سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کا ایک اہم
شہر ہے جو دریائے چناب کے قریب اور لائن آف کنٹرول پر واقع ہے۔ 30 لاکھ
آبادی والا یہ شہر لاہور سے 125 کلومیٹر دور ہے جبکہ جموں سے صرف 32
کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ پاکستان کا ایک اہم صنعتی شہر ہے جو کہ کافی
مقدار میں برآمدی اشیا جیسا کہ سرجیکل، کھیلوں کا سامان، چمڑے کی مصنوعات
اور کپڑا پیدا کرتا ہے۔ سیالکوٹ کی برآمدات 1,000 ملین امریکی ڈالر سے
تجاوز کر چکی ہیں۔ سیالکوٹ کو شہر اقبال بھی کہا جاتا ہے، یہاں کی مشہور
جگہوں میں حضرت امام علی الحق کا مزار،گرو نانک کا مزار،راجہ تیج سنگھ کا
مندر،سیالکوٹ قلعہ کی باقیات،پورن کا کنواں ، اقبال منزل،سیرت سٹڈی
سنٹر،مرے کالج و دیگر شامل ہیں۔ شہر کے مشہور پارکس میں خیابان اقبال
پارک،گلشن اقبال پارک اور گیرژ ن پارک شامل ہیں۔سیالکوٹ کی دیگر مشہور
جگہوں میں تالاب مولا بخش، چوک علامہ اقبال اور رام تالائی ہیں۔تالاب مولا
بخش وہ جگہ ہے جہاں مئی 1944 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سیالکوٹ کنونشن
ہوا تھا۔ 1998ء میں اس کی آبادی کا تخمینہ 27,23,481 تھا۔ ضلع سیالکوٹ میں
عمومی طور پر دو زبانیں پنجابی اور اردو بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 3016
مربع کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 265 میٹر (869.42 فٹ) ہے۔اسے
انتظامی طور پر چار تحصیلوں پسرور،ڈسکہ ،سیالکوٹ ،سمبڑیال میں تقسیم کیا
گیا ہے۔ 2007 ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہاں 30 فیصد جٹ،13
فیصدآرائیں،14 فیصدراجپوت،25 فیصدگجرااور 5 فیصددوسری برادریاں شامل
ہیں۔سیالکوٹ ایئرپورٹ کا رن وے پاکستان کا سب سے بڑا رن وے ہے جس کی لمبائی
تین عشاریہ چھ کلومیٹر ہے اور اس پر دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ائیربس تین سو
اسی بھی لینڈ کرسکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ پر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے لاگت آئی
ہے۔ نجی شعبہ کی طرف سے تعمیر ہونیوالے مذکورہ ایئرپورٹ پر بیک وقت بوئنگ
747 ایئرکرافٹ اور 4 بڑے ایئرکرافٹس کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ سیالکوٹ سے
بین الاقوامی پروازوں کا آغاز ۱5 فروری 2008 کو ہوا۔ تعارف کچھ زیادہ ہی
لمبا ہو گیا ہے ۔
1947میں تقسیم کے دوران جب فسادات کا سلسلہ شروع ہوا تو جموں سیالکوٹ روڈ
پر بھارت کی جانب سے لگائے گئے نام نہاد مہاجر کیمپ میں باقائدہ منصوبہ
بندی کے تحت جموں کشمیر سے آنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو بے دردی
سے قتل کیا گیا۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا۔ قیام پاکستان سے لے کر
سیالکوٹ کے عوام خصوصاً سرحد کے قریب رہنے والے پاک بھارت جنگوں میں دوبار
اپنے گھر بار لٹا چکے ہیں ۔ یہ لوگ دونوں جنگوں میں ازلی دشمن بھارت کے
خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑتے بھی رہے ہیں۔سیالکوٹ میں ہی چونڈہ کے مقام
پر 600بھارتی ٹینکوں کے حملے کو روکا گیا جو پاکستانی دیہاتوں کو ملیا میٹ
کرتے آرہے تھے۔دراصل بھارت نے کشمیر، رن کچھ اور لاہور کے محاذوں پر شکست
کے بعد سیالکوٹ پر 600ٹینکوں کا حملہ کردیا۔ 1965میں ہوئی چونڈہ کی جنگ
عالمی جنگ عظیم دوئم میں کارسک وار کے بعدٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی۔
بھارتی فوج گوجرانوالہ پر قبضہ کرکے جرنیلی سڑک اور ریلوے لائن منقطع کرکے
لاہور راولپنڈی رابطہ ختم کرنا چاہتی تھی۔ بھارتی فوج کے حملے کو روکنے کے
لیے چونڈہ کے محاذ پر پاک فوج کے ایک شیر دل اور بہادر جنرل، جنرل ٹکا خان
کو لایا گیا ۔ جنرل ٹکا خان نے فوج کے جوانوں کو جمع کرکے ان میں سے ایسے
سپوتوں کو الگ کیا گیا جو والدین کی اکلوتی اولاد تھے ، جو فوجی جوان شادی
شدہ تھے اور ان کی اولاد نہیں تھی ان کو بھی الگ کرکے ایک طرف کر دیا گیا۔
باقی فوجی جوانوں سے جنرل ٹکا خان نے وطن کی محبت اور حفاظت پر ایسا ولولہ
انگیز خطاب کیا کہ ہزاروں جوان پاکستان کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو قربان
کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ایک انتہائی موئثر حکمت عملی اپنائی گئی۔بھارتی
ٹینک توپوں سے لیس اور ہر ٹینک پر 6بھارتی فوجی سوار تھے۔ پاک فوج کے جوان
اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ جاتے جس سے بھارت کا اسلحہ
سمیت ایک ٹینک اور 6فوجی جہنم واصل ہو جاتے۔ اس طرح پاک فوج کے ایک جوان کی
شہادت کے بدلے بھارت کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑ رہاتھا۔ بھارتی فوج کی
پیشقدمی کو پاک فوج نے روک کر اس کے دانت کھٹے کر دیے۔ سب سے زیادہ گھمسان
کی جنگ چونڈہ سے شمال مغرب کی جانب واقع موضع الہڑ میں ہوئی جس کے قریب سے
ریلوے لائن گزرتی ہے۔اس پر بھارتی فوج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ ہمارے جوانوں
نے قربانی کی وہ داستان مرتب کی جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ آج ان
کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے ۔ پسرور سے چونڈہ اور وہاں سے براستہ
چوبارہ چاروہ ( ایک سرحدی گاؤں جہاں جولائی کے مہینے میں پیر چمبل شاہ کا
عرس منعقد ہوتا ہے جس میں پاکستان بھر سے لوگ شرکت کرتے ہیں ، پیر صاحب کا
مزار سرحد کے اس پار واقع ہے ۔)کی طرف سفر کریں تو سڑک کی دونوں طرف شہداء
کی قبریں آج بھی 48سال پہلے لڑی گئی جنگ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ ان قبروں
میں وہ شہداء دفن ہیں جن کے خون سے پاکستان کی حفاظت کی گئی۔آج قوم کو ان
پر فخر ہے اور ان کو سلام پیش کرتی ہے۔
|