کراچی: نام اور پہچان


شیکسپئیر نے کہا تھا نام میں کیا رکھا ہے! یہ بات کسی حد تک صحیح ضرور ہے مگر مکمل طور پر نہیں۔ جس طرح انسانوں کے نام ان کے مذہب، ثقافت، وطن اور خاندانی پس منظر کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اسی طرح سڑکوں، محلوں، گلیوں

مقبرہ قائد کراچی
مقبرہ قائد کراچی کی پہچان تو ہے لیکن شہر کا اصل مزاج عجیب و غریب ناموں سے ابھرتا ہے
اور چوراہوں کے نام بھی وہاں رہنے والوں کے سماجی، نظریاتی، تعلیمی اور نفسیاتی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا اور تعلیم یافتہ ترین شہر کراچی کچھ ایسے عجیب و غریب اور بدنما ناموں کا شہر بن چکا ہے جنہیں سننے والا حیران رہ جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسا انتساب متعلقہ شہری ادارہ کر سکتا ہے نہ اس مقام کے رہائشی تو پھر یہ کس کی کارستانی ہے؟ مثلاً یہ کون چاہے گا کہ اس کا علاقہ گیدڑ کالونی، مچھر کالونی، بھینس کالونی، گولی مار، انڈہ موڑ، کریلا موڑ اور ناگن چورنگی جیسے ناموں سے پہچانا جائے۔

کراچی کا کلفٹن
دراصل ان مقامات میں سے زیادہ تر کے نام بسوں اور منی بسوں کے کنڈیکٹروں کی عطا ہیں۔ جسے ان حضرات کی پیشہ وارانہ مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ کراچی میں بسیں اور منی بسیں مقررہ اسٹاپوں کے علاوہ بھی روک لی جاتی ہیں۔ مثلاً چلتی ہوئی بس کے کنڈیکٹر کو جہاں بھی کسی مسافر نے رکنے کا اشارہ کیا وہ وہیں بس کے دروازے پر ’دھپ‘ سے ہاتھ مار کر ’روکو استاد‘ کی صدا لگا دے گا اور یہ آواز سنتے ہی استاد یعنی ڈرائیور کا پاؤں آناً فاناً بریک پر جالگے گا۔

یہ غیر مقررہ اسٹاپ وقت کے ساتھ ساتھ باقاعدہ سٹاپ بن جاتے ہیں اور اب اس نومولود سٹاپ کا نام رکھنا بھی ان کنڈیکٹر صاحب کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ لہذا وہ اس اسٹاپ کے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں اور جو بھی قابل ذکر شے انہیں بھا جائے، اس سے سٹاپ کو منسوب کردیتے ہیں۔

کراچی کی اہم تاریخی عمارت
یہی کہانی نارتھ کراچی کے انڈہ موڑ کی ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ اس موڑ پر ایک بیضوی شکل کا چوک تھا، لہذا کنڈیکٹروں نے اس چوک کو انڈہ موڑ کا نام دے دیا ہے اور اب یہ نام اس موڑ کے ارد گرد واقع مختصر علاقے کی شناخت بن چکا ہے۔ جس دوسرے مقام کا تذکرہ ہونا چاہئے اس کا تعلق بھی نارتھ کراچی سے ہے۔ دراصل یہ علاقہ شہر کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً نیا ہے جو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے والی آبادیوں کے ساتھ وقفہ وقفہ سے آباد ہوا۔

اس علاقہ میں تقریباً ہر آبادی کے بعد غیر آباد زمین تھی جہاں کہیں موڑ تھے اور کہیں چوراہے۔ یہ موڑ اور چوراہے پہلے بس اسٹاپ بنے اور پھر کنڈیکٹروں کی کرم فرمائی کی وجہ سے نت نئے ناموں سے موسوم ہوتے چلے گئے۔

ان میں سے ایک بیگار کیمپ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مختلف بسوں اور منی بسوں کا اڈا ہونے کی وجہ سے ڈرائیور اور کلینر اردگرد کے مختلف ہوٹلوں پر بیٹھے رہتے تھے۔ بے کار بیٹھنے کی وجہ سے اسے بے کار کیمپ کا نام دے دیا گیا جو بعد میں بےگار کیمپ ہوگیا۔

نارتھ کراچی کی ہی دو منٹ چورنگی اپنے نام کی انفرادیت کی وجہ سے سارے شہر میں مشہور ہے۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید یہاں بسیں دو دو منٹ کے لئے رکتی ہیں۔

تاہم ایسا نہیں ہے، اس چوک کا نام دو منٹ چورنگی اس لئے پڑا کہ تقریباً تیس سال قبل یہاں سرکاری بسوں کا ڈپو تھا جہاں سے ہر دو منٹ بعد ایک بس چلتی تھی۔اسی کو کنڈیکٹروں نے اس چورنگی کی وجہ تسمیہ بنادیا۔

لسبیلہ کے پاس واقع خاموش کالونی کے مکین اتنا ہی بولتے ہیں جتنا شہر کے دوسرے علاقوں کے باسی، ہاں عرصہ قبل یہاں چھوٹی سی آبادی ہونے کی وجہ سے زندگی کی گہما گہمی ناپید تھی۔ لہذا کنڈیکٹروں کی لغت میں یہ بستی خاموش کالونی قرار پائی۔

ملیر کے علاقہ کھوکراپار کا بھوت بنگلہ اسٹاپ نام کے لحاظ سے کتنا ہی پراسرار اور خوفناک سہی مگر درحقیقت یہاں کوئی جن بھوت نہیں، ہر طرف انسان ہی انسان پائے جاتے ہیں۔

بات بس اتنی سی ہے کہ جب یہ علاقہ نیا نیا تعمیر ہونا شروع ہوا تو یہاں ایک پولیس افسر نے اپنا وسیع مکان تعمیر کرایا جو کافی عرصہ خالی پڑا رہا اور کنڈیکٹر حضرات نے حسبِ عادت اس اسٹاپ کو بے رونق بنگلہ کی مناسبت سے بھوت بنگلہ اسٹاپ کا نام دے دیا۔

حقِ انتساب کا یہ معاملہ کنڈیکٹروں تک ہی محدود نہیں بلکہ دوسرے پیشہ کے لوگوں نے بھی اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے ’نام سازی‘ کی، مثلاً شہر کی مشہور و معروف ناگن چورنگی آج جس جگہ پر ہے وہاں کبھی کچا راستہ تھا جہاں سے ٹرک ریتی، بجری لینے کے لئے کراچی کے ایک سرے گڈاپ تک جاتے تھے۔ تیز رفتار ٹرک سڑک پر راہ گیروں کو دیکھ کر بھی بریک لگانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے، چنانچہ ہر دوسرے، تیسرے روز ایکسیڈنٹ سے کوئی نہ کوئی راہ گیر ہلاک ہوجاتا تھا۔

اب اخبارات کے کرائم رپوٹرز کو جنہیں ان ہلاکتوں کی خبریں بنانا ہوتی تھیں یہ مسئلہ درپیش رہا کہ جائے حادثہ کو کیا نام دیا جائے اور کسی شاعرانہ مزاج کے حامل اخبار نویس نے اس مقام کو ناگن سے موسوم کیا۔ یعنی یہ مقام اس ناگن کی طرح ہے جو انسانوں کو مسلسل ڈستی رہتی ہے۔

بد نما ناموں کے اس سلسلہ میں چڑ کو امر کردینے کی ایک مثال نارتھ کراچی کا کریلا موڑ ہے۔ اس مقام پر ایک سبزی فروش اپنا ٹھیلا لےکر کھڑا ہوتا تھا جسے لوگ کریلا کہہ کر چھیڑتے تھے۔ اس سبزی فروش کے انتقال کے بعد اس جگہ کو اسی سبزی فروش سے منسوب کردیا گیا اور یہ کریلا اسٹاپ موڑ ہوگیا۔

کراچی میں کچی آبادیاں کسی نام کے بغیر بستی چلی گئیں۔ جنہیں بعد ازاں اس جگہ کی کسی قابلِ ذکر شے کی بنا پر کوئی نام ملا۔ مثلاً شہر کے مختلف علاقوں میں مچھر کالونی کے نام سے چار آبادیاں ہیں، یہ نام انہیں مچھروں کی بہتات کی وجہ سے ملا۔

لانڈھی کی گیدڑ کالونی کا سرکاری نام اگرچہ نیو مظفرآباد ہے مگر آج بھی اسے برسوں قبل ملنے والے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک زمانہ میں اس علاقے میں گیدڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ جن کی آوازوں سے یہ علاقہ گونجتا تھا، یوں اس کا نام گیدڑ کالونی پڑگیا۔

لانڈھی ہی کی بھینس کالونی کو اسمِ بامسمی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ دودھ کا کاروبار کرنے والوں کی بستی ہے جہاں ہر طرف بھینسوں کے باڑے نظر آتے ہیں۔ بھینسوں کی بھیں بھیں اور فضا میں بسی بھوسے اور گوبر کی بو سونگھنے کے بعد کوئی بھی شخص اس آبادی کو بھینس کالونی کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتا۔

پاک کالونی کے قریب واقع علاقہ گولی مار بھی اپنے نام کے حوالے سے کچھ کم حیرت انگیز نہیں۔ شہر میں اس نام سے دو علاقے تھے، ایک پرانا گولی مار اور دوسرا صرف گولی مار، پرانا گولی مار شہر کے قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔

یہ علاقہ انگریزوں کے دورِ حکومت میں فوج کی چاند ماری کے لئے مختص تھا، جہاں فوجی نشانے بازی کی مشق کرتے تھے۔ انہی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے یہ علاقہ گولی مار بن گیا۔ پرانے گولی مار کے پہلو میں اورنگی ندی کی دوسری طرف ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بستی بسائی جو گولی مار ہی کے نام سے مشہور ہوئی۔

بعد ازاں اس گولی مار کو مقامی افراد نے جو پرانے گولی مار کی آبادی کی بہ نسبت زیادہ پڑھے لکھے تھے، گلبہار کا نام دے دیا۔ تاہم پرانے لوگ اسے اب بھی گولی مار ہی کہتے ہیں۔

بدنما ناموں کے سلسلہ کے ساتھ یہاں ایسا بھی ہے کہ کسی خوشنما نام کے پیچھے بد نما منظر چھپا ہوا ہے۔ مثلاً گذری ہی کو لے لیجئے۔ شہر کے متمول ترین علاقہ ڈیفنس سوسائٹی کے پاس واقع اس علاقہ کا نام بظاہر بھلا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔

یہ لفظ بلوچی زبان کے دو الفاظ ’گذ‘ اور ’ری‘ سے مل کر بنا ہے۔ گذ کا مطلب ہے کیکر اور ری کا مطلب رفع حاجت کو کہتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں کیکر کے بے شمار درخت تھے جہاں ارد گرد کے دیہاتوں کے باشندے رواج کے مطابق رفع حاجت کے لئے آیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ علاقہ گذری بن گیا۔

بعض علاقوں کے ناموں سے علاقہ کے باسیوں کی زبان دانی اور نفاست کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً ناظم آباد کی بستی پاپوش نگر جہاں جوتے بنانے کا کاروبار ہوتا تھا۔ شہر میں نام رکھنے کے مجموعی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس علاقہ کا نام جوتا کالونی ہونا قطعاً بعد از قیاس نہ تھا مگر باذوق اہلِ محلہ نے اسے پاپوش نگر کا نام دیا۔ واضح رہے کہ پاپوش فارسی زبان میں جوتے کو کہتے ہیں۔

نام رکھنے میں بعض اوقات شہریوں کی حسِ مزاح کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ مثلاً آپ کو شہر کے مختلف علاقوں میں گلی محلوں کے بے نام چوراہوں یا چوراہا نما جگہوں پر واقع کسی دیوار پر کوئلہ سے ’پرفیوم چوک‘ لکھا نظر آئے گا۔ یہ تمام کے تمام وہ چوک ہیں جہاں کوڑے کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں اور فضا متعفن رہتی ہے۔

بدنما ناموں والے علاقوں اور مقامات کے باسیوں سے جب ہم نے پوچھا کہ ’ آپ کو ایسے ناموں سے منسوب ہونا کیسا لگتا ہے‘ تو ان سب کا کہنا تھا کہ ہم ان ناموں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر یہ کسی چڑ کی طرح ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور ہزار کوشش کے باوجود جان نہیں چھوڑتے۔

بعض علاقوں نے کوشش کرکے ایسے ناموں سے نجات حاصل کرلی۔ اس سلسلہ میں تو لگی لین لیاری کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے۔ تولگ بلوچی زبان میں گیدڑ کو کہتے ہیں۔ اس علاقے کے ارد گرد ایک زمانہ میں بے پناہ گیدڑ تھے، جس کی وجہ سے یہ آبادی تولگی لین کے نام سے مشہور ہوگئی۔

بعد میں علاقہ کے باشندوں نے جب اپنی بستی کا نام بدلنے کا سوچا تو انہیں تولگ کے قریب ترین لفظ تغلق نظر آیا اور پھر یہ بستی تغلق آباد ہوگئی ورنہ ہندوستان کے تغلق بادشاہوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح گولی مار کے رہائشیوں نے اپنے علاقہ کا نام گولیمار کے قافیہ پر گل بہار رکھ لیا۔

گلبہار، تغلق آباد اور پاپوش نگر کی مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ کراچی کے شہری نام کے معاملے میں بدذوق نہیں البتہ جو لوگ اب تک مچھر کالونی، پرانا گولی مار اور کریلا موڑ کا نام نہیں بدل سکے وہ یا تو ان ناموں کی شہرت سے ہار چکے ہیں یا ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔

M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 29344 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.