ہندوستان کا شمار ان ممالک میں
ہوتا ہے جہاں کی تہذیب وثقافت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ۔یا یوں
کہہ لیں کہ ہندوستان کو مشرقی تہذیب کا گہوارہ تصور کیا جاتا تھا ۔(تھا لفظ
اس لئے استعمال کیا کیونکہ اب یہاں مشرقی تہذیب وروایات سولی چڑھ چکی
ہیں)آج اسی مشرقی تہذیب کے گہوارہ میں مغربی چکا چوند اپنے قدم جما چکی ہے
جس کے مضر اثرات آئے دن ہماری نگاہوں سے گذرتے رہتے ہیں ۔یہ وہی ہندوستان
ہے جہاں خواتین کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔لیکن بڑھتی
جدیدیت نے ہمارے ضمیر کو مردہ کردیا ہے ،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج
ہوچکی ہے ،اور اس ملک میں جہاں خواتین کو کبھی ایک قیمتی اثاثہ تصورکیا
جاتا تھا اسی ملک میں عورتیں محفوظ نہیں ہیں ۔
ہر حادثہ اور واقعہ کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور پنہاں ہوتی ہے ،ہندوستان
میں عورتوں پر بڑھ رہے ظلم و استحصال کا سبب بھی کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔اگر
وجوہات پر نظر ڈالیں قصوروار کی تلاش کریں کہ آخر کس نے اس جرم کو بڑھنے کی
اس قدر چھوٹ دے رکھی ہے تو نہ جانے کس کس پر انگلیاں اٹھیں گی ،کس کس کا
نام سامنے آئے گا۔
اس بھیڑ پر جسے ہر حادثہ کے بعد صرف جلوس کی شکل میں نکلنے کی عادت ہے ۔صرف
بینروں اور نعروں سے اس معاشرے کو بدلنے کی کوشش ،اور پھر دودن بعد دب کر
اپنے گھروں میں بیٹھ جانا۔کس تبدیلی کی بات کرتے ہیں یہ لوگ کیا صرف دھرنے
پر بیٹھ کر حکومتوں کو کوس کر گاڑیوں کو آگ لگا کر اس معاشرے میں عورتوں کو
مکمل حفاظت دی جاسکتی ہے ۔اگر بھیڑ کے ان اقدام کی وجہ سے ہندوستان میں
خواتین کی آبرو محفوظ ہوسکتی ہے ،تو پھر مجھے لگتا ہے کہ ہر عورت کو اس
بھیڑ کا حصہ بن جانا چاہئے اور ہر عورت اس بھیڑ کا حصہ بننا چاہے گی ۔لیکن
ایسا ہوتا ہی کب ہے ؟بلکہ خواتین جن کی حوس کا شکار بنتی ہیں وہ لوگ بھی اس
بھیڑ کا حصہ ہوتے ہیں ۔مسئلہ تو یہاں ذہنیت کا ہوتا ہے ،آپکی سوچ کا ہوتا
ہے آپکے ماحول کا ہوتا ہے ۔تبدیلی کی ضرورت تو آپ کی سوچ میں ہے ۔اس سوچ
میں جسکی وجہ سے اس طرح کی وارداتیں انجام دی جاتی ہیں ،کبھی کبھی چھوٹی
چھوٹی تبدیلیاں ایک بڑے انقلاب کی وجہ بنتی ہیں ،اور اگر اس معاشرے میں ایک
بڑا انقلاب لانا ہے تو پھر چھوٹی تبدیلیاں ضروری ہوجاتی ہیں ۔اور وہ چھوٹی
تبدیلیاں کیا ہوسکتی ہیں یہ آپ خود سوچ سکتے ہیں ۔اگر معاشرے کی کسی برائی
کو دور کرنا چاہتے ہیں تو شروعات خود سے کرنی ہوگی ۔سب سے پہلے اپنے گھر سے
ان برائیوں کو دور کریں ،خود دوسروں کی عزت کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس
بات کی تلقین کریں ۔خاص کر عورتوں کے معاملوں میں ۔ایک اعلیٰ ذہنیت کی
تعمیر کریں بچے ہی کل کو بڑے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بچے اپنے
بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔تو پھر کیوں نہ شروعات اپنے گھروں سے ہی کریں
دوسروں کو کوسنے کے بجائے خود میں تبدیلیاں لائیں ۔تاکہ پھر بھیڑ کو اکٹھا
ہونے کی ضرورت ہی نہ پڑے یہ معاشرہ خود بخود تبدیلیوں کی راہ پر گامزن
ہوجائے ۔
قصور وار تو وہ بھی ہیں جن کے ساتھ اس قسم کی وارداتیں ہوتی ہیں ،اپنی ہی
صنف کو اس بات کا قصور وار تصورکررہی ہوں شاید کچھ لوگ مجھے پست ذہنیت اور
نیرومائنڈکے القابات سے نوازیں ۔لیکن مجھے ایسا لگتا ہے نہ جانے کیوں ،کیا
آپ نے کبھی سوچا ہے اگر اس قسم کی وارداتیں ہوتی ہیں تو ان میں خواتین کا
قصورکیاہوتا ہے ،جی نہیں اس نظریہ سے تو سوچتے ہی نہیں بس سارا قصور مردوں
کے سر ڈال خود کو بے بس ولاچار پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔ہاں بہت
غلط کرتے ہیں وہ لوگ جو اس قسم کی گھناؤنی وارداتیں انجام دیتے ہیں ،پر
قصور وار تو وہ بھی ہیں جو اس طرح کی واردات کو بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی
ہیں۔لڑکیا ں اور عورتیں خاص کر بڑے شہروں میں (اس قسم کی وارداتیں بڑے
شہروں میں زیادہ ہوتی ہیں )اپنی جھوٹی آزادی کے نام پرآدھے ادھورے لباس پہن
کر نام نہادی فرینڈ کے ساتھ سڑکوں پر مستی کرتی ہیں ،اس وقت ان کی شرم وحیا
کہاں چلی جاتی ہے ۔ان کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی وہ رات میں
تنہاں سفر کرتی ہیں ،تو پھر اس قسم کی واردتیں اگر ہوتی ہیں تو قصوروار تو
آپ بھی ہیں ۔اگر آپ خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتیں تو حفاظت کی امید بھی کیوں
کریں ۔کیا آپ کو نہیں چاہئے کہ رات کو ایسے تنہاں سفر کرنے سے احترازکریں
۔آپ کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ آپ ساری رات گھروں سے باہر نہ رہیں کیا آپ کی
لئے ضروری نہیں ہوجاتا کہ آپ ہر رشتہ میں اعتدال بر قرار رکھیں ۔تاکہ کوئی
آپ کا دوست ،رشتہ دار ،کلگ آپ کا غلط استعمال نہ کرسکے ۔تبدیلیاں تو ان کے
خیالات میں بھی ہونی چاہئے جنھوں نے آزادی کے نام پر اپنی نسوانیت کو کچل
ڈالا ہے ۔اپنی انا اپنی تہذیب کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔جو
صرف مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے وجود کا سودا کرنے سے بھی نہیں چوکتیں
۔بدلنا تو پڑے گا خود کو ،کیا ہوا جو ہمیں دقیانوسی خیالات کا مالک قرار
دیا جائیگا ہمیں 18 صدی کی ذہنیت تصور کیا جائیگا ،لیکن اس کے باوجود ہم
محفوظ تو ہونگے ۔اگر اپنی اس جدیدیت کو تھوڑا سا لگام لگائیں ۔مجھے معلوم
ہے میرا مضمون پڑھنے والے80 فیصد لوگ اس قسم کے نہیں ہیں لیکن میں ان20
فیصدلوگوں سے مخاطب ہوں ۔
قصور تو یہاں کے قانون وضوابط کا بھی ہے جہاں کسی کو اس کے جرم کی سزا نہیں
ملتی ،مجرم پہلے تو پولیس کی پکڑ میں نہیں آتے اور جب آتے ہیں تو عدالتوں
میں سماعتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تاریخ پر تاریخ
،تاریخ پر تاریخ ،ذیلی عدالت ،عدالت عالیہ ،عدالت عظمیٰ سے ہوتا ہوا یہ
سلسلہ صدرجمہوریہ تک جاتا ہے اور ان فیصلوں میں نہ جانے کتنا وقت گذر جاتا
ہے شاید اتنا کہ گنہگار اپنے جرم کو بھول جائے یا شاید اتنا کہ قدرت اسے
سزائیں دینے پر مجبور ہوجائے ۔اور تو اور اگر اس قسم کاملزم کوئی نیتا یا
دھرم گرو ہو تو پھر پوچھنا ہی کیا ،اپنے عہدے کا غلط استعمال اپنے بھکتوں
کی اندھی آستھا کی وجہ سے وہ اپنے گناہوں کو چھپانے میں کامیاب ہوجاتا ہے
۔ایسا معاملہ حال ہی میں آسارام کا دیکھنے میں آیا ہے ۔یہ تو خیر ایک مثال
ہے اس طرح کے ہزاروں معاملات دیکھنے میں آئے ہیں ،اس قسم کے کئی نام پولیس
تھانوں میں پڑی بوسیدہ فائلوں میں رشوتوں کی آڑ میں دب کر ختم ہوگئے ۔مجرم
کو سزا تو کیا اور زیادہ شہرت نصیب ہوجاتی ہے ۔کیونکہ نیوز چینل اور
اخبارات میں ان کی خبریں چھائی رہتی ہیں ۔اور شہرت کے بھوکے لوگ اس قسم کی
حرکتیں انجام دینے سے نہیں چوکتے ۔
قصوروار تو وہ پولیس افسر بھی ہوتے ہیں جن کے ذمہ اس ملک کے عوام کی حفاظت
ہوتی ہے ۔اور وہ اپنا فرض پورا کرنے کے بجائے آنکھوں پر پٹیاں باندھیں پڑے
رہتے ہیں ۔اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب کسی کی عصمت لٹ چکی ہوتی
ہے ۔اس کے بعد پھر سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ملزموں کی جھوٹی گرفتاری کا جی ہاں
پہلے تو ملزم ان کی گرفت میں نہیں آتے اور جب وہ گرفتار ہوجاتے ہیں تو
بدعنوانی کی پھیلی وبا انہیں بآسانی آزاد کرا لے جاتی ہے ۔سیکڑوں میں سے
مشکل سے دوچار ہی ایسے ہوتے ہیں جنھیں ان کے جرم کی سزا ملتی ہے ۔اس کے
علاوہ اس طرح کے معاملوں میں پولیس کا رویہ متاثرہ کے ساتھ بھی نہایت ہی
شرمناک ہوتا ہے ۔ایسے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ کوئی بھی لڑکی یا اس
کے خاندان والے اس قسم کی رپورٹ درج کرانے سے قبل دس بار ضرور سوچتے ہیں ۔
اب بات حکومت کی آتی ہے کسی بھی ملک کے شہری کے حفاظت کی ذمہ داری اس ملک
کی حکومت کی ہوتی ہے اور اس طرح کے معاملاات میں ہماری حکومت کا رویہ کافی
سست ہے یہاں تک کے خود اس ملک کی خاتون لیڈران کیمروں کے سامنے اپنے ڈر کا
اظہار کرتی ہیں جب تک ایسے معاملات میڈیا میں اچھالے نہیں جاتے حکومت اسے
نظر انداز ہی کرتی رہتی ہے ۔
دہلی میں چلتی بس میں پیرا میڈیکل طالبہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی اور
بعد میں اس کی موت اور اس سے ملک بھر میں پیدا ہوئے عوامی غم وغصہ کے تناظر
میں حکومت نے 1000 کروڑ روپے کے سب سکریپشن سے 'نربھیا فنڈ' بنانے کا ارادہ
کیا ،وزیر خزانہ پی چدمبرم نے پارلیمنٹ میں 2013-14 کا عام بجٹ پیش کرتے
ہوئے کہا کہ خواتین کے وقار اور سلامتی کو یقینی بنانا ہماری اجتماعی ذمہ
داری ہے۔ہم لڑکیوں اور خواتین کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے لئے ہر ممکن کام
کر رہے ہیں۔ اس کے لئے 1000 کروڑ روپے کے سرکاری سب سکریپشن سے 'نربھیا
فنڈ' بنائے جانے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ہوئے واقعات نے
ہمارے خیال اور ترقی پسند عقائد پر ایک امٹ کالی چھایا چھوڑی ہے۔ ہم خواتین
کو بااختیار بنانے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لئے
پابند ہیں۔لیکن کیا ان کے بڑے بڑے دعوے اور نربھیا فنڈ کے کروڑوں روپئے کسی
کام آئے ؟کیا اس کے بعد عصمت دری کے معاملات میں کمی آئی ؟کیا اب خواتین
محفوظ ہیں ؟جی نہیں بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ اس قسم کے معاملوں میں کمی کے
بجائے زیادتی ہی آئی ۔اگر صحیح میں اس وباسے نجات حاصل کرنی ہے تو اپنی سوچ
اپنے خیالات میں تبدیلی لانی ہوگی ۔اور شروعات خود سے کرنی ہوگی کسی سرکاری
امداد کی ضرورت نہیں ہوگی ،بس قصوروار کو اس کے قصورکی سزا آئین اسلام کے
مطابق دیں مسئلے حل ہوجائیں گے ۔ضرورت ہے مثبت سوچ کی اعلیٰ ذہنیت کی جو
ایک نئے معاشرے کی تعمیر میں آپکی مدد کرے ۔آپ کے اس خواب کو پورا کرے جو
آپ اس ہندوستان کے لئے دیکھتے ہیں ۔ |