حیوان تمدن سے ماورا اور شہوانی خواہشات میں بے لاگ ہیں۔
انسان کی تخلیق تمدن کی تخلیق ہے اور شہوانی خواہشات میں اتنا حیا کہ انسان
ابلیس کے دانے سے بہک گیا تو درختوں کے پتوں سے خود کو چھپانے لگا۔ یہ شعور
انسانی جبلت میں رکھ دیا گیا۔ انسان کو جانورں سے الگ کرکے تمدن کا حصہ بنا
دیا گیا جس کی اکائی خاندان ہے اور خاندان کی بنیاد نکاح ہے۔ پھر جب انسان
تمدن کے حصار سے باہر نکلا، بداخلاقی ، نفس پرستی اور لذتِ جسمانی کی بندگی
کو پہنچا تو ناکام و نامراد ہوا۔ آپ کسی بھی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں
جہاں انسان شہوانیت سے لبریز ہوئے، جہاں ننگے ناچ اور ننگی تصویروں فن بنیں،
جہاں عورت مرد جوان بوڑھے عیش کوشی میں منہمک ہوئے، جہاں کا آرٹ فحاشی اور
بے حیائی بنی، جہاں فنون لطیفہ ہیجان انگیز فلمیں اور ڈرامے بنے ،جہاں قلم
فحش لٹریچر لکھنے میں مصروف ہوا، جہاں کاروبار قحبہ خانے بنے، جہاں کی
تفریح گاہیں لڑکے اور لڑکیوں کے جوڑوں سے بھر گئیں، جہاں نکاح سے پہلے
جسمانی تعلق عادت بن گیا، جہاں کا فن یہاں آکے رکا کہ سٹیج پر ہی فعل
مباشرت کا منظر پیش کر دیا جاتا ایسی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوئی جو پہلے سے
کامیاب تھیں وہ ان افعال میں اتر کر ناکام ہو گئیں۔ فرانس ہو یا روس جہاں
فواحش کی کثرت ہوئی جہاں زنا کاری عام ہوئی جہاں کے جوان اپنی طاقت تخلیقی
کاموں کی بجائے شہوانی خواہشات میں صرف کرنے لگے وہ ناکام ہوئیں۔ وہاں بے
سکونی نے لوگوں کو ننگا ناچ نچوایا، وہاں کا تمدن تباہ و برباد ہوگیا۔
اولاد کو باپ کے نام سے نہیں بلکہ ماں کے نام سے پہچان ملی بلکہ اکثر اوقات
خاندان کی اکائی ٹوٹ گئی انسان ذلیل ہو ا اور انسانیت رسوا ہو گئی۔
آج یہی منظرنامہ ہمارے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے اگر بروقت ہم نے اپنی
آنکھیں نہ کھولیں تو ہم بھی فحاشی کے اس سیلاب میں بہہ جائیں گے پھر ہماری
عزتیں رہیں گی نہ ثقافتی اقدار پھر روم کی طرح نفس کی پوجا ، شہوت پرستی،
عورتوں اور ناچ رنگ کے درمیان ہم بھی فنا ہو جائیں گے۔
ہمارے معاشرے میں چند چیزیں اس کثرت سے پھیل رہی ہیں کہ فوا حش کا سیلاب
اُمڈ آنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں۔ اس سیلاب کے آگے ہم نے بند نہ باندھا تو
ہماری عزتیں بھی کوٹھوں پہ ناچیں گی۔ میڈیا پرنازیبا اشتہارات ، غیر اخلاقی
فلموں اور ڈراموں سے ہماری ثقافت اور ہمارے حیا پر بار بار ضربیں لگائی جا
رہی ہیں۔ اور ہم آہستہ آہستہ ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ کچھ فواحش ایسے ہیں جن کی
پرورش کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور یہ ان سب سے زیادہ خطرناک ہیں جن کا میں
اوپر ذکر کر آیاہوں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا گھر ہمار معاشرہ ہماری
بہن ہماری بیٹی باحیارہے تو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ ہم بھی با حیارہیں۔
ہماری نظر سے بھی اس معاشرے کی بہن اور بیٹی محفوظ رہے۔ کوئی بھی لڑکا جب
کسی لڑکی کو پھول یا تحفہ دیتا ہے یا پھر اظہار محبت کرتا ہے تو دوسرے
معنوں میں دیکھنے اور سننے والے تمام لوگوں کو یہ دعوت دے رہا ہوتا ہے کہ
اس کے گھر میں بھی بہن اور بیٹی موجود ہیں اور پھر جو دوسروں کی عزت کے
ساتھ کھیلتا ہو وہ خود کی عزت کیسے بچا سکتا ہے، بے حیائی اور بے شرمی تو
اس پر حاوی ہو چکی ہوتی ہے جس کا آغاز وہ خود کرتا ہے اور پھر اگر وہ
معاشرے سے گلہ کرے کہ وہاں اس کی بہن بیٹی محفوظ نہیں تو وہ لغو کہتا ہے ۔
راستہ تو سب کو وہ خود ہی دکھارہا ہوتا ہے۔ افسوناک امر تو یہ ہے کہ آج
ہمارے معاشرے کے منچلے نوجوان نہ صرف لڑکیوں سے غیر اخلاقی تعلق رکھتے ہیں
بلکہ اسکا کھلے عام پرچار بھی کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس لڑکی
کو وہ پھول یا تحفہ دیتے ہیں اسکا بھائی اس سے لاعلم ہے تو غیر ممکن ہے کہ
ان کو بھی اپنی بہن کا علم ہو اور ویسے بھی زنا ایک قرض ہے یہ ہمارے رسول ؐ
کی حدیث ہے اور اس کا کوئی منکر نہیں ہو سکتا جو کسی لڑکی کو ایک مرتبہ
چھوتا ہے یا شہواتی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اس کی بہن بھی کسی غیر محرم کے
ہاتھ کا لمس کبھی نہ کبھی ضرور محسوس کرے گی اور کسی آوارہ اوباش کی شہوانی
نگاہ کی ضرور تسکین بنے گی۔ لہٰذا اپنے دوستوں سے اپنی بے حیائی کا تذکرہ
کرتے ہوئے خیال رکھا جائے کہ دراصل آپ اپنی بہن اور بیٹی کا مستقبل سنارہے
ہوتے ہیں آپ کے برے اعمال کا بدلہ تو آپ کے خاندان میں سے کسی نے ضرور
چکانا ہے پھر کم از کم اپنی عزت کا یوں جنازہ تو نہ اٹھایا جائے۔
گناہ کر چکنے کے بعد کچھ لوگ اپنے دوستوں کو یہ بتاتے پھرتے ہیں کہ انہوں
نے فلاں معرکہ سرانجام دیا ہے، فلاں کی عزت لوٹی ہے۔ مگر وہ لوگ یہ نہیں
سمجھتے کہ ایک تو وہ دوسروں کو گناہ کی ترغیب دے رہے ہیں دوسرا اپنے گناہ
پر انہیں گواہ بنا رہے ہیں۔ پھر کسی روز انہی میں سے کوئی اس کی بہن بیٹی
کو اپنی حوس کا نشانہ بنا دے گا یا پھر روزِ آخرت اس کے گناہوں کا کوئی
گواہ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔
ایک اور اہم بات میں واضح کرتا چلوں جو ہم میں سے اکثر نہیں سمجھتے دیکھیں
جولوگ لڑکیوں کے معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں اسکا مطلب یہ نہیں کہ ان کی
ذات میں اعتماد نہیں بلکہ وہ حیاکی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو وہ گھر اور
اپنے معاشرے سے لے کے آتے ہیں اور جو اس معاملے میں تیز ہوتے ہیں ان سے
حیاکی توقع نہیں کی جا سکتی ان کا گھریلو ماحول ہی انہیں اتنا اعتماد فراہم
کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر اور معاشرے ہی سے حیا اور بے شرمی کو غلط ملط کرکے
آتے ہیں پھر وہ تو کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ جو اپنی بہن کو غیر محرم کے
ساتھ دوست دیکھ چکا ہوتا ہے وہ خود لڑکیاں پھنسانے میں ماہر ہوتا ہے۔ یہ
اسکا نہیں اسے اسکے حصے میں ملی بے حیائی کا کمال ہوتا ہے۔ اس طرح کا اکثر
فرق گاؤں اور شہر کے لڑکوں میں دیکھا جاتا ہے۔ شہر ماڈرن اور روشن خیال اور
مغربی تہذیب کے تسلط میں ہیں جبکہ گاؤں میں ابھی کچھ ثقافتی روایات زندہ
ہیں وہاں شہروں کی نسبت شرم و حیا زیادہ ہے۔ بے شک شہر والے انہیں بیک ورلڈ
اور دقیانوس کہیں مگر ان کا خاندانی ڈھانچہ اور شرم وحیا کا حصار شہروں سے
کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شہروں کے نوجوان لڑکیوں کے
معاملے میں خود کو زیادہ بااعتماد ٹھہراتے ہیں اور گاؤں سے آئے ہوئے جوان
اس معاملے میں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں، حالانکہ انہیں اپنے پاکیزہ
اور حیادار تمدن پر اترانا چاہئے۔ مگر جو شہر میں آتا ہے وہ اسی تہذیب میں
ڈھل جاتا ہے پھر اپنے لیے بڑائی کا معیار بھی وہی سمجھتا ہے جو شہروں میں
ہوتا ہے۔ جو قوم اپنی ثقافتی روایا ت کو بھول کے بڑائی کے پیمانے دوسری
تہذیب سے اخذ کرتی ہے وہ اس تہذیب کی ذہنی غلام ہوتی ہے۔ آج ہم انکار کریں
یا اقرار بہرحال ہم مغربی تہذیب کے ذہنی غلام ضرورہیں۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی نفس کی تسکین اور تفریح کیلئے عورتوں کے
بازار اور ان کا کاروبار کھلے عام ہونا چاہئے تو ظاہری سی بات ہے اس میں آپ
اپنی بہن اور بیٹی کو شامل نہیں کریں گے پھر اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سارا
معاشرہ بے غیرت بے شرم اور بے حیا ہو جائے صرف آپ کی بہن اور بیٹی حیا کی
چادر میں لپٹی محفوظ اور محترم رہیں۔ اگر ایک گندمی مچھلی پورے تالاب کو
گندہ کر سکتی ہے تو پھر یہ آپ کی کند ذہنی ہے کہ پورا تالاب گندی مچھلیوں
سے بھرا ہوا ہو اور اس میں ایک دو مچھلیاں پاک صاف رہیں۔ جب تک آپ پورے
معاشرے کواپنا گھر سمجھ کرصاف نہیں رکھیں گے تب تک آپ اپنے گھر کو معاشرے
کی گندگی سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اپنی بہن
اور بیٹی کی عزت محفوظ چاہتے ہیں تو کسی کی بہن بیٹی کی عزت پر ہاتھ نہ
ڈالیں۔ گندگی جو بھی پھیلائے گا اسکے اپنے ہاتھ تو ہرحال میں گندے ہوں گے۔
آپ کی اس خواہش کہ نفس انسانی کی تسکین کے لیے تفریح کی اجازت ہونی چاہئے
یا دوسرے لفظوں میں زنا کو جائز ہونا چاہئے کی تکمیل کی ایک دوسری صورت یہ
بھی ہو سکتی ہے کہ آپ معاشرے میں چند ایسی لڑکیاں لے آئیں جو ہر لحاظ سے
گھٹیا، ذلیل پست اور اوباش مردوں کی شہوانی خواہشات کی تسکین اور رفعِ حاجت
کا سبب ہوں۔ اس مقصد کیلئے کوئی اپنی بہن یا بیٹی تو کبھی نہیں دے گاپھر آ
پ کہاں سے لائیں گے ایسی عورتیں۔ اسی معاشرے میں پیدا تو کرنی ہوں گی۔ پھر
آخری آپشن تو آپ کی اپنی بہن اور بیٹی کا رہتا ہے۔ اگر آپ خود کو معزز اور
با حیا سمجھتے ہیں۔ اور اپنی گود کی بچیوں کو محفوظ رکھ کے معاشرے کی طرف
دیکھتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ خود کے علاوہ باقی سب کو بے غیرت اور
بے حیا سمجھتے ہیں اور جس معاشرے کی سب لڑکیوں کو آپ کوٹھے پر بٹھانے کے
قابل سمجھتے ہوں اس معاشرے میں آپ کبھی اپنی بیٹی اور بہن کو محفوظ نہیں
رکھ سکتے۔ پھر جلد ہی آپ کو وہ معاشرہ چھوڑ دینا چاہئے اور ایسی جگہ جا
بسنا چاہئے جہاں کوئی لڑکی کسی کی بہن اور بیٹی نہ ہو پھر اگر ایسا بھی
ممکن نہ ہو اور آپ اپنے گھر کی عزت بچانا چاہتے ہوں تو سب سے بہترین حل یہی
ہوگا کہ اپنی نظروں میں حیا پیدا کرکے معاشرے کی ہر عورت کو ماں بہن اور
بیٹی کا درجہ دیں۔ جو عورت ایک خاندان کی بانی، گھر کی ملکہ، بچوں کی پہلی
درسگاہ اور جنت کو اپنے پیروں میں سما سکتی ہو اس کے لئے یہ سوچ رکھنا کہ
وہ آپکی رفع حاجت کا ذریعہ بنے تو آپ کو اپنی سوچ کے زاویے بدلنے ہوں گے
ورنہ آپ معاشرے کے سب سے ذلیل اور کمینے فرد کے درجے پر پہنچ جائیں گے کہ
اپنی بہن بیٹی کا سودابھی کچھ برا فعل نہیں سمجھیں گے۔اور اپنی عزت اپنے
ہاتھوں سے بیچیں گے۔ ہم انسان اس لیئے ہیں کہ ہم خواہشاتِ نفس کی پیروی
نہیں کرتے بلکہ تمدن اور تہذیب کو جنم دیتے ہیں اگر ہم اپنے اندر سے تمدن
اور تہذیب کو نکال دیں تو پھر جانوروں اور ہمارے درمیان کیا فرق رہ جائے
گا۔ پھر ہم اشرف المخلوقات کس وجہ سے ہوں گے۔
اسلام نے ہمیں وہ سب کچھ عطا کیا جو ہماری فطری ضرورت ہے تہذیب و تمدن کی
پرورش اور جسمانی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح کا نظام دیا کہ آوارہ کتے
کی طرح ہم جگہ جگہ منہ مارتے نہ پھریں بلکہ اپنی محبت اور چاہت کا ایک ہی
محور بنادیں۔ جس میں ہم اپنی اولاد کی صحیح پرورش کریں وہ ورثہ جو ہمیں
اپنے آباؤاجداد سے ملا ہے اس کو اپنی نسلوں میں منتقل کریں۔ ہماری وجہ سے
اگر کوئی حرامی بچہ پیدا ہو گا تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس کی پرورش کون
کرے گا؟ پھر کیا ہمارے آباؤاجداد نے ہمارے ساتھ یہی رویہ رکھا تھا کہ کسی
فاحشہ کی گود میں پھینک کر واپس آگئے تھے نہیں انہوں نے نکاح کیا ہمیں جنم
دیا، ہمیں عزت دی، ہمیں وقار دیا، ہمیں پہچان دی، ہمیں نام دیا، نسب دیا
لیکن ہم اس بچے کو کیا دیں گے جو صرف اور صرف ہماری شہوانی خواہشات کی
نشانی ہوگا۔ اور ایک عورت اکیلے اسکا بوجھ کیسے برداشت کرے گی۔ پل بھر کی
نفسانی خواہش کی تکمیل کے لئے ہمیں کوئی نہ کوئی ظلم تو ضرور کرنا ہوگا یہ
کہ بچے کو زندہ چھوڑ دیا جائے معاشرہ اس کی تذلیل کرے اسکی کوئی پہچان نہ
ہو کوئی عزت نہ ہو بس دو زانیوں کی ایک نشانی ہو۔ معاشرہ اس سے نفرت کرے اس
پر انگلیاں اٹھائے آوازے کسے تحقیر کرے۔ وہ اپنی پہچان کس نام سے بنائے گا؟
آپ کے ظلم وہ کب تک سہتا رہے گا؟ یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ شہوت کی اس
نشانی کو زندہ درگور کردیا جائے۔ ظلم تو یہ بھی بہت بڑا ہے۔ ایک انسان کا
قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ حمل ٹھہر جانے کے بعد اسقاطِ حمل میں آپ کسی
انسان کا قتل توکرہی دیتے ہیں۔
جس معاشرے میں زنا عام ہو جائے وہاں نکاح کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے جب
شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے آسان راستے موجود ہوں تو ذمہ داریوں کا
بوجھ کون سر پر لیتا ہے۔ بالکل اسی مثل کے مصداق کہ جب دودھ بازار سے مل
جائے تو گھر میں بھینس رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ
اس کی بہن بیٹی کے لئے نکاح کا راستہ ہو اور وہ خود بازار سے دودھ لیتا رہے
تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ وہ جس بازار سے دودھ لیتا ہے اس کے معاشرے کے
لوگوں کیلئے بھی وہاں آسانیاں ہیں اور پھر اگر وہ کسی کی بہن اور بیٹی کو
بھینس کا درجہ دیتا ہے تو وہ بھی کچھ اسطرح کی بھینسیں رکھتا ہے جن سے کوئی
بھی دودھ حاصل کر سکتا ہے۔ لہٰذا آگ اور پانی کو اکٹھا نہ کریں کہ فاحشہ
گری کا کاروبار بھی چلتا رہے اور نکاح کا پاکیزہ رشتہ بھی اسی جذبے سے
موجود رہے۔
زنا کی آزادی سے تمدنی زندگی کو جو نقصان پہنچتا ہے اسکا اندازہ بھی نہیں
کیا جا سکتا جو عورت آزاد طبیعت کی مالک ہو زنا کا میلان رکھتی ہو اس میں
دھوکہ بازی آوارہ مزاجی اور بدنظری جیسی صلاحتیں پورے جوش سے موجود ہوں گی
پھر وہ ازدواجی زندگی کی سختیوں کو کیسے برداشت کر سکے گی۔ جو عورت کئی
مردوں کی گود کی زینت بن چکی ہو نگاہ اور طبیعت کو آزاد کر چکی ہو وہ کہاں
ایک مرد کے ساتھ وفا دار رہ سکتی ہے اور اپنی تمام ترتوجہ ایک مرد پر مرکوز
کر سکتی ہے۔ ایک بستر کب اس کی شہوانی خواہشات بجھائے گا کس طرح وہ نکاح کے
بندھن کو قائم رکھ سکے گی اور بالکل یہی صورتحال مرد کی ہے جو مرد بھی اپنی
فکر و نظر میں فاحشہ گری کو عام سمجھتا ہو جگہ جگہ کا دودھ پی چکا ہو کب
ایک عورت پر اپنی شہوت مرکوز رکھ سکتا ہے ؟وہ کب وہ محبت اپنے خاندان کو دے
سکتا ہے جو ہر آئے روز نئی لڑکی کے نام ہوتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اسے ہر صورت میں پاک صاف رکھنا
ہماری ذمہ داری ہے۔ کہ اسی معاشرے میں ہم نے بھی رہنا ہے اور ہماری بہن
بیٹی نے بھی۔ اگر ہم کسی دوسرے کی بہن بیٹی سے عشق کی ’’ع‘‘ ’’ غ‘‘ کا حساب
لگاتے رہے تو اپنے گھر کو کسی صورت محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔ ہمیں اپنی آنکھوں
میں حیا پیدا کرنا ہوگا ۔ہم جو عزت اپنی بہن اور بیٹی کے لئے معاشرے سے
مانگتے ہیں وہی عزت ہمیں معاشرے کی ہر بہن اور بیٹی کو دینی ہوگی۔ اور اگر
یہ عزت ہم نہ دے سکے تو اپنے گھر کا گلہ معاشرے کی بے راہ روی سے نہیں بلکہ
اپنے مزاج اور عشق سے کرنا ہوگا۔ ا پنے گریبان میں تو سب نے جھانکنا ہوتا
ہے شرمندہ ہونے سے بہتر ہے اپنا گریبان ہی صاف رکھا جائے۔ |