قرآن وحدیث میں ظلم کی شدید مذمت کی گئی ہے ، اسلام نے اخلاق کے درس سے ظلم
کا خاتمہ کیا
آج کی مادی دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے صفت آدمیت دم توڑرہی ہے انسانوں
میں جذبۂ صلہ رحمی وجذبۂ محبت خال خال ہی نظر آتا ہے ایثاروقربانی کا جذبہ
مفقود نظر آتا ہے۔ آدم کی اولادیں آپسی چپقلش اور دلی رنجشوں کا شکار
ہوکراپنی شیرازہ بندی کو منتشر کرچکے ہیں۔ ایک انسان دوسرے پر ، ایک ریاست
دوسری ریاست پر اور ایک ملک دوسرے ملک سے برتری کے خواہشمند ہیں اس خواہش
کے متمنی ایک دوسرے پر ظلم جیسے رذیل فعل کو انجام دینے سے بھی گریز نہیں
کرتے اقتدار وطاقت وقوت کے نشے سے سرشار ظالم ان باتوں کو بھول جاتے ہیں کہ
ایک دن ظلم کا انجام برا ہونا ہے۔ فرمانِ نبوی ہے کہ ظلم قیامت کے دن
تاریکی ہوں گی جو شخص ایک بالشت زمین ظلم سے حاصل کرلیتا ہے اﷲ تعالیٰ اس
کے گلے میں ساتوں زمینوں کا طوق ڈالے گا بعض کتب میں مرقوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ
فرماتا ہے اس آدمی پرظلم میرے غضب کو بھڑکا دیتا ہے جس کا میرے سوا کوئی
مدد گارنہیں ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ایسی سینکڑوں مثالیں نظر آئیں گی جس میں
ظالم حکمرانوں کے تخت وتاج کے تارپود بکھرگئے۔ ایک دانشمند نے کہا ہے کہ جب
تو صاحبِ اقتدار ہوتو کسی پر ہرگز ظلم نہ کر کیونکہ ظلموں کا انجام شرمندگی
ہے تیری آنکھیں سوئیں گی مگر مظلوم کی آنکھیں جاگ کرتیرے لئے اﷲ تعالیٰ سے
بددعا کریں گی اور اﷲ تعالیٰ کبھی سوتا نہیں ہے ۔ میدان کربلا میں یزیدیوں
نے خانوادۂ رسالت پر ظلم وستم کیا نتیجتاً دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے ،
اقتدار کا خاتمہ ہوا اور آخرت کی دائمی رسوائی بھی مقدر بن گئی۔ اہل مکہ نے
اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا مگر اﷲ
پاک نے ظالموں کو شکست فاش دی اور اہل ایمان شاہانہ طمطراق کے ساتھ فاتحہ
مکہ بن کر شہر مکہ میں داخل ہوئے۔ ۱۸؍ویں اور ۱۹؍ویں صدی میں برٹش گورنمنٹ
نے ملک ہندوستان پر ظلم کا شکنجہ کسنا چاہا مگر علماءِ حق نے احقاقِ حق اور
ابطالِ باطل فرمایا اور ظالم اپنے کیفرِ کردار کو پہنچے۔ چیچنیا ، بوسینیا
، افغانستان اور عراق پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے مگر آج ظالموں کا انجام
ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ اسی لئے اسلاف کرام نے فرمایا کہ کمزوروں پر ظلم
نہ کر ورنہ تو بدترین طاقتوروں میں سے ہوجائے گا۔ذہن نشین رہے کفر کی حکومت
زیادہ دنوں تک پنپ سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت کی زندگی انتہائی مختصر ہوتی
ہے ۔پیغمبر اسلام کا واضح فرمان موجود ہے کہ مظلوم کی دعا کبھی رد نہیں کی
جاتی۔ مظلوم کی ایک آہ وکراہ بلند ہوتی ہے اور ظالموں کے ایوانوں میں زلزلے
بپا ہوجاتے ہیں۔ توریت میں مرقوم ہے کہ پل صراط پر منادی ندا کرے گا اے
شرکش ظالمو! اے بدبخت ظالمو! بے شک اﷲ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم یاد
فرمائی ہے کہ آج ظالم کا ظلم پل صراط سے نہیں گذرے گا یعنی ظالم پل صراط سے
نہیں گذرسکیں گے۔ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ظالم قیامت کے
دن آئے گا جب وہ پل صراط پر پہنچے گا، وہاں اسے مظلوم مل جائے گا اور اپنے
ظلم کو خوب پہچان لے گا۔ لہٰذا ظالم مظلوموں سے نجات نہیں پائیں گے، یہاں
تک کہ ظلم کے بدلے ان کی نیکیاں لے لیں گے اور ان کی نیکیاں نہیں ہوں گی
توان کے ظلم کے برابر اپنے گناہ ظالموں پر ڈال دیں گے تاکہ ظالم جہنم کے سب
سے نچلے طبقے میں بھیجیں جائیں گے۔ حتیٰ کہ حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا جو
ناحق ایک چابک مارتا ہے قیامت کے دن اس کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔
|