باسمہ تعالیٰ
گذشتہ دنوں۲۸؍اگست کوپورے ملک میں ہندؤں کے ایک بھگوان شری کرشناکا۵۲۴۰؍واں
جنم دن منایاگیا،جسے ہندولوگ جنم اشٹمی کے نام سے یادکرتے ہیں، یوں تو
ہندؤؤں کے یہاں روزکوئی نہ کوئی تہوارہوتاہی ہے،لیکن جنم اشٹمی کاتہواران
کے لیے خاص اہمیت کاحامل ہے،اس موقع پراسکولوں اورکالجوں میں بھی تقریبات
کاانعقادکیاجاتاہے جس میں بھگوان کرشناکی زندگی کے مختلف کرداروں پرمبنی
ڈرامے وغیرہ پیش کیے جاتے ہیں،اوراسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے چھوٹے
چھوٹے بچے ان کرداروں کواداکرتے ہیں،ظاہرسی بات ہے کہ ہندوستان ایک قدیم
ملک ہے جس کی اپنی قدیم روایات ہیں،اوربہت سارے دیومالائی قصے بھی
ہیں،اوران دیومالائی قصوں کے مطابق ان کے بہت سارے بھگوان ہیں اورہرایک کی
الگ الگ حیثیت بھی ہے،بھگوان کرشناسے جڑے بہت سارے قصے ہیں جن میں بچپن میں
مکھن کی چوری،گوپیوں کے ساتھ راس لیلاوغیرہ وغیرہ،اورجنم اشٹمی کے موقع سے
وہ ان ہی کرداروں پرمبنی ڈرامے پیش کرتے ہیں جیساکہ دسہرہ پوجاکے درمیان
رام ،سیتا،لکشمن اورراون کے کرداروں پرمبنی ڈرامہ ’’رام لیلا‘‘پیش
کیاجاتاہے،ان ڈراموں سے ہمیں کوئی لینادینانہیں ہے کیوں کہ یہ ان کامذہبی
معاملہ ہے،اورہندستان ایک سیکولرروایات کاحامل مذہبی ملک ہے جہاں ہرایک
کواپنے مذہبی روایات پرعمل کرنے کی آزادی ہے ،(یہ الگ بات ہے کہ کچھ سالوں
سے فرقہ پرست لوگ ایک خاص فرقہ کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرتے رہتے
ہیں)لیکن اس جنم اشٹمی کے موقع سے فیس بک پرشائع کی گئی کچھ پوسٹ ایسی تھیں
جس نے ذہن ودماغ کوجھنجھوڑکررکھ دیااوریہ سوچنے پرمجبورکردیاکہ آخرایک
مسلمان اس حدتک گرسکتاہے کہ اپنی مذہبی شناخت کوخوداپنے ہاتھوں ختم کرنے
پرتلاہے،اوردوسروں کی مشابہت اختیارکرنے کواپنے لیے فخرکی بات سمجھ رہاہے۔
یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ جب پورے ملک میں جنم اشٹمی کاتہواربڑے دھوم
دھام سے منایاجارہاتھا،اس موقع پرفیس بک کے صفحات پردوتصویریں
نظرآئیں،موجودہ دورمیں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بک بڑاتیزترین میڈیابن
چکاہے،جوخبریں اخبارات اورنیوزچینل چندگھنٹوں کے بعدپیش کرتاہے ،اسے بہت
پہلے ہی فیس بک پرشیئرکردیاجاتاہے ،یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ فیس بک کوغلط
مقاصدکے لیے بھی استعمال کرتے ہیں لیکن فی نفسہ موجودہ زمانہ میں فیس بک
ایک کارآمداورتیزترین میڈیاہے جس کے ذریعہ دعوتی کام بڑی آسانی سے
کیاجاسکتاہے۔تواسی فیس بک پرایک تصویر بہار کے پٹنہ سے تعلق رکھنے والی ایک
ماڈرن تعلیم یافتہ مسلم خاتون نے پوسٹ کی تھیں اوردوسری تصویرہندستان کے
ایک مشہوراردوروزنامہ کے مسلمان ایڈیٹرصاحب نے شیر کیا تھا، بہارکی جس
خاتون نے یہ تصویرپوسٹ کی تھی وہ تصویران کے بچے کی تھی جوکہ کرشناکے لباس
میں ملبوس تھااوراسکول کے جنم اشٹمی کے ڈرامہ میں حصہ لینے کے لیے
جارہاتھا،وہ بچہ اس تصویرمیں مکمل کرشناکابچپن پیش کررہاتھا اوراس تصویرکے
نیچے محترمہ نے بڑے فخریہ اندازمیں یہ تحریرلکھی
تھی’’میراچھوٹاکرشنا‘‘تصویرپہ نظرپڑتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اورزبان
سے بے ساختہ ’’استغفراﷲ العظیم‘‘نکل گیااورمیں نے اسے کمینٹ باکس میں لکھ
دیا،اتنالکھناتھاکہ وہ خاتون آپے سے باہرہوگئیں اورانہوں نے مجھ سے کہاکہ
اپنا کمینٹ ہٹاؤ،میں نے کہاکہ نہیں میں نہیں ہٹاسکتا،اس پرانہوں نے اوران
کی ایک اوردوست نے بنیادپرست کاخطاب دیتے ہوئے مجھے بلا ک کردیا،میں نے
جواباکہاکہ اگر مذہب پرسختی سے عمل کرنے کانام ہی بنیادپرست ہے تومجھے
فخرہے کہ میں بنیادپرست ہوں،اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ میں عملی مسلمان
ہوں اورتم جیسے بنیادپرست لوگوں کے اسلام کوبھی خوب جانتی ہوں،اتناکہہ
کرانہوں نے رابطہ منقطع کرلیااورمیں اس سوچ میں گم ہوگیاکہ عملی مسلمان
کیاہوتاہے،ایک طرف تواپنے عمل سے غیرمذہب کی روایات کو اپناتے ہوئے اس کے
بھگوان کی مشابہت اختیارکرنے کواپنے لیے فخرکی بات سمجھ رہی ہیں دوسری جانب
یہ دعویٰ ہے کہ وہ عملی مسلمان ہیں۔جب کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا
واضح ارشادہے:’’من تشبہ بقوم فہومنہم‘‘(رواہ الطبرانی)کہ جوشخص جس کی
مشابہت اختیارکرے وہ ان ہی میں سے ہے،اسی طرح ایک دوسری حدیث میں اﷲ کے
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:’’المرء مع من احب‘‘(رواہ مسلم)انسان
کاحشراسی کے ساتھ ہوگاجواس کوپسندہوگا،ذراغورکریں ان احادیث پراورسوچیں کہ
جولوگ اپنی مذہبی روایات کوچھوڑکرغیرمذہب کی باتوں کواپنانے میں فخرمحسوس
کرتے ہیں اﷲ کے نزدیک ان کاکیاحشرہوگا۔ان والدین کے لیے یہ تازیانہ عبرت ہے
جواپنی اولادکواس طرح کے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں جویاتوغیرمسلموں کے ہیں
یاپھرجن پربے دینوں کاقبضہ ہے،بچپن میں جس ماحول میں بچہ تربیت پاتاہے اپنی
پوری زندگی اسی ماحول کے مطابق گذارتا ہے توبھلاایسابچہ جواپنی زندگی کے
ابتدائی اہم ایام غیروں کی تربیت میں گذارے گاہم کیسے امیدرکھیں کہ مستقبل
میں وہ بچہ عمربن عبدالعزیزؒ،شیخ عبدالقادرجیلانیؒ،امام غزالیؒ اورمحمدبن
قاسمؒ کے نقش قدم پرچلے گا،اس کی زندگی میں توکرشنااوررام لکشمن کی جھلک
پائی جائے گی،اس کامطلب یہ ہواکہ ہماری آنے والی نسل نام سے تومسلمان ہوگی
لیکن شکل وصورت اورعمل وکردارسے اسلام سے اس کادوردورکابھی واسطہ نہیں
ہوگا۔
اسی طرح ایک دوسری پوسٹ جوکہ مشہوراردوروزنامہ کے ایڈیٹرصاحب نے فیس بک پر
شیرکی تھی،انہوں نے بڑے فخرکے ساتھ اسے گنگاجمنی تہذیب کی علامت قراردیا
تھا ، میں نے ان ایڈیٹرصاحب کے پوسٹ کے جواب میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کی یہ حدیث پیش کی تھی لیکن انہوں نے اس کاکوئی جواب نہیں دیا،محترم
ایڈیٹرصاحب ایک قابل اوراعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں،جہاں دیدہ ہیں اس کے
ساتھ ہی اسلامی علوم پہ بھی انہیں مہارت حاصل ہے لیکن ان سب کے باوجوداس
طرح کی چیزوں کوگنگاجمنی تہذیب کی علامت اورسیکولرروایات کی پاسداری
بتانااپنے اندرایک وسیع معنی رکھتی ہے،انہیں سورۂ کافرون کاشان نزول معلوم
ہوناچاہیے کہ جب مشرکین مکہ اسلام کے روزبروزپھیلاؤ سے عاجزآگئے اوران کی
چودھراہٹ ختم ہونے لگی توان کے ذہن میں یہی گنگاجمنی والی شیطانی ترکیب
سوجھی اورانہوں نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات پرمصالحت کرنا
چاہاکہ ٹھیک ہے ہم لوگ توآپس میں بھائی بندے ہیں،ایک ہی خاندان سے ہیں
اورایک ہی قبیلے سے ہیں کیوں نہ ایساکریں کہ ایک دن آپ ہمارے معبودوں
کوپوجیں اورایک دن ہم آپ کے خداکی عبادت کریں،بھائی چارگی بھی باقی رہے گی
اورآپس کے اختلافات بھی ختم ہوجائیں گے ایسے ہی موقع پراﷲ نے سورۂ کافرون
نازل کی اوراپنے محبوب کوحکم دیاکہ ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس معبودکی
عبادت نہیں کرسکتاجس کی تم عبادت کرتے ہولہٰذاتمہارے لیے تمہارادین ہے
اورمیرے لیے میرادین ہے۔براہوسیاست کاکہ اس نے سیکولراورگنگاجمنی تہذیب
جیسی واہیات اورمہمل اصطلاحات کوجنم دے کرمسلمانوں کی شناخت کوختم کرنے کی
ناپاک کوشش کی ہے،سیکولرملک ہونے کایہ مطلب نہیں ہوناچاہیے کہ ہم تمہاری
مذہبی شناخت کواپنے اندرضم کرلیں اورتم ہماری تہذیب کواپنالو،بلکہ اپنے
اپنے مذہب پرعمل کرتے ہوئے آپس میں بھائی چارگی کی مثال قائم کرناہی اصل
میں جمہوریت اورسیکولرازم ہے،اسی طرح ایک اوربری روایت شامل ہوگئی ہے اوروہ
ہے ٹوپی پہنانے کی روایت ،نہ جانے ان نام نہادمسلم لیڈروں کوکیاہوگیاہے کہ
وہ ہرکس وناکس کوٹوپی پہناتے رہتے ہیں،انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ ایک
معمولی سی ٹوپی پہن کرمسلمانوں کوزندگی بھربڑاٹوپاپہناتے رہتے ہیں
اورمسلمان اسی میں خوش کہ فلاں نے ٹوپی پہن لیاوہ سیکولرلیڈرہے،افسوس
کامقام ہے۔
غوروفکرکامقام ہے اورمسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اس وقت مسلمان
ہرچہارجانب سے نرغے میں ہے،کہیں تومسلمانوں کے جان کے لالے پڑے ہیں اورکہیں
فکری وتہذیبی یلغارہے،یادرکھیں جان ومال کانقصان وقتی نقصان ہے لیکن فکری
یلغارنسل درنسل کوتباہ کرنے کی منظم عالمی سازش ہے جس کاشکارآج کامسلمان
ہورہاہے،اس فکری اورتہذیبی یلغارسے بچانے کے لیے ہمیں اپنی اولادوں کے لیے
ایسی تعلیم گاہوں کاانتظام کرناہوگاجودین دارہاتھوں میں ہو،جہاں اسے رام
اورکرشنا کے غیراسلامی کرداروں کے بجائے اسے صحابہ،صحابیات،تابعین اورتبع
تابعین،ائمہ اوراولیاء کے کرداروں کواس کے ذہن نشین کیاجائے اسے یہ
بتایاجائے کہ ایک مسلمان بچہ کاآئیڈیل کوئی متنازع اوردیومالائی کردارنہ
ہوبلکہ اس کاآئیڈیل ایک نیک اورصدق وصفاسے متصف صحابہ اورصحابیات
کاکردارہو،تابعین اورائمہ واولیاء اس کے آئیڈیل ہوں،اوراس کے بعدہی ہم کسی
عمربن عبدالعزیز،شیخ عبدالقادرجیلانی،امام غزالی اورمحمدبن قاسم کودیکھ
سکیں گے،امام نانوتویؒ اورشیخ حسین احمدمدنیؒ جیسے کرداروں کے حامل
اورابوالحسن علی ندویؒ اورقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ جیسے بلندپایہ علماء
وفقہاء ہمارے اندرتیارہوسکیں گے ،اوراس کے لیے ضرورت ہے کہ مسلمان آپسی
اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے مسلم بچوں کی بہتراسلامی تعلیم وتربیت
کاانتظام کریں،ایسانہیں ہے کہ اس وقت اس طرح کے اسکول نہیں ہیں،الحمدﷲ اس
وقت ہندستان کے تقریباسبھی علاقوں میں اسلامی اسکول موجودہیں لیکن وہ
ناکافی ہیں،اس طرح کے مزیداسکولوں کے قیام کی ضرورت ہے،بلکہ اگرہندستان کے
ہرگاؤں میں ایک اسلامی اسکول قائم کردیاجائے توانشاء اﷲ مسلمان اپنے بچوں
کوغیرمسلم اسکولوں سے دوررکھ کراسلامی ماحول میں تعلیم دلائیں گے۔٭٭٭ |