طلاق ؛ مرد کے جذباتی پن کا عملی
مظاہرہ یا عورت کی نادانی اور حماقت کا نتیجہ ہے ؟مرد اپنی رفیقہ حیات کو
خود ہمیشہ کے لیے چھوڑدیتا ہے یا عورت ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے جس کا
انجام طلاق ہوتی ہے ؟ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ مرد طلاق دیتا ہے یا
عورت طلاق لیتی ہے ؟
اس کا جواب ہر علاقے ، قوم ، قبیلے ، خاندان اور معاشرے میں مختلف ہو سکتا
ہے دونوں آراء مشاہدات کی روشنی میں درست ہیں لیکن آج موضوع بحث ایک اور
المیہ ہے اور وہ ہے” تین طلاقیں اور لوگوں کے حیلے بہانے ۔“
حدیث پاک میں ہے: ابغض المباحات الی اللہ الطلاق ۔ حلال کردہ چیزوں میں سے
اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ چیز ”طلاق“ ہے ۔
)ابو دائود کتاب الطلاق ج 2 ص؟؟(
طلاق سے صرف زوجین میں ہی جدائی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دو خاندانوں میں خلیج
بڑھ جاتی ہے اگر وٹَّہ سٹَّہ ہوتو تقریباً تقریباً دوسرے گھرانے میں بھی صف
ماتم بچھتی ہے یا دوسرے گھر کی بہو بھی ہمیشہ کے لیے اپنا سکون کھو بیٹھتی
ہے ۔
آج مسلم معاشرے میں ناچاقیاں کیوں پیدا ہوتی ہے؟ساس بہو کے جھگڑے کیوں ہوتے
ہیں؟شادیاں کیوں ناکام ہورہی ہیں ؟ ازدواجی بندھن کچے دھاگے کی مانند کیوں
کمزور ہو رہے ہیں ؟
اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا مرد بے راہ روی کا شکار ہیں؟بے جوڑ رشتے ہیں ؟ حرص
اور ہوس کے بندے دولت اور شہرت کے بت بدل بدل کر پوج رہے ہیں ؟ یا کچھ اور
………قارئین اس کا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہیں ۔
؏ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
20…….18سال تک پال پوس کر والدین اپنی اولاد کے سروں پر سہرا سجاتے ہیں
بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرتے ہیں لاکھوں روپے قرض لے کر خانہ آبادی کے
انتظامات کرتے ہیں تو ان کے گھروں کو بسانے کے لیے کرتے ہیں ۔
لیکن ہوتا کیاہے ؟ چند ماہ نہیں گرزتے بلکہ آج کل تو چند دن اور لمحے نہیں
بیت پاتے نئی نویلی دلہن کے پائوں کا رنگ حنائی نہیں اترتا کہ وہ شوہر کے
دل اور نگاہ دونوں سے اتر جاتی ہے ۔ شوہر کے گھر کی دہلیز اس کے لیے خار
دار تار کی صورت دھار لیتی ہے ۔
ظلم تو یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے مرد حضرات صنف نازک کی اٹھکیلیاں، ناز
خرامی، معصوم شرارتیں،نخرے غمزے سے دل بہلانے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق
اس کے مکمل حقوق کی ادائیگی کی بجائے اس کو ظلم وجور کے شکنجے میں کس دیتے
ہیں ۔آج یہ حالات کس گھرمیں نہیں ؟
اگر ابلاغی سروے سے قطع نظر کر کے ہم خود اپنے اڑوس پڑوس ،گلی محلے اور
علاقے میں دیکھیں تو ذات پات کے چھنبیلے ، خاندانی و قبائلی ظالم قوانین ،
غیر اسلامی تو رہے ایک طرف غیر انسانی بلکہ ننگ انسانیت ایسے خود ساختہ
رواجوں نے عورت سے اس مقام کو چھین لیا ہے جو اسے اسلام نے آج سے سوا چودہ
سو برس قبل عفت وحیا کا پیکر بنا کر دیا تھا۔
بات دوسری طرف نہ چل نکلے ۔
تین طلاق کا مسئلہ دو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔
نمبر 1: تحقیقی اعتبار سے ۔
نمبر2: معاشرتی اعتبارسے ۔
پہلی بات تو بالکل واضح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں شریعت محمدیہ میں تین
ہی واقع ہوتی ہیں ۔چند شرعی دلائل آپ بھی ملاحظہ کرلیں ۔جن کا انکار کرنا
علوم دینیہ سے دوری کا نتیجہ ہے ۔
دلیل نمبر :1 ارشاد باری تعالیٰ ہے : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ
بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔ (البقرہ :229)
(1): امام محمد بن اسما عیل البخا ری (م :256ھ ) تین طلا ق کے وقوع پر اس
آیت سے استدلال کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں ’’با ب من اجاز طلاق الثلاث
[وفی نسخۃ :باب من جوز طلاق الثلا ث ] لقولہ تعا لیٰ : الطَّلَاقُ
مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ .
(2) : امام ابو عبد اللہ محمد ابن احمد الانصا ری القرطبی (م:671ھ) اس آ
یت کی تفسیر کر تے ہوئے فر ماتے ہیں :’’ قال علما ئنا واتفق ائمۃ الفتویٰ
علیٰ لزوم ایقاع الطلا ق الثلا ث فی کلمۃ واحدۃ‘‘ ۔(الجا مع لاحکا م القر
آن للقرطبی :ج:1:ص:692)
دلیل نمبر 2: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ
مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ
بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي
الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ
امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ قَالَ لَا حَتَّى
يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ
(صحیح بخاری ج2ص791 ، صحیح مسلم ج1 ص463)
۲: حا فظ ابن حجر عسقلا نی ؒ (م:852ھ) لکھتے ہیں :’’ فا لتمسک بظا ہرہ
قولہ طلقہا ثلاثاً فا نہ ظا ہر فی کو نہا مجموعۃ ‘‘۔(فتح الباری لا بن حجر
ج9ص:455)
تر جمہ: اس روا یت کے الفا ظ فطلقہا ثلاثاً سے استدلال کیا گیا ہے کیو ں کہ
یہ الفاظ اس پر دلالت کر تے ہیں کہ اس نے تین طلا قیں ایک ساتھ دی تھیں۔
دلیل نمبر3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ
مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ
یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَامَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ
سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُرضی اللہ عنہ کَذَبْتُ
عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنْ
اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ
اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ
دَاؤدَ} قَالَ: فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ
صلی اللہ علیہ و سلم فَاَنْفَذَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
(صحیح البخاری ج۲ص۷۹۱، سنن ابی داوٗد ج۱ص۳۲۴ باب فی اللعان ،صحیح مسلم ج1
:ص:۴۸۸،۴۸۹: کتا ب اللعا ن)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی واقع ہو سکتی ہیں کیونکہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ چنانچہ امام بیہقی
رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ مُحَرَّمًا لَنَهَاهُ عَنْهُ.
وَقَالَ : إِنَّ الطَّلاَقَ وَإِنْ لَزِمَكَ فَأَنْتَ عَاصٍ بِأَنْ
تَجْمَعَ ثَلاَثًا.
(السنن الکبری للبیہقی ج7 ص329 باب الاختیار للزوج ان لا یطلق الا واحدۃ)
دلیل نمبر:4 قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ
النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ
اِمْرَأتَہُ ثَلاَ ثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی
مَاجَائَ بِہٖ حَدِیْثُ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ و سلم ثُمَّ قَالَ :
أَوْاَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً
اِلَّاثَلاَثاً اَنَّھَااُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص۹۲)
امت مسلمہ کے جید فقہا ء کرا م خصوصاً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم اللہ تعا
لیٰ کے نزدیک بھی تین طلا قیں تین ہی شما ر ہو تی ہیں :
1: …………… امام اعظم ابو حنیفہ نعما ن بن ثا بت رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ):
امام محمد بن الحسن الشیبا نی فر ما تے ہیں کہ :’’وبھذا نا خذ وھو قول ابی
حنیفۃ والعا مۃ من فقہائنا لانہ طلقہا ثلاثاً جمیعاً فوقعن علیہا جمیعاً
معاً‘‘۔
(مؤطا امام محمد :ص:۲۶۳، سنن الطحا و ی :ج:۲:ص:۳۴۔۳۵،شرح مسلم :ج:۱:ص:۴۷۸)
۲:۔امام مالک بن انس المدنی ؒ (م ۱۸۹ھ):فر ما تے ہیں :’’فا ن طلقہا فی کل
طہر تطلیقۃ او طلقہا ثلاثاً مجتمعات فی طہر لم یمس فیہ ، فقد لزمہ۔ ‘‘
(التمہید لابن عبد البر :ج:۶:ص:۵۸،المدونۃ الکبریٰ:ج:۲:ص:۲۷۳، شرح مسلم
للنووی : ج:۱:ص:۴۷۸)
۳:۔ امام محمد بن ادریس الشا فعی ؒ (م ۲۰۴ھ): فرماتے ہیں:’’وَالْقُرْآنُ
یَدُلّ _ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ
دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی
تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔‘‘
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی ج۲ص۱۹۳۹)
4:……………امام احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)کے صا حبزادے امام عبد اللہ فرما تے
ہیں:’’قلت لابی رجل طلق ثلا ثاً وھو ینوی وا حد ۃ قال ھی ثلاث۔ ‘‘
(مسائل احمد بروایت ابنہ :ص:۳۷۳،کتا ب الصلوٰۃ :ص:۴۷،شرح مسلم:ج:۱:ص:۴۷۸)
(مسائل احمد بروایت ابنہ :ص:۳۷۳،کتا ب الصلوٰۃ :ص:۴۷،شرح مسلم:ج:۱:ص:۴۷۸)
یاد رکھیں !اس بارے میں سوائے روافض ، قادیانیوں اور منکرین فقہ کے تمام
اہل اسلام کا مشترکہ نظریہ اور موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو
ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو تین ہی واقع ہوجاتی ہیں اب بغیر حلالہ
شرعیہ کے وہ پہلے والے مرد کے پاس نہیں رہ سکتی وہ مرد اس کے لیے اجنبی ہے
۔
جاہل معاشرے کی پیدا وار بعض افراد اس حکم خداوندی کو عورت پر ظلم گردانتے
ہیں جیسا کہ قربانی کے موقع پر بعض ”نرم دل“ لوگ جانور ذبح کرنے کو ظلم سے
تعبیر کرتے ہیں ۔
ایک مسلمان مرد اور عورت کو قادر مطلق اور مختارکل ذات کے بنائے ہوئے
اصولوں اور احکامات میں عقلی دخل اندازی سے گریز کرنا از بس ضروری ہے ۔
ورنہ بعض اوقات ایسے جملے انسان کی زبان سے نکلتے ہیں جن کے بعد وہ دائرہ
اسلام سے خارج ہوجاتا ہے العیاذ باللہ ۔
آج کل عورت کو اکٹھی تین طلاقیں دینے کا رواج دین دار گھرانوں میں بھی چل
نکلا ہے جو کہ انتہائی قابل افسوس امر ہے اس کے بعد کے مراحل اس قدر گھمبیر
ہیں کہ توبہ بھلی ۔ عورت پر الزامات ،اتہامات، بہتانات اس کی کردار کشی اور
معاشرے میں اس کو ذلیل و رسوا کرنے کے غیر مہذبانہ طور طریقے استعمال کیے
جاتے ہیں جو سراسر غیر اسلامی تعلیم کا مظہر ہیں ۔
یہ بھی کسی درجے میں کم گناہ ہے اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہوتا ہے کہ تین طلاق
والی مطلقہ عورت کو چند دنوں بعد واپس اپنے گھر میں لے آتے ہیں نہ تو مرد
کے والدین ، بہن بھائی ، رشتہ دار ، عزیز واقارب اور دوست احباب اس کو
سمجھاتے ہیں اور نہ ہی یہ بدبخت کسی کی سنتا ہے ۔
چلیں یہ تو مرد ہے ۔عورت کی عزت ، آبرو، عفت اور پاکدامنی تو اس کے خمیر
میں شامل ہے اس کی فطرت میں حیا کا عنصر غالب ہے لیکن اس معاملے میں یہ خود
اس کے والدین ، بھائی رشتہ دار اس قدر بے حسی اور بے شرمی کا مظاہرے
کرتےہیں کہ ان کو قلم پر لاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔وہ بھی اپنی بہن بیٹی کو
ایک اجنبی کے ساتھ روانہ کر دیتے ہیں ………یہ تو قہر خداوندی کو دعوت دینے
والی بات ہے ۔
آخر میں چندحیلے بہانوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں :
1. بعض علاقوں میں جب تین طلاق کا مسئلہ پیش آتاہے تو وہاں کے لوگ …..
عموماً دیہی علاقوں میں ………پنچائیت اور جرگہ میں اس کا تصفیہ کرا کر عورت
کو مرد کے ساتھ رہنے کا حکم جاری کر دیتے ہیں ۔
2. بعض مرتبہ طلاق دینے والا مرد اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اس کا تذکرہ کسی
کے سامنے مت کرنا ورنہ بدنامی ہوگی ۔ بس اللہ غفور رحیم ہے ۔ میں توبہ
استغفار کرتا ہوں ۔ اللہ اللہ خیر صلا
3. ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی مسجد کےناسمجھ ملاں سے اپنی مرضی کا فتویٰ بنوا
لیتے ہیں کہ مولوی صاحب بس آپ کہیں سے بھی یہ فتویٰ دے دیں کہ تین طلاق ایک
ہوتی ہے ۔
4. بعض مرتبہ گھر والوں کو جب اس تین طلاق والے معاملے کا علم ہوتا ہے تو
وہ کہتے ہیں کہ مولویوں کا کیا علم ؟ بس ایک طلاق ہوئی ہے ۔ آئندہ مت طلاق
دینا ۔
5. بعض مرتبہ یوں بھی کرتے ہیں کہ عورت یا مرد کسی کے رشتہ دار مکہ مدینہ
طائف ،جدہ حجاز اور سعودیہ میں مقیم ہوتے ہیں ان کو فون کر کے کہتے ہیں کہ
وہاں کے کسی مفتی سے پوچھو کہ تین طلاق دینے سے کتنی ہوتی ہیں ؟ وہ انہیں
پوچھ کر بتاتے ہیں کہ یہاں کے فلاں مفتی صاحب نے کہا ہے کہ تین طلاقیں ایک
ہوتی ہیں ۔
یاد رکھیں کہ شادی بیاہ ، طلاق ، خلع ، فسخ نکاح وغیرہ شریعت محمدیہ کے
روشن احکام ہیں لہٰذا اس بارے میں مستند علماء کرام سے رابطہ کرنا بہت
ضروری ہے ۔ اس حوالے سے جہاں تک وڈیروں پنچائیتی سربراہوں کی بات ہے وہ
قطعاً اس کے حق دار نہیں کہ شرعی فیصلے کو اپنی مرضی اور قانون کے مطابق
بدل کر حکم جاری کریں ۔ ویسے بھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔مخلوق کی بات ماننے میں خالق
کی نا فرمانی مت کرو ۔شرعی فیصلہ انبیاء کرام کے صحیح وارث جو ما انا علیہ
واصحابی کے راستے پر ہوں وہ کریں گے یعنی علماء اہل السنت والجماعت ۔
باقی رہی بات بدنامی کے خوف سے کسی کو نہ بتانا اور یہ خیال کرنا کہ توبہ
استغفار سے یہ گناہ معاف ہوجائے گا۔عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات بدستور
رکھنا جہالت ہے ، یہ سچ ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن یہ بھی سچ
ہے کہ وہ عورت اب اس کے پاس بغیر حلالہ کے نہیں رہ سکتی ۔
جس طرح کسی پنچائیت کے سرابرہ کو اسلامی احکامات میں قطع برید کی اجازت
نہیں اسی طرح جبہ و دستار میں ملبوس کم علم کم عقل بد دین مُلْوانے کو بھی
یہ حق نہیں کہ وہ یہ تین طلاق کو ایک کہتا پھرے ۔تین طلاقیں تین ہی ہوتی
ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا دلائل شرعیہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے ۔
مولویوں کے کم علم ہونے کا تصور اگر تو یہ ہو کہ جو علماء کے بھیس میں ہیں
حقیقتاً عالم نہیں تو درست ہے کیوں کہ ہمارا معاشرہ ہر داڑھی والے کو مولوی
جی کہہ کے پکارتا ہے ہرنابینے کو حافظ صاحب کہتا ہے ۔ اور اگر یہ ہوکہ
دارالافتاء میں جلوہ افروز مفتی صاحب جس کے فتوے پر دلائل شرعیہ کی مہر
ہوتی ہے تو اس کو کم علم کہنا اپنے کم علم ہونے کی دلیل ہے ۔
باقی سعودی عرب والوں کے متعلق جو یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ وہ تین طلاقوں
کو ایک کہتے ہیں سراسر غلط ہے ۔ کیونکہ سعودی عرب والے فقہ حنبلی پر چلنے
والے ہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے سچے مقلد ہیں اور ان کا پبلک لاء
حنبلی فقہ ہے ان کی معتبر ترین کتاب جسےوہاں کا قانون ہونے کا شرف حاصل ہے
وہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب المغنی ہے ۔ اس میں یہ واضح
طور پر لکھا ہوا ہےکہ من طلق البتۃ الزمناہ ثلاثا لا تحل لہ حتی تنکح زوجاً
غیرہ ۔
المغنی ج 10ص 82 کتاب الطلاق
اس لیے سعودی عرب گورنمٹ کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ تین طلاق تین ہی
واقع ہوتی ہیں۔اس کےعلاوہ سعودی عرب کی مجلس کبار علماء کا فیصلہ بھی یہی
ہے جو البحوث الاسلامیہ المجلد الاول العدد الثالث ص 165 پر مرقوم ہےکہ تین
طلاقیں تین ہی واقع ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے خود کو سلفی کہلانے والے ہرگز غلط
بیانی سے کام نہ لیں اور اسلاف کی تعلیمات کے برخلاف فتوے صادر نہ کریں ۔
سعودی حکومت سے بھی بصد احترام التماس ہے کہ ایسے شر انگیزوں ، فتنہ پروروں
اور قانون کے باغیوں پر فرد جرم عائد کر کے ان کو سرکاری سطح پر سزا دی
جائے ۔ تاکہ آئندہ مکہ مدینہ اور حجاز کا نام استعمال کر کے عوام الناس کو
گمراہ نہ کیا جائے اور نہ ہی مسلم گھروں میں زنا کے دروازے نہ کھول سکیں ۔
ضروری گزارش :
ارباب اقتدار اور علمائے حق اہل السنت والجماعت کے سامنے درخواست ہے کہ ایک
ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے جو حکومت کی سرپرستی میں علماء کرام کی نگرانی
میں ہو جہاں بیوگان اور طلاق یافتہ خواتین کے دوسرے نکاح کرانے کا معقول
انتظام ہو، بصورت دیگر ایسی خواتین کو خود کفیل بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ
وہ عوام کے رحم و کرم پر نہ رہیں ۔ ان کی عزت و احترام اور تقدس کا بھر پور
خیال کیا جائے ۔ امید ہے کہ قارئین کی وساطت سے اہل حل وعقد اس گزارش پر
سنجیدگی سے غور فرمائیں گے اور اہل علم اس کے لیے نتیجہ خیز مہم چلائیں گے
۔
|