وہ دانش ور جو ہمیشہ سے مدارس وسکولوں میں بچوں کو تعلیم
کے دوران مارپیٹ کے مخالف ہیں ،انسانی حقوق کے وہ علمبردار جو گھریلوں
خواتین کے ساتھ ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتے نہیں تھکتے ، مزدوروں اور
محنت کشوں کے نام پر سیاست کرنے والی وہ تنظیمیں جو تنخواہوں میں کمی بیشی
کے لئے kescکے ملازمین کو کئی روز تک ادارے کے دفاتر کے سامنے دھرنے پر لے
آتی ہیں ، اس طرح کے لوگوں سے جب آپ سنتے ہیں کہ کراچی کی بدامنی کا واحد
حل آپریشن ہے ،تو آپ کو تعجب بھی ہوگااور افسوس بھی۔ ارے بھائی ،جب تعلیم
وتربیت کے لئے کسی بچے کو چپت لگانا جرم ہے ،اپنی بیگم اور بہن بیٹیوں کو
ان ہی کی خیر خواہی کے لئے ڈانٹ ڈپٹ بد تہذیبی ہے ،اپنے گھر یاادارے میں
گھر کے افراد کی طرح پالے ہوئے مزدور کو اس کی کسی غلطی پر سرزش باعث FIR
ہے ،تو اپنی ہی قوم پر آہن وآتش کی بارش کونسا انصاف ہے ،جس کی دعوت آپ دے
رہے ہیں ،آپ ہی بتائیں ،کہ بچے کو ماں دودھ نہ پلائے تو وہ چیخ چیخ کرروتا
رہتا ہے، اب کیا عقل مندی اس کے منہ بند کرنے میں ہے ،یا اسے دودھ پلانے
میں ،دانش گاہوں کے ہاسٹلز یا کلاس رومز میں طلبہ اُس وقت شورمچاتے ہیں ،لڑتے
ہیں ،جھگڑتے ہیں ، جب ان کا نگراں یا پروفیسر نہ ہو ، یا ہومگر نکھٹوہو،اب
خدارا بتایئے ،یہاں علاج کیاہے؟ـــ․․․ ہمیں یاد ہے ،کہ جب ہاسٹلز میں نگراں
نہ ہوتا تھا یا نالائق ہوتاتھاتو اودھم مچی رہتی تھی ،اور ایسے لائق فائق
حضرات کو بھی دیکھا ،کہ طلبہ ان کے آفس کے سامنے ان کے جوتے (جو وہ باہر ہی
نکالتے تھے ) دیکھ کر دم بخود رہتے ،وہ بعض اوقات اپنے جوتے دروازے پر چھوڑ
کرمتبادل پیزار پہن لیتے اورکہیں ضروری کام سے چلے جاتے ،سب طلبہ اپنی
لکھائی پڑھائی میں پوری تندہی سے مشغول رہتے ، بالکل ایسے ہی ،جیسے حضرت
سلیمان علیہ السلام نے جنّات کو مسجد اقصی کی تعمیر پر لگایا ہواتھا، وہ دن
رات کام کرتے رہتے ،اتنے میں قرآن کریم کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام
کی وفاۃ کامقررہ وقت آپہنچا، مسجد کی تکمیل ابھی باقی تھی، تو انہوں نے
اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنی عصا کا سہارا لیا اور روح قبض ہوگئی ، جنّات
سمجھتے رہے کہ حضرت کھڑے ہیں نگرانی فرمارہے ہیں ،حتی کہ ِادھر مسجد مکمل
ہوگئی ،اورُ ادھر عصائے سلیمان علیہ السلام کو دیمک نے کھاکرکمزور کردیا،جس
کی وجہ سے حضرت زمین پر آرہے، تو جنات کو اندازہ ہوگیا کہ حضرت تو کھڑے
کھڑے وفات پاچکے تھے ،اور ہم سمجھتے رہے کہ وہ اِشراف اور نگرانی کے لئے
عرصہ سے قیام میں ہیں ۔
سیانے کہتے ہیں ،بچوں کو شیر کی نگاہ سے دیکھو اور سونے کا نوالہ دو ، اب
نواز شریف صاحب شیر کی نگاہ نہیں شیر ہی کو بنفس نفیس انتخابی معرکوں اور
بڑے بڑے جلسوں میں قوم کے درمیان لے آتے ہیں ، لیکن سونے کے نوالے وہ خود
یا ان کے بچے ہی لیتے ہوں گے ، قوم تو جہاں کھڑی تھی ، اس سے مزید نیچے کو
آرہی ہے، شریعت میں چوری کی سزا دو وجہوں سے کالعدم ہوجاتی ہے ،افلاس کی
وجہ سے کوئی چوری کرے یا پھر مال حِرزو حفاظت میں نہ ہو، اب آپ ہی بتائیے ،کہ
ملک میں غربت اور مہنگائی کن حدود کو چھورہی ہے اور حفاظت کا عالم یہ ہے کہ
اخباری رپورٹوں کے مطابق خود نیوی اہل کار نیوی کے افسراں کو اغوا کرتے ہیں،
تاوان کے لئے ،تو ایک عام آدمی کا کیا بنے گا؟کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان
کا کردار افغان امریکن جنگ میں منصفانہ تھا، مصرمیں خون کی ندیاں بہائی
گئیں ، آپ نے کیا کیا ،کشمیر ایک جہنم ہے ، آپ نے یہاں جلنے والوں کے حق
میں کونسا بڑاکردار ادا کیا ہے ،چیچن مجاھدین کے زخموں پر رینجرز نے جس طرح
کویٹہ میں گذشتہ سالوں نمک پاشی کی ، وہ سب کے سامنے ہے ،شام پر استعماری
طاقتوں کو حملہ ہونے کو ہے ، آپ نے کیا پیش بند ی کی ہے ،بلوچستان میں
لاشیں ملتی رہیں ، آپ نے مجرمین کے کونسے ہاتھ توڑے ، کراچی شہر لسانی
وفرقہ وارانہ فسادات میں سلگ رہاہے ، آپ نے اپنے اقتدار کے لئے میثاقِ
جمہوریت پر دستخط کردئیے ،کیا میثاقِ مدینہ کی طرح آپ نے ان متحارب گروپوں
میں کبھی ’’ میثاقِ امن ‘‘ پر بھی دستخط کروائے ہیں ؟ حکومت ڈائیلاگ کے
ذریعے مختلف اکائیوں کے درمیان میثاقِ مدینہ کے طرز پر اگر کسی میثاقِ امن
کی تشکیل وتدوین نہیں کی گئی ،تو پھر اجتماعی عذاب کے لئے تیاررہیں ،شیخ
الحدیث مولانا محمد صدیق فرماتے ہیں : ’’ واتقوا فتنۃ لاتصیبن الذین ظلموا
منکم خاصۃ واعلموا ان اﷲ شدید العقاب ‘‘ ترجمہ اور بچتے رہو اس فساد سے، کہ
نہیں پڑے گا تم میں سے خاص ظالموں ہی پر، اور جان لو کہ اﷲ کا عذاب سخت ہے
۔ (انفال : ۲۵) اس آیت میں اﷲ تعالی نے ایک ایسے عذاب سے بچنے کا حکم کیاہے
،جو صر ف مجرموں کو نہیں پہنچے گا بلکہ مجرم اور غیر مجرم دونوں کو پہنچے
گا ، اﷲ تعالی کا عذاب دو قسم پر ہے ایک خاص جو کہ صرف مجرموں کو پہنچتاہے
، دوسرا عذاب عام جو کہ اس دنیا میں مجرم اور غیر مجرم سب پر آتاہے ،اس
عذاب عامہ کے اسباب کیاہیں ؟
۱: ترک اصلاح : ۔۔۔ قوم نیکی کی دعوت دینا ترک کردے یعنی برائی دیکھ کر اس
کو نا گواری نہ ہو، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’من رای منکم منکرا
فلیغیر ہ بیدہ وان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان
‘‘، جو تم میں سے برائی دیکھے وہ ہاتھ سے روک دے ( ارباب اختیار کی ذمہ
داری ) اگر یہ طاقت نہ رکھے ،تو زبان سے روک دے ( داعی الی اﷲ کی ذمہ داری
)اگر یہ بھی طاقت نہ ہوتو کم ازکم دل سے براجانے اور اس کا دل برائی محسوس
کرے ،یہایمان کا ادنی درجہ ہے، مشکوۃ صفحہ ۴۳۶ حدیث پاک میں ہے : اﷲ تعالی
نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا فلاں بستی کوالٹ دو ، انہوں نے عرض
کیا کہ اے اﷲ اس میں ایک نیک آدمی بھی رہتاہے، اﷲ تعالی نے فرمایا کہ اس کو
بھی الٹ دو کہ میراحکم توڑاجاتا تھا اور اس کے ماتھے پر بل بھی نہیں آتاتھا،
مشکوۃ صفحہ ۴۳۹ ،ایسے ہی ایک جماعت بیت اﷲ پر حملہ کرنے کے لئے اٹھی گی ،
اس جماعت کو شہر سمیت دھنسا دیا جائے گا، حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ اس شہر
میں ایسے ایک لوگ بھی ہوں گے جوکہ اس جرم میں شریک نہ تھے، تو فرمایا :’’
یُبعثون علی نیاتھم ‘‘۔کہ آخرت میں اپنی اپنی نیت پر اٹھائے جائیں گے ۔
۲: ترک جہاد : ۔۔ عذاب عامہ کا دوسرا سبب ترک جہاد ہے کہ جب قوم جہاد فی
سبیل اﷲ کو ترک کردے گی، کفار غلبہ حاصل کرکے مسلمانوں پر یلغار کردیں گے،
جس سے عورتیں اور معصوم بچے بھی ہلاک ہوجائیں گے ۔
۳: توہین شعائر اﷲ : ۔۔۔ عذاب عامہ کا تیسراسبب توہین شعائر اﷲ ہے ،اﷲ
تعالی فرماتے ہیں، اﷲ تعالی کے شعائر کی توہین نہ کرو، یعنی جو اﷲ تعالی کے
دین کے علامتیں جانی جاتی ہیں،ان کی توہین نہ کرو ، اس میں توہین خدا ،توہین
رسالت ،توہین کعبۃ اﷲ ،توہین مساجد ، توہین قرآن کریم ،توہین دینی مدارس ،توہین
اولیائے کرام وعلمائے عظام سب شامل ہیں، جب ان شعائر کی توہین ہوگی تو اﷲ
تعالی کی طرف سے عذاب عامہ ہوگا، اﷲ تعالی نے فرمایا :’’ من عادی لی ولیا
فقد آذنتہ بالحرب‘‘ ۔ جومیرے ولیوں سے دشمنی کرتاہے اس سے میرا اعلان جنگ
ہے ۔
۴: سود خوری ۔۔۔ عذاب عامہ کا چوتھا سبب سود خوری ہے جو قوم سود دینے اور
لینے میں مشغول ہوجائے اور باز نہ آئے ، اﷲ تعالی نے فرمایا (فاذنوا بحرب
من اﷲ ورسولہ )تیار ہوجاؤ لڑنے کو اﷲ سے اور اسکے رسول سے ۔ (بقرۃ آیت ۔
۲۷۹)
۵۔ظلم : ۔۔۔ عذاب عامہ کا پانچواں سبب ظلم ہے ، ظلم خواہ کسی بھی نوعیت
کاہو اس کی وجہ سے اﷲ تعالی کا غضب نازل ہوتاہے ، مظلوم کی بددعا سے بچو ،حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اتقوا دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینہ وبین اﷲ
حجاب‘‘ ۔ ظلم کی اقسام جو ہمارے ملک میں عام ہیں : نظام اسلام کا مطالبہ
کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنا، کافروں کو ڈرون حملوں کی اجازت
دے کر بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرنا، اقتدار سے ناجائز فائدہ حاصل کرکے اپنے
مخالف بے گناہوں کو مارنا ،برائے تاوان اغوا کرکے تکلیف پہنچا نا یا
ماردینا۔جھوٹے مقدمات بناکر بے گناہوں کو پابند سلاسل کرنا۔رشوت لے کر
عدالتوں سے بے گناہوں کو سزا دینا اور مجرم کو چھوڑ دینا۔قاتلوں کو اسلامی
سزا یعنی قصاص میں قتل نہ کرنا۔ قومی ذمہ داری بغیر رشوت پوری نہ کرنا یعنی
جو قومی خدمت پر مامور تنخواہ دار ملازم ہیں، وہ عوام کا کام رشوت لئے بغیر
نہیں کرتے ۔ جرائم عامہ زنا ، چوری ،ڈاکہ ، فحش کاری ، فحش گانے، شراب خوری
عام ہوجانا۔ نااہل کو حکومت دینا بھی قوم پر ظلم ہے ۔ طاقت کے زور پر دوسرے
کی آزادئی رائے کچل دینا۔ زمیندار ،کارخانہ دار ، سرمایہ دار کا غریبوں کا
خون پینا اور ان کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور پوری مزدوری نہ دینا
بھی ظلم کی نوع میں داخل ہے ۔ تنخواہ پوری لینا اور کام ادھوراکرنابھی ظلم
ہے ۔ سرمایہ داروں کا ذخیرہ اندورزی کرنا ، اور مخلوق کو قحط میں مبتلا
کرکے گراں فروشی کرنا۔ امانت میں خیانت کرنا او رحق والے کو حق نہ دینا ۔بم
دھماکوں خود کش حملوں کے ذریعے معصوم عوام کو مارنا۔قومی محسنوں کو پابند
سلاسل کرنا۔
جب من حیث القوم ان جرائم کا ارتکاب ہوہی رہاہے، اکثریت ان جرائم میں ملوث
ہے، ان جمہوری جرائم کا ارتکاب متقاضی ہے کہ ساری قوم کو عذاب دے کر ختم
کردیاجائے، جیسا کہ قوم عاد، ثمود ،قوم نوح اور آل فرعون ۔لیکن اس میں
رکاوٹ وہ صرف دعائے رحمۃ للعالمین ہے ،کہ اے اﷲ ساری امت کوتباہ نہ کردینا،
جیساکہ پہلی امتیں تباہ کردی گئیں ، اس بناء پر عذاب عامہ کی دواقسام ہوگئی
ایک استیصالی کہ جس سے تمام قوم کو جڑسے اکھیڑ دیاجاتاہے جوپہلی قوموں پر
آیا، عذاب غیر استیصالی جوتنبیہہ کرنے کے لئے کبھی کہیں ،کبھی کہیں آئے گا
کبھی خیبر میں آئے گا، کبھی بلوچستان میں ،کبھی کراچی یعنی سندھ میں آئے گا،
تو کبھی پنجاپ میں آئے گا ،چونکہ یہ امت آخری امت ہے، اس کو اﷲ تعالی نے
قیامت تک رکھناہے، اس لئے اس پر عذاب عامہ استیصالی نہیں آئے گا بلکہ
جھنجھوڑنے کے لئے جزوی طور پر آتارہے گا، تاکہ قوم عبرت حاصل کرکے توبہ
استغفار کی طرف متوجہ ہو ، اب یہ وقت حاکموں کو گولیاں دینے کا نہیں، بلکہ
ہرشخص خود احتسابی کرکے جوظلم کرتاہے اس کوترک کرے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا :
’’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘ ،تم میں سے ہر ایک حکمراں ہے اور ہرایک
سے اپنی رعایا کا سوال کیاجائے گا ،کہ تم اپنی رعایا پر ظلم تو نہیں کرتے
تھے ، اﷲ تعالی ظلم کو معاف نہ فرمائیں گے، اگرچہ کسی جانور پر بھی کیوں نہ
کیاہو،چہ جائیکہ انسان ،انسان پر ظلم کرے ،اب واحد راستہ یہی ہے کہ ان
جرائم سے من حیث القوم توبہ کی جائے ۔
ؑؑورنہ عذابِ الہی کا انتظار کیاجائے، (فکلا اخذنا بذنبہ فمنھم من ارسلنا
علیہ حاصبا، ومنھم من اخذتہ الصیحۃ ومنھم من خسفنا بہ الارض ومنھم من
اغرقنا وماکان اﷲ لیظلمھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون )
ترجمہ : پھر سب کو پکڑا ہم نے اپنے اپنے گناہ پر ، پھر کوئی تھا کہ ہم نے
اس پر بھیجا پتھراؤ ہواسے اور کوئی تھا کہ اس کو پکڑا چنگھاڑنے پھر کوئی
تھا کہ اس کو دھنسادیا ہم نے زمین میں اور کوئی تھا کہ اس کو ڈبودیا ہم نے
اور ایسا نہ تھا کہ اﷲ ان پر ظلم کرتے، پرتھے وہ ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے
والے (سورۃ عنکبوت آیت ۴۰ )۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے : عذاب کبھی اوپر سے آتاہے اور کبھی نیچے سے
آتاہے اور کبھی تمہاری آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں ۔ ’’ حدیث قدسی میں ،اﷲ
تعالی فرماتے ہیں :’’ میں بادشاہ ہوں جس سے چاہتا ہوں بادشاہی لے لیتاہوں
اور جس کو چاہتاہوں بادشاہی دے دیتاہوں جب میں ناراض ہوتاہوں تو ظالم
بادشاہ مسلط کردیتاہوں ، لہذا بادشاہوں کو گالیاں نہ دیا کرو بلکہ مجھ سے
معافی مانگا کرو ‘‘ اس لئے قوم کو چاہئے من حیث القوم اﷲ تعالی سے معافیاں
مانگے ۔ (افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا اھم نائموں او امن اھل
القری ان یاتیھم باسنا ضحی وھم یلعبوں افامنوا مکراﷲ فلایا من مکراﷲ الا
القوم الخاسرون ) ترجمہ : اب کیا بے ڈر ہیں ،بستیوں والے اس سے کہ آن پہنچے
ان پرآفت ہماری راتوں رات جب وہ سوئے ہوں ،یا بے ڈر ہیں بستیوں والے اس سے
کہ آپہنچے ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے، جب کھیلتے ہوں ،کیا بے ڈر ہوگئے اﷲ کی
تدبیر سے پس نہیں بے ڈر ہوئے اﷲ کی تدبیر سے مگر خرابی میں پڑنے والے ۔ (اعراف
آیت ۹۔۸۔۹۷)
عذاب کبھی سونے کے وقت میں آتاہے اور عذاب کبھی عیش وعشرت کے وقت میں بھی
آتاہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ عذاب عامہ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی سے گڑگڑ
اکر معافی مانگی جائے ۔ جن جرائم کو عذاب عامہ کا سبب بتایا گیاہے ان سے
توبہ کی جائے ، ذرائع ابلاغ ، گانے ، ڈرامے ختم کرکے انسانی ہمدردی کا سبق
جو قرآن کریم وحدیث میں آیاہے لین جو اﷲ تعالی او راس کے رسول نے فرمایا ہے
اس کو سناجائے تاکہ دنیا پر واضح ہوکہ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا
علمبردار ہے۔ قوم کا مزاج مغرب کی بجائے اسلام کی طرف موڑاجائے اور اسلامی
اخلاق ،اخبار ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن کے ذریعے نشر کئے جائیں ، جرائم کبیرہ ،چوری
، ڈاکہ،دہشت گردی ، زنا، بددیانتی ، آبرورریزی جیسے جرائم کی برائی نشرکی
جائے ، تمام قوانین سے اسلام کے قانون کی برتری بیان کی جائے ۔
آخری تنبیہ جو اﷲ تعالی نے قرآن پاک میں فرمائی ہے اس کو نشر کیا جائے (الم
یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکراﷲ )کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ لوگوں کے
دل ڈر جائیں اﷲ تعالی کی یاد سے ۔(حدید آیت ۱۶)
سیلاب کی تباہ کاریاں ،زلزلہ کی تباہ کاریاں ابھی قوم کو جھنجھوڑ نہیں رہیں
؟ کہ وہ سیلاب زدگان کو نشہ والا کھانا کھلاکر لوٹیں ، سیلاب سے نکالنے کے
بہانے سامان ٹرالہ پر ڈال کر لے جائیں ، سیلاب کی امدادی رقم میں خیانت
کریں ،مال تھوڑا دیں اور دستخط زیادہ کے لیں ، دیاہوا سامان چھپا کررکھ لیں
اس کے بدلہ میں ردی سامان متاثرین کودیں ۔
کیاابھی خوف کھانے کا وقت نہیں آیا؟ کیا اور کسی آفت کا انتظار ہے ؟
یہ اخلاق تب آئیں گے جبکہ حکمراں اپنے اخلاق بدلیں گے ، : ’’ الناس علی دین
ملوکھم ‘‘ اس لئے حکومت اور رعایا سب کو اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہ
۔
|