کیا دقیانوسی سوچ ہے کیا
دقیانوسی سوال ہے یا کیا عجیب دقیانوسی شخص ہے۔قارئین آپ کو اکثر دوران ِ
گفتگویہ الفاظ کم و بیش سننے کو ملتے ہونگے کیا آپ کو پتاہے ایسا کیوں کہا
جاتا ہے آخر دقیانوس کون ہے کس بلا کا نام ہے ۔ اور اس کو ہمیشہ منفی نظریہ
سے ہی کیوں دیکھا جاتا ہے ۔کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا جس کا نام دقیانوس تھا
۔ جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر ونیاز دینے کی
ترغیب دیا کرتا تھا اس نے اپنی گمراہ کن سوچ اور غلامانہ نظریہ کواپنی
رعایا میں اس قدر عام کردیا تھا کہ اس کی پوری قوم اسکے نظریہ کی حامی ہو
کر گمراہیوں کے اندیھروں میں غرق ہوچکی تھی ۔اﷲ تعالیٰ نے اس کی مشرک قوم
میں سے چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف
ایک اﷲ ہی ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے ۔ یہ چند نوجوان
اپنی مشرک قوم سے الگ ہوکر کسی ایک جگہ اﷲ واحد کی عبادت کرنے لگے۔آہستہ
آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدائے توحید کا چرچا ہونے لگا اور بات پھیلتے
پھیلتے بادشاہ دقیانوس تک پہنچ گئی۔دقیانوس نے ان نوجوانوں کو اپنے دربار
میں طلب کرکے ان سے پوچھا ۔ان نوجوانوں نے بادشاہ کے آگے برملا اﷲ کی توحید
بیان کی ۔جس پر دقیانوس بادشاہ اور اس کی مشرک قوم نے ان پر ظلم کرنا شروع
کردیا ۔نوجوانوں نے آپس میں ارادہ کیا کہ جب ہم نے اپنی قوم کے معبودوں سے
کنارہ کشی کرلی ہے تو اب جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار
کرلیں۔چنانچہ اس کے بعد وہ ایک غار میں جاچھپے جب ان کے غائب ہونے کی خبر
مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے ،جس طرح نبیﷺ کی
تلاش میں کفارِ مکہ غارِ ثور تک پہنچ جانے کے باوجود (جس میں اﷲ کے رسول
جنابِ نبی کریم ﷺخلیفہ ء اول حضرت ابو ابکر صدیق ؓکے ساتھ موجود تھے)ناکام
رہے تھے۔ بالآخر پھران نوجوانوں نے بادشاہ دقیانوس اوراس کی قوم کے ڈر سے
اپنے دین کو بچانے کے لیے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزین
ہوگئے۔ جہاں اﷲ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ تین سو نو(۳۰۹) سال
تک وہاں سوئے رہے۔
قارئین یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں قرآن میں اصحابِ کہف کہا گیا ہے۔
جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا۔
القرآن ترجمہ: جبکہ تم ان سے اور اﷲ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کش
ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جابیٹھوں ، تمھارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے
گا اور تمھارے لیے تمھارے کام میں سہولت مہیاکردے گا۔(سورہ کہف آیت نمبر۱۶)
اور جب اصحابِ کہف نے اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا
مانگی۔
القرآن ترجمہ: ان چند نوجوانوں نے جب غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ ، اے
ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے
لیے راہ یابی کو آسان کردے۔(سورہ کہف آیت نمبر۱۳)
لہذا اﷲ نے انکی مدد فرمائی اوررہنمائی کی ان کو دنیا والوں سے بے خبر
کردیا اور دنیا والوں کو ان سے ۔یہاں تک کہ اﷲ نے سورج کو بھی حکم فرمادیا۔
القرآن ترجمہ: آپ دیکھیں گے کہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غار سے دائیں جانب
جھک کر جاتا ہے اور بوقت غروب ان کے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اس غار
کی کشادہ جگہ میں ہیں ۔ یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے، اﷲ تعالیٰ جس کی رہبری
فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کردے ناممکن ہے کہ آپ اس کا
کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں۔(سورہ کہف آیت نمبر)
یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا
کے نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی ۔ حالانکہ وہ غار
میں کشادہ جگہ پر محواستراحت تھے۔ قارئین سورج کا اس طرح نکل جانا کہ
باوجود کھلی جگہ ہونے کے وہاں دھوپ نہ پڑے ، اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے
ایک نشانی ہے۔
اس کے بعد اﷲ نے اسی آیت میں گمراہ لوگوں کے لیے فرمایا کے ان کا کوئی
مددگار اور کارساز نہیں ہوگا جیسے دقیانوس بادشا ہ اور اس کے پیروکار ہدایت
سے محروم رہے تو کوئی انہیں راہ یاب نہیں کرسکا۔
آگے اصحاب ِ کہف کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں
القرآن ترجمہ: آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے ،
خود ہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے ، ان کا کتا بھی چوکھٹ
پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ اگر آپ جھانک کر انہیں دیکھنا چاہتے تو
ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھاجاتی ۔ اسی
طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں ۔ ایک کہنے
والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ
ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ، کہنے لگے کہ تمھارے ٹھہرے کا بخوبی علم اﷲ
تعالیٰ ہی کو ہے۔ اب تو تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر
بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کون سا کھانا پاکیزہ تر ہے۔ (سورہ کہف
آیت نمبر۱۸:۱۹)
اصحابِ کہف بیدار اس لیے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں جس
طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ زیادہ کروٹیں بدلنے کی
وجہ سے وہ بیدار بیدار نظر آتے تھے۔اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسا اس لیے تھا کہ
ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔یہ ان کی حفاظت کے لیے اﷲ کی طرف سے خاص
انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جاسکے۔جس طرح اﷲ نے انہیں اپنی قدرت سے
سلادیا تھا اسی طرح تین سو نو سال کے بعداﷲ نے انہیں اٹھادیا اور اس حال
میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے جس طرح تین سو نو سال قبل سوتے
وقت تھے۔ جس وقت یہ ٖغار میں داخل ہوئے تھے اس وقت صبح کا وقت تھا اور جب
جاگے تو رات کا آخری پہر تھا اسی لیے آپس میں یہ نوجوان ایک دوسرے سے سوال
و جواب کرنے لگے ۔کہ ہم کتنی دیر سوئے ہیں ایک نے کہا شاید ایک دن یا اس سے
بھی کم دن کا کچھ حصہ ۔تاہم کچھ سمجھ نہ پائے اور معاملہ اﷲ کے سپرد کردیا
کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔بیدار ہونے کے بعد انہیں کھانے کی طلب ہوئی جو
انسان کی اہم ضرورت ہے لہذا ان میں سے ایک کو چاندی کا سکہ دے کر کچھ کھانے
کا سانان کرنے باہر بھیجا ۔ اور احتیاط اور نرمی کی تاکید کی گئی کہ کہیں
اس کے رویے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہوجائے اور دقیانوس بادشاہ اور اس
کی قوم ہم پر کوئی نئی آفت نہ بن جائیں ۔جب اصحابِ کہف کا یہ ساتھی چاندی
کا سکہ لے کر شہر گیا جو تین سو نوسال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا
تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا تو وہ حیران ہوا اس نے اپنے ساتھ
والے دکاندار کو وہ سکہ دکھایا وہ بھی دیکھ کر حیران رہے گیا۔ جب کہ اصحاب
کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے
گیا ہوں لیکن اسے کیا خبر کے اس کے ـ" کل " کو تین صدیاں گزرچکی تھیں ۔ لوگ
کس طرح اس کی بات مان لیتے ۔لوگوں کاہجوم آگیا اورشک ظاہر کرنے لگے کہ کہی
اس کے پاس زمین میں مدفون خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔لہذا بات حاکمِ وقت تک جا
پہنچی۔ بادشاہ نے اصحاب کہف کے اس ساتھی کو طلب کیا اور اس نے سارا ماجرا
کہہ سنایا ۔بادشاہ اور رعایا اس کی بات سن کر حیران رہ گئے ( کہتے ہیں کہ
اس وقت کے بادشاہ اور اسکے ساتھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان نہ
رکھتے تھے یعنی قیامت کے وقوع اور بعث الموت پر یقین نہ تھا۔اور قیامت کے
دن کے بارے میں آپس میں لڑرہے تھے اہلِ ایمان کہتے کہ قیامت کے وقوع اور
بعث الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے ہے جبکہ مشرکین اس سے انکار کرتے تھے) جب
اصحابِ کہف کا واقع سنا تو قیامت کے وقوع اور بعث الموت کا ایمان پختا
ہوا۔قصہ مختصر یہ کہ اصحابِ کہف کا وہ ساتھی واپس اپنے ساتھیوں کے پاس آیا
اور سارا ماجرا کہے سنایا ۔ جس کے بعد اﷲ نے ان کو پھر سلادیا ۔
قارئین اصحاب ِ کہف کے اس واقعے میں نوجوانوں کے لیے بڑا سبق ہے کہ کس طرح
اِن چند نوجوانوں نے دینِ حق کے لیے باطل قوتوں کے آگے جھکنے سے انکار
کردیا اور کمزور ہونے کے باوجود اپنے وقت کے نمرود ،شداداور فرعونوں سے
ٹکراگئے لیکن جھوٹے معبودو کے آگے سرنہ جھکایا ایسے کسی من گھڑت دین کو
تسلیم نہ کیاجس میں اﷲ واحد کی واحدانیت میں فرق آتا ہو۔ اور پھر دنیا نے
دیکھا دینِ حق کو اپنانے والوں پر کس طرح اﷲ کی نصرت آئی اور کس طرح اﷲ
تعالیٰ نے اپنے فرماں بردار محبوب بندوں کواپنی امان میں لے لیا۔آج کل کے
نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اﷲ کے دین کی طرف
کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔۔۔کاش آج کے یہ نوجوان اپنی جوانیوں کو اﷲ کی
عبادت اور دینِ حق کی پہچان میں صرف کریں تو کیا ہی اچھا ہو نہ کہ دقیانوس
سوچ کو اپنے اندر بسائے گمراہیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق رہیں۔ |