رہ گزر’’وقت‘‘ہے اِنساں کی تو، محشر منزل……!!


ہم روز یہ منظر دیکھتے ہیں کہ ایک طے شدہ زاویہ پر سورج ہر روز اپنے مقررہ وقت پر مشرق سے طلوع ہوتا ہے اوروقت کی اپنی طے شدہ منزلیں طے کرتا ہوا،اپنے مقررہ زاویہ پر مغرب کی سمت غروب ہوجاتا ہے۔ اِن ہی دو واقعات کے درمیانی وقفہ کو ہم نے’’ دن‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اِسی طرح سورج کے غروب کے لمحے سے لے کر اِس کے اگلے دن طلوع کے لمحے تک کے وقفے کو ہم’’ رات‘‘کا نام دیتے ہیں۔اِس طرح ’’دن اور رات‘‘ کے ان دو حصوں کے مجموعہ کو ہم’’ ایک دن‘‘ شمار کرتے ہیں۔پھر یہ کہ دن چاہے چھوٹا ہو کہ بڑا یا رات چاہے چھوٹی ہو کہ بڑی ، یہ ’’ایک دن‘‘چوبیس گھنٹوں ہی پر مشتمل ہوتا ہے،نہ اِس سے کم نہ اِس سے زیادہ۔ لیکن ایک ’’دن‘‘ایسا بھی ہونے والا ہے کہ جس کی طوالت چوبیس گھنٹوں کی نہیں، بلکہ ہمارے ایک ہزارسال کے برابر ہوگی۔ گو کہ یہ بات لوگوں کوبڑی عجیب سی لگتی ہے ، لیکن وقت کے خالق نے ہی ہم پر یہ حقیقت آشکارہ کی ہے۔سورۂ سجدہ ۳۲ کی آیت ۵ میں اِرشاد فرمایا: ’’وہی اﷲ ہے جوجملہامور کو سیٹ کرکے آسمان سے زمین کی طرف اتارتا ہے جو اﷲ کی طرف عروج پاتے ہیں ایک دن میں،جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کے برابرہوتی ہے۔ ‘‘۔جہاں تک ’’زمینی دن اور رات‘‘ کی بات ہے،تو یہ سورج کے اطراف زمین کی گردش سے وجود میں آتے ہیں۔ اِس واقعہ کا تذکرہ رب کائنات نے اپنے کلام میں سورۂ انبیاء۲۱ کی آیت ۳۳ میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:’’ اور وہی ایک اﷲ ہے، جس نے رات اور دن کی تخلیق کی اور سورج اور چاندکی(تخلیق کی)۔ہر کوئی اپنے اپنے مدار میں، تسلسل کے ساتھ بلا چوں چراں اﷲ کے احکامات پر عمل کئے جارہا ہے۔‘‘(۳۳)۔

اِن آیات میں وقت کا جو تصو ّر اُبھرتا ہے،وہی آج ہمارے مضمون کا موضوع ہے۔دراصل’’ وقت‘‘ اپنے آپ میں کوئی ایسی شئے نہیں کہ جسے قطعی یا مستقل کہا جاسکے ۔ اِنسانوں کی آنکھوں کے سامنے رونما ہونے والے بس دو واقعات ہیں جن کا درمیانی وقفہ’’ وقت یاTime‘‘ کا تصور پیدا کرتا ہے۔ اِنسانی دماغ میں جمع شدہ واقعات کے ذخیروں اور اِن کے مابین تناسب سے وقت کے تصور کا ادراک یا کیفیتِ وقت کواپنے اندرون سے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن الفاظ میں اِس کی ماہیت کا اِظہار اِنسان کے بس کی بات نہیں۔اِس لئے کہ وقت مادی اعتبار سے کوئی ایسی قطعی شئے ہے ہی نہیں جس کو دیکھا یا پرکھا جا سکے۔ یہ تو سراسر ادراک سے متعلق ایک تصور ہے، جسے صرف اپنی چھٹی حس سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جس طرح مختلف رنگوں کے درمیان تمیزکرنے یا قوت ذائقہ کے ذریعہ کسی شے کا ذائقہ معلوم کرنے ، یا قوت شامہ یا خوشبو یا بدبوکے مابین تمیزکرنے کامعاملہ ہوتا ہے،اُسی طرح وقت بھی واقعات اور دیگر عوامل کے ساتھ اِن کے ممکنہ تعلق و تناسب سے ادراک کی جانے والی حقیقت ہے۔

بیسویں صدی میں آئینس ٹائن کے ذریعے پیش کیے گیے’’عمومی نظریۂ اِضافیت ‘‘یا General Theory of Relativityکے مطابق’’وقت کی اپنی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہوتی، بجز اِس کے کہ واقعات کی ترتیب کے اعتبار سے ہم اِسے صرف محسوس کرسکیں۔‘‘چونکہ وقت ایک طرح کا احساس ہے،اس لئے اِس کا کامل فہم محسوس کرنے والے کے ادراک پر منحصر ہوتا ہے۔یعنی …… واقعات اور دیگر عوامل ……کے درمیان ایک نسبت یا Relativity ہی کے ذریعے وقت کا تصورممکن ہے۔ اِس طرح کیRelativity……’’حوالوں کے مختلف چوکھٹوں ہی میں ممکن ہو سکے گی۔ اِس کا حقیقی تصورآئندہ سطور میں رفتہ رفتہ واضح ہوتا چلا جائے گا۔

انسانی جسم میں کوئی قدرتی گھڑی ایسی نہیں ہے،جس کے ذریعے ’’وقت‘‘ کوحتمی اور قطعیت کے ساتھ ناپا جا سکے۔ چنانچہ ، فہم کی قوت سے ہی وقت کے گذرنے کو سمجھا جاسکتا ہے۔جو گھڑیاں ہماری دیواروں پر سجی ہیں، یا ہماری کلائیوں پر بندھی ہوئی ہیں یا ہمارے موبائل کے ڈیجٹل اسکرین پر دکھائی دیتی ہیں وہ’’ وقت‘‘ کی تعریف متعین کرنے میں ہماری معاونت سے قاصر ہیں، بلکہ یہ تو صرف وقت کے گزرنے کے واقعہ سے ہمیں باخبررکھنے کا کام کرتی ہیں۔جس طرح گلاب کی سرخی،آنکھوں میں بصیرت کے بغیربے معنی ہے۔ جس طرح خوشبو،قوت شامہ کی موجودگی کے بغیر کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ،اسی طرح ’’وقت‘‘ بھی ،کسی واقعہ کے ظہور کے بنا بے معنی ہے۔ آئنسٹائین کے’’عمومی نظریۂ اِضافیت‘‘Theory of General Relativity کے مطابق،وقت کی رفتار کا تصور بدلتا رہتا ہے۔ ’’وقت کی رفتار کی تبدیلی‘‘ کا اِنحصار کسی ’’مادی شئے یاObjectکی رفتار‘‘ پر اور کسی میدانِ کششِ ثقل میں اُس کے محلPositionپر ہوتا ہے۔جیسے جیسے Objectکی رفتار بڑھتی جائے گی،ویسے ویسے وقت کی رفتار کم ہوتی جائے گی اور اور یہ گھٹنے یا سکڑنے لگے گی ۔ انگریزی کے یہ الفاظ اِس حقیقت کے مزید فہم کے لیے زیادہ واضح ہیں:
"Speed of time changes, depending on the speed of the object, and its position in the gravitational field. As speed increases, time is shortened and compressed, and it slows down."

آئنس ٹائن نے خود ایک مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے:’’فرض کیجئے ،دو جڑواں بچے ہیں اوراگر اِن میں سے ایک کوزمین پر رکھاجائے اور دوسرے کو خلاء میں،روشنی کی رفتاریعنی3 x 108 (تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ) کی رفتار سے بھیجا جائے توخلاء سے جب اس کی واپسی روشنی ہی کی رفتار سے ہوگی تووہ زمین پر رہنے والے اپنے جڑواں بھائی کو عمر میں اپنے سے زیادہ عمر والاپائے گا۔ کیونکہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے خلا باز بچے کے لئے وقت کی رفتارانتہائی کم ہوچکی ہوگی اور اس پر عمر کے بڑھنے کا اثر Ageing Effect بہت کم ہوگیا ہوگا۔اِسی طرح ایک دوسری مثال کے ذریعہ Einstienنے یوں بھی سمجھایا تھا کہ اگرستائیس سالہ والد اور اس کے تین سالہ بچے کے ساتھ یہی تجربہ دہرایاجائے یعنی خلاء میں والد کو بھیجا جائے اور وہ تیس سال گذارنے کے بعدوہ جب زمین پر واپس آجائے،تو بچے کی عمرتینتیس سال اور والد کی عمرتیس سال ہی ہوگیـ:(ملاحظہ ہوRef. Paul Strathern, The Big Idea, Einstein and relativity, Arrow Books,1997,P.57)۔

رفتارکے ساتھ وقت کی یہ مناسبت،گھڑی کے دھیمی چلنے یا تیز ہوجانے پر منحصر نہیں ہوتی،بلکہ مادّے کی پوزیشن سے یا Frame of Referenceمیں اُس کی رفتارکےOperation Periodپر منحصر ہوتی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت صرفRelative Perception یا’’واقعات اور مادے کی رفتار میں نسبتوں کے ذریعے ادراک شدہ ایک احساس ‘‘ہے۔چودہ سوسال قبل ،اس Relativity کو رب تعالیٰ نے اپنی الکتاب میں بیان فرمادیاتھااور انسانیت کو راغب کیا تھا کہ اپنی عقل و دانش کو کام میں لائے، گرد و پیش کی چیزوں پر غور کرے، اپنے رزق کی فراہمی کے نظام پر توجہ کرے، زمین کی پیداوار پر، بارش کے نظام ، سورج اور چاند کی رفتار، دن اور رات کی گردش ،اپنے سر پر ایستادہ نیلگوں آسمان پر غور کرے توہر جگہ اسےRelativityکی وضاحت کرنے والی اپنے رب کی بے شمار نشانیاں بکھری دکھائی دیں گی۔ رب تعالیٰ نے اسے فہم اور عقلِ سلیم کی جو نعمت عطا فرما ئی ہے،اس کا استعمال اس کی اپنی دنیاوی واُخروی فلاح کا ضامن بن جائے گا ۔سورۂ آل عمران۳ کی آیت ۱۹۰ میں فرمایا:’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اوررات اور دن کے ایک تسلسل کے ساتھ آگے پیچھے آتے رہنے میں،کئی طرح کی عبرت دلانے والی نشانیاں،Pinching Evidences ہیں اپنی عقل کا Optimumاستعمال کرنے والوں کے لئے۔‘‘

کیا ہم رب تعالےٰ کی بخشی ہوئیں عقلِ سلیم اور فہم و ادراک جیسی نعمتوں کو استعمال میں نہیں لائیں گے، جو ہمہ تن مستعد ہیں ، ہمیں اپنے خالق سے متعارف کرانے کے لیے……؟زندگی اور موت،سزا و جزا کی Relativitiesکی جو بے شمار تفصیلات ہمارے خالق کی آخری الکتاب میں درج ہیں کیا ہم اِن کی جستجو کو کبھی لپکیں گے بھی ……؟کیوں کہ یہیں ہمیں اپنے انجام بد یا انجام ِ خیر کی Relativitiesسے واقفیت ممکن ہے؟جہاں ہم سائنسی حقائق کی دریافت کر پائیں گے اور یہ جستجو ہمیں اِنسانیت کی حقیقی خدمت گزاری کے قابل بنا سکے گی۔ہمارے وجودکو اِنسانیت کے لیے نفع بخش بنانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم کتاب اﷲ سے قریب تر ہو جائیں،اور جب ہم اِس کی برکات سے مستفیض ہونے لگیں گے تو ہمارے رب کے کلام کو دنیا کے دوسرے انسانوں تک پہنچانے کے قابل بھی بن جائیں گے۔

چونکہ وقتRelatively سے طے ہونے والی چیز ہے۔ اِ س لیے اس کی مختلف مادی اشیاء کی رفتاروں کی Relativities کے ساتھ ہی اِس کا ادراک و احساس ممکن ہو سکے گا۔اس بارے میں ہمارے رب کی الکتاب میں مزید ہمیں معلومات ملتی ہیں:سورۂ مومنون(۲۳) میں ’’ (اور قیامت کے دن رب تعالیٰ انسانوں سے )پوچھیں گے،کہ برسوں کی گنتی کے مطابق،تم زمین میں کتنی مدت تک قیام پذیر رہے؟انسانیت جواب دے گی کہ ہم (شاید) ایک دن ،یا دن کا کچھ حصہ رہے ہونگے۔ پوچھ لیجئے گنتی کرنے والوں سے۔رب تعالیٰ فرمائیں گے،واقعتا تم اس دنیا میں بہت تھوڑی مدت رہے،کاش تمہیں اس کا علم ہوتا۔ ‘‘(۱۱۲تا۱۱۴)۔

Frame of Referenceکے بدل جانے کے سبب بروزِمحشر ہر انسان کو یہ احساس ہوجائے گا کہ وہ زمین پر بہت ہی مختصر وقفہ کے لئے رہ پایاہے……چند گھنٹے یا صرف دن کا ایک حصہ،یا ایک دوپہر……اسلئے کہ ساعتِ قیامت کے ساتھ یہ زمین ،یہ آسمان،یہ سورج،یہ چاند،غرض کہ اِس سارے نظامِ کائنات کی بساط کو بس ایک ہی جھٹکے میں لپیٹ دیا گیا ہو گااور پھر اسے رب تعالیٰ اپنی منشاء و مرضی کے مطابق دوبارہ ایک جدید شکل دے کر ایک نیےFrame of Reference کے ساتھ ’کن‘ کے ایک ہی لفظ کی صدا کے ساتھ پیدا فرما چکا ہوگا۔سورۂ اِبراہیم(۱۴):’’جس دن زمین بدل کر رکھ دی جائے گی ،ایک دوسرے ہی انداز کی زمین سے اور آسمان بھی، اور ساری انسانیت اﷲ واحد القھار کے سامنے ظاہر Exposeہوجائے گی۔‘‘(۴۸)۔وہFrame of Referenceہی رب تعالیٰ بدل کر رکھ دیں گے یعنی اِنسان کا محل وقوع ہی بدل جائے گا ،جہاں خود اُس کی اپنی زمینی عمر کے ساٹھ ستر سال بھی کم سے کم ایک دن کا کچھ حصہّ یا زیادہ سے زیادہ ایک دن نظر آئیں گے۔جس نظریۂ اِضافیت کو وہ آج سمجھ نہیں پا رہا ہے وہ وہا ں ایک لمحے میں سمجھ جائے گا۔ظاہر ہے کہ حشر میں ایک مختلف محل میں وہ کھڑا ہوا ہوگا۔ وقت کے گزرنے کی رفتارزمینی زندگی کے وقت کی رفتار سے یکسر مختلف ہوگی۔ اسی کا تذکرہ رب تعالیٰ فرما رہے ہیں اپنی الکتاب کی سورۂ حج(۲۲) میں :’’اور یہ قیامت کے دن کے حساب سے بے پرواہ لوگ جلدی مچاتے ہیں عذاب کی۔حالانکہ اﷲ ہر گز خلاف نہیں کرتا اپنے وعدے کے۔ بیشک تمہارے رب کے پاس ایک دن کی گنتی ہے،جیسے تم ایک ہزار سال گنتے ہو۔‘‘(۴۷)۔

ظاہر ہے، ہماری دن اور رات کی گنتی کا تمام تر دارومدار زمین کے سورج کے گرد گھومنے اورزمین کے خود اپنے ہی محور پر گردش کرنے پر ہے۔ مثلاً،اگرہم زمین سے فضا میں چلے جائیں،تو زمین اور اسکی گردش کے ماحول سے جدا ہو جائیں گے،چوبیس گھنٹوں کے یہ دن اور رات کا سلسلہ ہمارے لیے بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔اِس حقیقت کو مزیدواضح طور پر سمجھنے کے لیے ایک اور مثال کافی ہوگی۔مثلاً ، زمین اور اس کے مدار میں ہی رہتے ہوئے اس کا تجربہ کیا جاسکتا ہے ،کہ اگر ہم گردشِ زمین کی رفتار کے برابر رفتار رکھنے والا ایک ہوائی جہاز لے کرمشرق سے مغرب کی طرف پرواز کریں تو ،ہمارا دن ختم نہیں ہوگا، جیسے وقت کی رفتار ہمارے لئے رکی ہوئی ہو، ہماری گھڑیوں کو ہمیں ایک ہی مقام پر روک دینا ہوگا۔یہ بھی قران شریف کا معجزہ ہے کہ دن اور رات کی زمین کی گردش سے جڑی اس گنتی کا حوالہ خودہمارے طریقۂ شمار Calculationسے دیا ہے۔ چودہ سو سال قبل جب ربِّ کائنات اپنی الکتاب کا نزول فرمارہا تھا،اُس وقت کی دنیا کو یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ بھی انسانیت کے لئے قرآن شریف کاچیلنج ہے کہ لفظ’’ الیوم‘‘ کو اس نے دن اور رات کے ہمارے Calculation کی طرح استعمال نہیں کیا ہے،بلکہ ایک مخصوص Periodیا عرصے کے لئے استعمال کیا ہے۔چنانچہ آیت شریفہ میں ان لوگوں کو جو اپنے رب کی طاقتوں کوناقابلِ اعتناء سمجھتے ہیں،یا اپنی بے راہ رو زندگی پر کسی نظر ثانی کو تیار نہیں،اور مالکِ کائنات کی سزا اور اس کے عذاب سے کسی خوف کے بجائے ،اپنی انا ، ضد اور غرورکے زیر ِ اثر آکر یہ بے معنی سوال شعوری یا غیر شعوری طور پر اُٹھا تے ہیں کہ یہ عذاب جس کی بار بار وارننگ دی جارہی ہے،اُسے کب آنا ہے اوروہ کب برپا ہوگی ؟ ایسے خوابیدہ لوگوں کوخواب غفلت سے جگانے کے لئے،اورخود اِس کی اور اس دنیا کی حقیقت کی یا دہانی کے لئے بطور نمونہ خالقِ انسانیت ،زلزلے،سیلاب اورآندھیوں کی شکل میں تباہ کن عذاب بھیجتا رہاہے تاکہ آن کی آن میں انسانوں کی ساری ترقیاں دھری کی دھری رہ جائیں اور قدرت کی طاقت کے آگے وہ اپنے آپ کو لاچار پائے۔ یہ اور بات کہ ایسی کتنی ہی تنبیہات Notices کتنے ہی خدا فراموش انسانوں کواُن کے خواب غفلت سے جگا نہیں پاتیں۔ اِنسان اپنی دن اور رات کی گنتی کوہی سب کچھ سمجھتے ہوئے جیتا ہے اور اپنی نادانی میں یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ ساری کائنات بھی اسی رفتار سے، دن رات اور ماہ وسال کی اِسی گنتی میں جیتی ہوگی۔ کئی صدیوں قبل ہمارے مالکِ اعلیٰ نے بھی ہماری اِس نادانی کو نوٹ کیا تھا اور ہمیں دانائی کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دی تھی کہ جس کرۂ ارض پر تم اپنی دنیاوی محافل سجائے بیٹھے ہو،اس کی حیثیت کائنات میں ایک چھوٹے سے گیند کے مقابلے میں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔اِس دنیا اور اِس کے تمام تر ساز و سامان کی حقیقت کے تعلق سے اِسی دنیا اوراِسی کائنات کے خالق و مالک نے جو اطلاعات فراہم کی ہیں، اُن کا ایک نمونہ سورۂ انعام(۶) میں ملاحظہ فرمائیں:’’اے انسانو!اچھی طرح جان لو کہ یہ دنیوی زندگی محض ہاتھ سے نکل جانے والے وقتی مزے اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے مستقل اور بہترہے جو اس دنیا میں تقویٰ والی زندگی گذار کر آئے ہونگے،پھر تم اپنی عقل کیوں نہیں استعمال کرتے۔‘‘(۳۲)۔

دنیاوی زندگی کے بارے میں سورہ ٔ آل عمران (۳)میں مزید فرمایا:’’انسان کے لئے مرغوبات نفسی، Tempting Wishes in Women،
اولاد یا Man Power ،سونے چاندی کے ڈھیر، Stocks،نشان زدگھوڑے،سواریاں ، مویشیوں یا Live Stock مزین کردئے گئے ہیں۔یہ تمام متاع اور ختم ہوجانے والے دنیا کی زندگی کے Consumablesہیں ،اور اﷲ ہی کے پاس اس سے کہیں بہتر ٹھکانہ اور سامان موجود ہے۔‘‘(۱۴)

ایک علیحدہ Frame of Referenceکے ذیل میں ہمارے رب نے ایک ہزار سال کے برابر ایک دن کا موازنہ کرتے ہوئے ایک اور Frame of Reference سے ہمیں متعارف کراتا ہے ، جس کی حقیقت سے بس وہی واقف ہے۔یعنی آخری آسمانی الکتاب کی سورۂ معارج(۷۰) میں ہمیں ایک دن کے پچاس ہزار سالوں کے برابرہونے کی خبر بھی دی گئی ہے:’’عروج پاتے ہیں فرشتے اور الروح ،اﷲ کی طرف ،ایک دن میں ،جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ ‘‘ (۴)۔

دونوں آیات میں وقت کو Percieve کرنے والے اُمور الگ الگ ہیں۔ ان آیات سے ’’وقت کی اِضافیت‘‘ یا Relativity of Timeواضح ہے۔ چودہ سو سال قبل ہی’’ وقت‘‘ کی حقیقت پر سے پردہ اُٹھایا گیا تھا۔چودہ سو سال بعدآج سائنس، ترقیوں کے ایک بلند مقام پرکھڑی ہے تو اِس کے لیے اِس نے بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں، تب کہیں جاکر وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وقت قطعی یاabsolute نہیں ہے،بلکہRelative Perceptionہے۔ جسے رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں چودہ صدیوں قبل ہی بیان فرمادیا تھا۔رب تعالےٰ نے سورۂ الکہف(۱۸) میں بھی اصحاب کہف کی تین سو نو برس کی نیند کا تذکرہ کرکے انسانی ذہن کو نہ صرف چونکا دیا تھا بلکہ دعوتِ غور و فکر بھی دی تھی اور باور فرما دیا تھا کہ وہ نہ وقت کے کسی تصور سے بندھا ہوا ہے،نہ خلاء کے کسی گوشۂ دور ازکارمیں سکونت پذیر ہے نہ کائنات کے کسی حصار میں محصور ہے(نعوذ باﷲ)۔ اِس کے برخلاف اِنسان کوخدا وند قدوس نے کرۂ ارض کی گردش سے پیدا ہونے والی وقت کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے،جس سے فرار ممکن نہیں۔ربِّ جلیل کا اِنسانوں کے نام یہ چیلینچ ملاحظہ ہو جسے سورۂ رحمٰن(۵۵) میں پیش کیا گیا ہے:’’ اے تمام کے تمام انسانوں اور جناتو!اگر تم میں طاقت ہو،تو زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل بھاگنے کی کوشش کرکے تو دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے تم،چاہے جتنا بھی زور لگالو۔ ‘‘(۳۳)۔

نظریۂ اِضافیت یا Theory of Relativity کی مذکورہ تفصیل سے قارئین پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہوگی کہ کسی ایک محل وقوع یا ریفرنس فریم میں جو وقفہ ایک بلین سالوں پر مشتمل ہوگا،وہی وقفہ کسی دوسرے محل وقوع یاریفرنس فریم میں ایک سیکنڈ کے برابر ہوسکتا ہے۔ہمارا دماغ جب یہ سوچتاہے کہ آنے والے ایک کروڑ سال میں جو واقعات رونما ہو ں گے وہ کسی کو معلوم نہیں،تو تب ہمارا ایمان پکار اُٹھتا ہے کہ مستقبل کا ایک ایک پل اﷲ رب العالمین کے علم میں ہے اوراب توحال یہ ہے کہ سائنس بہ بانگِ دہل اعلان کر رہا ہے کہTheory of Relativityکی رو سے رب تعالےٰ کے لیے ماضی، حال اور مستقل تمام یکساں ہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو Time Boundہے اورنہ وہ Space Bound ہی ہے۔وہ ہر حال میں ،ہر دور میں،ہر زمانے میں،ہر واقعہ پر خود حاضراور گواہ ہے۔ظاہر ہے جو وقت کا خالق ہو، وہ وقت کے Perception کے دائرے میں کیسے رہ سکتا ہے ، اُسے تووقت کے ماحول سے کہیں پرے ہی ہونا چاہیے۔رب تعالیٰ کی اپنی شان خود اُسی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔سورۂ الحدید(۵۷) میں ہے :’’ وہی اﷲ اول بھی اور آخر بھی،وہی ظاہر بھی اور وہی باطن بھی اور وہ ہر چیز کی ہر لمحہ معلومات بھی رکھتا ہے۔ ‘‘(۳)۔

اس لئے کہ آسمان اور زمین ، اجرام فلکی ، بلکہ ساری کائنات اُ سی کے حصارِ بادشاہت میں محصور ہے۔ ہر ذرۂ کائنات پربس اُسی کا حکم چلتا ہے، کیوں کہ وہی خالق بھی ہے، مالک بھی اورحاکم بھی ہے۔جیسا کہ اُس نے خود سورۂ انعام(۶) میں فرمایا ہے:’’ اور اسی اﷲ(کی بادشاہت )ہے آسمانوں اور زمین میں بھی۔ وہی جانتا ہے تمہارے پوشیدہ اور تمہارے ظاہر کو،اور وہ باخبر ہے کہ تم کیسی کمائی کررہے ہو۔ ‘‘(۳)۔سورۂ بقرہ(۲) میں فرمایا:’’…… اُس کی کرسی نے آسمانوں اورزمین کوCoveringمیں لے رکھا ہے اور ان دونوں کی حفاظت اس کے لئے کوئی مشکل کام یا گراں گزرنے والی چیز نہیں ہے۔ اور وہ نہایت اعلیٰ ،نہایت عظمت والا ہے۔‘‘(۲۵۵)۔

اس قدر عظیم اور طاقتور رب کے مقابلہ میں ہم جیسی مخلوق کی کیا بساط۔وہی تو ہے جس کی کائنات میں ہر طرف نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ جس شے پربھی غور کیجیے گا تو اُس کی نشانیوں اور کمالات کی بے شمار پرتیں نظر آئیں گی اور ہر پرت بے شمار پرتوں کے اندر دکھائی دے گی۔ہماری مختصر سی زندگی تو کیا،بلکہ زمانوں کے لیے بھی ممکن نہیں کہ اُس کے کمالات کا احاطہ کر سکیں۔ہمارا تو حال یہ ہے کہ ہم ایک نہایت ہی مختصر وقت کے لیے یہاں آئے ہوئے ہیں۔

ہماری کیا مجال کہ ہم اُس سے بے نیاز ہو کر جئیں۔ربِّ کائنات سے بے نیازی کے بطن سے غرور و تکبر ہی کی خصلتیں جنم لیتی ہیں جو اﷲ کو مطلق پسند نہیں :سورۂ انبیاء (۲۱) میں فرمایا:’’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں اچھے اور برے حالات سے آزماتے رہتے ہیں، اور ہماری ہی طرف تم سب کا رجوع ہے۔‘‘(۳۵)۔سورۂ حدید(۵۷) میں فرمایا:’’ نہیں آتی زمین پر کوئی بھی آفت، اور نہ کوئی مصیبت ، مگر وہ تمام رکارڈمیں درج ہے، قبل اِس سے کہ ہم اسے واقع ہونے دیں۔ بیشک یہ اﷲ کے لئے بہت آسان ہے۔ اب یہ نہ ہونا چاہئے کہ تم افسوس کرتے بیٹھو،جو ہاتھ سے جاتا رہا۔ اور نہ اتراتے رہو اس پر، جو اﷲ نے تمہیں دیا۔ بیشک اﷲ نہیں پسند کرتا کسی بھی اترانے والے، فخر کرنے والے کو۔ ‘‘(۲۲تا۲۳)۔

زندگی کے شب وروزکی دلآویزیاں، اس کے نشیب وفراز کی لذتیں اوراِس کے ماہ و سال کی نیرنگیاں انسان کے لیے اِس لیے نہیں ہیں کہ وہ اِن میں کھو کر رہ جائے۔بلکہ اِن ہی دلآویزیوں، اِن ہی لذّتوں اور اِن ہی نیرنگیوں کے درمیان وہ اپنے رحیم وکریم رب کو اور اُس کی رحمت کو تلاش کرے،پھراپنے حال کو درست کرنے کی طرف توجہ کرے پھر اپنے مستقبل پر بھی نظر رکھے کہ وہ زندگی کے کس دروازے سے داخل ہونے جارہا ہے…… بے رہروی کے یافرمانبرداری کے دروازے سے۔؟

کیا اربابِ سائنس اوراصحابِ الکتاب اپنی سائنسی و دینی کاوشوں کے ایسے امتزاج پر آمادہ ہیں جس کے ذریعہ ہماری یہ حسین و دلنشین دُنیا امن و امان کا گہوارہ بن کر رب تعالےٰ کی رضا کا ذریعہ بن سکے؟

Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83292 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.