ختم نبوت پر خصوصی تحریر
حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی ذات رسل کرام علیھم السلام کے سلسلۃ الذہب کی
آخری کڑی تھی آپ ﷺ آخری رسول اور آخری نبی تھے قرآن حکیم نے آپ کوخاتم
النبیین کہہ کر آپ کی اس صفت کو اتنا نمایاں اور اتنا واضح کر کے بیان کیا
جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور مسلمان عہد رسالت سے
لے کر آج تک اس عقیدے پر بڑی مضبوطی اور پختگی سے قائم ہیں۔حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ نے کاذب مدعیان نبوت سے جدال و قتال کر کے اور انہیں اپنے
انجام تک پہنچا کر اسے حقیقت ابدی کا روپ دے دیا۔
مگر متحدہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گورداسپورکے موضع قادیان میں
1839ء ایک شخص مرزا غلام احمد پیدا ہوا جس نے مجدد ،مسیح موعود،ظلی نبی اور
پھر حقیقی نبی ہونے کا دعویٰ کر کے چادرختم نبوت کو تار تار کرنے کی کوشش
کی اور اپنے اوپر الہام اور وحی کے اترنے کے دعوے کیے۔مرزا غلام احمد
قادیانی نے اپنی زندگی کے چالیس سال گزارنے کے بعد اس خاردار وادی میں قدم
رکھا اور 1879ء میں یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب کی
تردید میں ’’براہین احمدیہ‘‘کے نام سے پچاس جلدوں میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں
چنانچہ اس نے 1880ء سے 1884ء تک اس کتاب کی چار جلدیں شائع کر کے اس بات کا
اعلان کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے کہ وہ دین کی اشاعت کریں اور اس
کتاب کو انہوں نے اپنے مستقبل کی تعمیر کے لئے بنیاد بنایا اور الفاظ کے
پیچ و تاب سے اپنے دل کی بات گہرائی سے کردی۔
مرزا قادیانی کے ان دعوؤں تک عام لوگوں کا ذہن تو نہ پہنچ سکا بلکہ خواص سے
بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کی نظریں بال جیسی باریک گمراہی کو بھانپ نہ سکی
اور ایک عرصہ دراز تک شک میں مبتلا رہے اور وہ لوگ ان باتوں کو تصوف کے
نکتے سمجھتے رہے اور تاویل کے درپے رہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے جب ’’براہین احمدیہ ‘‘ شائع کی توبعض علماء نے
اس کتاب کی بھر پور تائید و حمایت کی اس کے بعد جب علماء اسلام کی طرف سے
اس کتاب کے مضامین پر اعتراضات کیے گئے تو ان ظاہر بین مولویوں نے مرزا
قادیانی کے غلط نظریات کی تاویلات شروع کر دیں اور اس کے محامل بیان کرنے
لگے چنانچہ 1891ء تک وہ یہ کام کرتے رہے اس کے بعد ان کی رائے میں تبدیلی
آئی اور پھر مرزا قادیانی کے غلط اور کافرانہ نظریات کی مخالفت کا آغاز کیا
۔ گویا گیارہ سال کی تائید و حمایت کے بعد انہیں شرح صدر ہوا کہ مرزا
قادیانی کے نظریات غیر اسلامی ہیں۔
گویا علماء ظاہرایک عرصہ دراز تک مرزا قادیانی کو بزرگ اور صالح مسلمان
سمجھتے رہے اور اتقو بفراسۃ المؤمنین فانہ ینظر بنور اللّٰہ ۔کی کوئی جھلک
وہ نہ دے سکے جس میں انہیں مستقبل کا عرفان ہوتا اور احتیاطی بلکہ حفاظتی
تدابیر اختیار کر لی جاتیں۔
علمائے اہلسنت کے سرخیل حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری قدس سرہ پنجاب کے
بزرگ علماء میں شمار ہوتے تھے ۔بڑے زیرک اور فعال عالم تھے۔مرزا غلام احمد
قادیانی کی ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تیسری جلد 1883ء میں جب شائع ہو کر سامنے
آئی تو ان کی نظر بصیرت نے فورا مستقبل میں جھانک لیا اور اصلاح کے جذبے کے
تحت کام شروع کر دیا اور ’’تحقیقات دستگیریہ رد ہفوات براہینیہ ‘‘ کے نام
سے ایک رسالہ تحریر کیا جس میں مرزا قادیانی سے ان کے کفریہ نظریات سے توبہ
کا مطالبہ کیا پھر اس رسالہ پر مولانا غلام رسول امر تسری ،مولانا احمد بخش
امر تسری، مولانا نور الدین امر تسری، مولانا غلام محمد بگوی خطیب شاہی
مسجد لاہور ، مولانا حافظ نور احمد خطیب انار کلی لاہور ، مولانا نور احمد
ساکن کھائی کوٹلی ضلع جہلم اور مولانا عبد اﷲ ٹونکی جیسے افاضل روزگار
حضرات سے اس کی تائیدلی اور اپنے موقف کو اس طرح پھر پور انداز میں پیش کیا
اور اپنی جدو جہد جاری رکھی ۔ پھر 1303ھ/ 1886ء میں تحقیقات دستگیر یہ کا
عربی ترجمہ کیا اور اس کا نام ’’رجم الشیاطین برداغلوطات البراہین‘‘رکھا
اور حرمین شریفین کے علمائے کرام سے تائیدات حاصل کیں ۔چنانچہ مکہ مکرمہ سے
مبلغ اسلام حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانوی نے آپ کی تائید کرتے ہوئے لکھا :ھو
عندی خارج من دائرۃ الاسلام۔یعنی مرزا قادیانی میرے نزدیک دائرہ اسلام سے
خارج ہے اور حضرت مولانا صدیق کمال حنفی مفتی مکہ مکرمہ ، حضرت مولانا محمد
سعید بن محمد باصیل شافعی ،حضرت مولانا محمد بن حسین مالکی ،حضرت مولانا
خلف بن ابراہیم حنبلی اور مدینہ منورہ کے حضرات علماء کرام میں سے حضرت
مولانا عثمان بن عبد السلام داغستانی حنفی ، حضرت مولانا سید احمد برزنجی
شافعی اور حضرت مولانا محمد علی بن طاہر الوتری نے آپ کے موقف کی بھر پور
تائید کی اسی طرح صوبہ بہار پٹنہ کے ایک معروف عالم دین محمد بن عبد القادر
باشہ جو مدینہ منورہ میں مقیم تھے نے بھی تائید کی ۔
حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے تحریک قادیانیت
کے خلاف سب سے پہلے 1883ء میں فتویٰ کفر جاری کر کے پہلے ضرب لگائی ہے اور
اس کے مکر و فریب کی خانہ سازنبوت کے تاروپود بکھیر کے رکھ دئیے۔
حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری کی شروع کی اس تحریک کو حضرت مولانا غلام
رسول امرتسری جو رُسُل بابا کے نام سے معروف تھے آگے بڑھایا اس کے بعد
مولانا حامد رضا بریلوی ،اعلیٰ حضرت پیرسید مہر علی شاہ گولڑوی، اعلیٰ حضرت
مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی، اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت حضرت پیر سید
جماعت علی شاہ محدث علی پوری اور مولانا انوار اﷲ حیدرآبادی رحمۃ اﷲ علیہم
نے متحدہ ہندوستان میں اس تحریک کا بھر پور تعاقب کیا اور دلائل و براہین
سے اس ’’انگریزی نبوت‘‘ اور اس کے داعی کو خائب و خاسر کر کے ختم نبوت کا
علم لہراکر ولکن رسول اﷲ و خاتم النبیین کی عملی تفسیر کر کے متحد ہ
ہندوستان میں جو کام بھی ہوا وہ انہیں بزرگون کا فیض تھا اور پھر پاکستان
میں دونوں دفعہ جب تحریک ختم نبوت کو آگے بڑھایا گیا اور اس کے حقیقی ثمرات
حاصل کرنے کی سعی کی گئی تو انہی صاحب بصیرت اور پاک طینت بزرگوں کے محبین
آگے بڑھے اور اس تحریک کی قیادت کی ۔مولانا شاہ احمد نورانی جو 1974ء میں
جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی قائد تھے نے اسمبلی کے اندر اور باہر
تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے بڑی جدو جہد کی اور اس طرح تحریک
اپنے منطقی انجام کو اس طرح پہنچی کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی
ذریّت کو پارلیمنٹ نے کافر و مرتد قرار دے دیا اور انہیں مسلمان کہلانے کا
حق بھی نہیں دیا اور اس کی تعلیمات کی اشاعت کو پاکستان میں ممنوع قرار دے
دیا اور پھر اس فیصلے کی تشہیر پورے عالم میں کی گئی جس سے قادیانی مکرو
فریب کی حقیقت آشکار ہو گئی ۔
اسی طرح حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری نے جس کار خیر کا آغاز کیا تھا اس
طرح وہ اپنے حقیقی اختتام تک پہنچا اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو
گئی کہ حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری نے سب سے پہلے فتوی تکفیر جاری کر کے
اس تحریک تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد رکھی ۔ |