کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس معاشرے میں بسنے والے لوگوں پر
منحصر ہوتا ہے۔اگر ایک معاشرہ اچھے ،قابل اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد
کو جنم دے گاجو اچھے اور برے کی تمیز کرنا جانتے ہوں تو اس امر سے واضح
ہوتاہے کہ وہ معاشرہ بہت جلدترقی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے اچھے اور برے
کی تمیز صرف علم و شعور سے ہی ممکن ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی
معاشرے سے تعلق رکھنے والے افراد کو باشعور اور قابل بنانا ہو توسب سے پہلے
اس معاشرے کے باسیوں پر لازم ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم عہد
جدید میں ہر شخص کی بنیادی ضروریات میں سر فہرست کی حیثیت اختیار کر چکی
ہے۔اب اگر ماضی کے تعلیمی اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو1951ء کی مردم
شماری کے مطابق پاکستان میں اپنا نام لکھ پڑھ سکنے والے افراد کی
تعداد16.4فیصد تھی جو1961ء کی مردم شماری کے مطابق کم ہو کر16.3فیصد ہو گئی
۔ 1972ء میں شرح خواندگی21.7 فیصد ،1981ء میں 26.2 فی صد اور 1998 ء میں
43.9 فیصد تھی ۔ 2008ء کے مختلف اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں خواندہ
آبادی کا تناسب50 اور 56 فیصدکے درمیان ہے جن میں 69 فیصد مرد اور 43 فیصد
خواتین ہیں ۔ شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 186ویں نمبر پر ہے
اور دنیا کے ان آٹھ ملکوں میں شامل ہے جہاں تعلیم کے شعبے پر ملکی بجٹ کا
دو سے تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت اچھے تعلیمی ادارے تو موجود ہیں مگر وہ اپنی ذمہ ٹھیک
طرح سے نہیں نبھا رہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انہوں نے اپنی ذمہ
داریاں احسن طریقے سے نبھانی شروع کر دیں تو وہ بہت جلد ایک اعلی قوم کو
جنم دینے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کچھ حد تک کامیابی کی طرف گامزن بھی
ہیں۔اگر حقیقت میں تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام
دینے لگیں تو معاشرے میں بہت جلد ایک مثبت تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے
۔پاکستان میں اس وقت سرکاری اور نجی دو طرح کے تعلیمی ادارے لوگوں کو کی
خدمت میں پیش پیش ہیں مگر اب افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ آج کل کے
تعلیمی اداروں نے تعلیم کو فروغ دینے کے مقصد کے بجائے لوگوں سے تعلیم کے
نام پر پیسے بٹورنے کو اپنا اصل مقصد بنا لیا جو کہ ان کا ثانوی مقصدہونا
چاہیے تھا۔اس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ اب تعلیمی اداروں کے درمیان زیادہ
سے زیادہ نام بنانے اور پیسہ بٹورنے کی جنگ شروع ہو گئی ہے جو ان کے بنیادی
مقصد(تعلیم کے فروغ)کو خاک میں ملا رہی ہے۔اسی طرح پاکستان میں صرف چند
تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی
مثبت تربیت بھی کر رہے ہیں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر تعلیمی ادارے کا
بہت اہم کردار ہوتا ہے جو نوجوان کو معاشرے میں پر سکون زندگی گزارنے کو
سنہری اصولوں سے واقفیت کراتا ہے مگر ہمارے ہاں اب صلاحیتوں کو اجاگر کرنے
کے بجائے تعلیمی ادارے نوجوانوں میں رٹاسسٹم کو متعارف کراچکے ہیں۔ کیونکہ
ایسا کرنے سے جب نوجوان بورڈ یا یونیورسٹی میں کوئی پوزیشن حاصل کرتا ہو تو
وہ تعلیمی ادارہ اپنے نمبر بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے حالانکہ اس پوزیشن
کا کوئی فائدہ نہیں جس میں طلباء کو رٹا کر نمبرز لیے جائیں جبکہ اس طالب
علم کوعلم کی تفہیم کا بالکل شعور نہ ہو کہ اس نے پڑھا اور سمجھا کیا ہے
۔۔آج کل ہر سکول اور کالج ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں اپنے طلباء کو
رٹے کے زور پرامتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرانے میں محنت کر رہے
ہیں۔ جبکہ اس سے طالبعلم وقتی طور پر تو بہت زیادہ نمبرز حاصل کر لیتے ہیں
مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں تواپنے متعلقہ مضمون میں بنیادی فہم
بھی حاصل نہیں ہے ۔ یہی طالبعلم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جا کر بری طرح
ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ میں ذاتی طور پر اپنے کچھ دوستوں کے متعلق جانتا
ہوں جنہوں نے میٹرک میں تو رٹا لگا کر بہت معرکہ مارا تھا مگر اب یونیورسٹی
لیول کی تعلیم تک پہنچ کر اب انہیں سخت پریشانی کا سامنا ہے ۔
اب تعلیمی اداروں کے اندرونی معاملات پر روشنی ڈالی جائے تو ان کے امتحانات
صرف خانہ پری کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں ۔خاص کر میڑک تک کے تعلیمی اداروں
کے اور اس متعلق ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کر رہا ہوں جسے دیکھ کرمیرے
اوسان خطا ہو گئے تھے۔ اور اسی واقعے نے مجھے اس موضوع پر کالم لکھنے کو
مجبور کیا۔پچھے دنوں میں ہاسٹل سے یونیورسٹی کی جانب نکلا اور وین میں سوار
ہوا اور میں نے دیکھا کہ مجھ سے اگلی نشست پر بیٹھی ایک فی میل ٹیچر پیپرز
مارکنگ کرنے میں مصروف تھی اور دھڑا دھڑ پیپرچیک کیے جارہی تھی اب اس
احمقانہ حرکت کو دیکھتے ہوئے میں رہ نہ سکا اور ان پیپرز کو جانچنے لگا تو
معلوم ہو ا کہ یہ اسلام آباد کے ایک مشہور (نجی)گروپ آف سکولز کے ساتویں
کلاس کے پیپرز ہیں جو یہ ٹیچر پبلک ٹرونسپورٹ میں بیٹھی مارک کیے جارتھی ۔
قارئین اس آنکھوں دیکھے واقعے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ یہ داخلی
امتحانات محض ایک دستور بنا ہوا ہے ہر ادارے کا جس پر ہر حالت میں عمل کرنا
ہے خواہ ان پیپرز کوچیک کرنے کے لیے گھر میں تو ٹیچرز کے پاس وقت نہیں جو
وین میں سفر کے دوران چیکنگ میں مصروف ہے اور یہ صرف ایک ادارے کی ناقص
کارکردگی کا واقعہ ہے اسی سے ملتے جلتے واقعات ہر تعلیمی ادارے کے آپ کو
ملیں گے۔خدارا ہم کب سنوریں گے کیونکہ جب ہم خود سنوریں گے نہیں تب تک ایک
بہترین قوم کی بنیاد رکھنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے ۔اس کا آغاز ہمیں خود سے
کرنا پڑے گا کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے ’’اول خویش بعد درویش‘‘۔۔۔۔ |