے جو طا لبان کے پاس تھے، بوجہ ازیں پولیس اہلکاروں کو یقین تھا کہ مقابلے کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں، اور کوئی انسان مرنا نہیں چاہتا، زندگی سے نفرت نہیں کرتا۔صرف اس صورت میں وہ مرنا چاہتا ہے جب اس کو دل و جان سے یہ یقین ہو کہ اپنی جان دینے کے بعد اس کی اخروی زندگی انعامات سے مالا مال ہوگی اور اس کے اہل و عیال کی دنیاوی زندگی بھی آرام سے بسر کرنے کے لئے اسباب مہیا ہونگے۔ دوسری عام شکایت پولیس کے بارے میں یہ ہے کہ وہ رشوت خور ہے، کرپٹ ہے۔ہوگی ضرور ہو گی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ’’ الناس علی دین ملو کھم ‘‘ اگر ملک کا صدر ، وزیراظم، وزیر، مشیر ، ایم پی اے، ایم این اے سبھی رشوت خور ہیں تو ان حالات میں پولیس اہلکار کیسے فرشتے بن سکتے ہیں؟ ہم سب کا خمیر ایک جیسا ہے ۔ ایک ہی محلے یا ایک ہی گا وں کا ایک نو جوان فوج میں جا کر اچھا کھانا، معقول تنخواہ صاف وردی اور بہترین تربیت حا صل کرکے ایک بہادر سپا ہی اور کما نڈو بن جاتا ہے جسے رشوت کی نہیں، شہادت کی طلب ہو تی ہے مگر اسی محلے یا گاوں کا نو جوان پو لیس میں جا کر رشوت کی علامت بن جاتا ہے۔ وجہ صرف ما حول،تربیت اور حکومت کی دھیان کی ہے۔آج مو ٹر وے کی پو لیس اس لئے بہتر ہے کہ زیادہ تر سفارش کے بغیر تعلیم یا فتہ لو گ بھرتی کرکے انہیں بہترین تربیت اور مو زوں تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ بوجہ ازیں مو ٹروے پر پولیس بہت مو ثر ہے وہاں ہر پاکستانی قانون کی پاسداری کرتا ہے اور حیران کن حد تک مو ٹروے کی پولیس کم بد دیانت ہے۔دوسرے صوبوں کی نسبت صوبہ خیبر پختونخواہ پو لیس کی کا رکردگی ہمیشہ بہت بہتر رہی ہے ۔اپنوں اور غیروں کی مسلط کردہ موجودہ دہشتگردی کی جنگ میں کے پی کے پو لیس نے جو قربا نیاں دی ہیں اسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔حکو مت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ پولیس سروس میں کام کرتے ہو ئے شہید ہونے وا لے افراد کے خاندان کو معقول پنشن اور گھر کی سہو لتیں مہیا کرے۔علا وہ ازیں پولیس کو بہترین تربیت دینے کاہتمام کیا جائے، معقول تنخواہ ، رہنے کے لئے صاف ستھرا بندوبست، بہتر کا کردگی دکھانے والوں کو بہترین انعامات و ایوارڈز کااہتمام، سلیکشن کا سفارش سے مبرا طریقہ کار اور موثر ہتھیار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے۔پولیس کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی پوری اہلیت اور کامل ایمانداری و دیا نتداری کے ساتھ جرائم پر قابو پانے اور امن و امان قائم کرنے کی سر توڑ کا شش کرے۔ رزقِ حلال پر زندگی بسر کرے اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے ۔۔۔۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت جہاں دیگر اداروں میں اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے وہاں پولیس کے نظام میں بھی میں بھی تبدیلی کی دعوے دار ہے، آن لائن ایف آئی آر کا اندراج اور پولیس آن ویکٹم سروس کا آغاز یقینا قابلِ تحسین اقدامات ہیں لیکن یہ بات زہن میں رکھنی چاہئے کہ ایسے اقدامات کو عملی طور پر کامیاب بنانے کے لئے حکومت کی مسلسل تعاون و مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر قیادت اہل ،دیانت دار اور اہلِ بصیرت ہو ، تو پولیس کے نظام کو بہت جلد ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور پولیس سے عوام کی شکایتوں میں اچھی خاصی کمی لائی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315789 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More