ڈاکٹر اور ڈکٹیٹر

رات کے کوئی ۳ بجے کا وقت تھا مجھے اپنے خالہ زاد بھائی کی کال آئی کہ جلدی سے جنرل ہسپتال آجاؤ ابا جی کی طبیت بہت خراب ہے تو میں بڑے بھائی کے ساتھ پہنچ گیا ۔ ادھر ڈاکٹر حضرات نے جواب دے دیا تھااور کہا کہ آ پ انکو گلاب دیوی ہسپتال لے جائیں تو ہم فو راً ایمبولینس میں گلاب دیوی کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ گئے۔ علا ج شروع ہو چکا تھا اور اس کے لیے جو مشین استعمال کی جارہی تھی وہ آپ کی اور میری فہم سے بالا تر ہے یہ میں نہیں کہ رہا یہ اسی وارڈ کی ایک نرس نے مجھے اطلا ع دی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ جب خالو کو بیڈ پر سلا کے اس مشین کے کچھ پائپ انکے سینے پر لگائے گئے تو میں نے موقع غنیمت جانا اور محترمہ سے دریافت کر لیا کہ میڈم آپ مجھے بتا دیں کہ اسکی سکرین پرجو گراف چل راہ ہے انکو نارمل ہونے کے لیے اسکی کیا والیوز ہونی چاہیے بس جی میرا پوچھنا ہی کیا تھا محترمہ نے تو مجھے ایسے گھورا جیسے میں نے انکے بیگ میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔اس نے مجھے سختی سے کہا کہ تمہارا اس سے کوئی مطلب نہیں ہے چلو تم باہر جاؤ تو میں نے ایک لمحہ کے لیے سو چا کہ کیو ں نا میں اس مشین کا نام ہی پوچھ لوں تاکہ میں اس کے بارے میں انٹرنیٹ کے ذریعے جان سکوں خیر اسی غرض سے میں نے نام پوچھ لیا تو میڈم نے کہا کہ یہ تم لوگوں کی فہم سے بالا تر ہے آپ جاؤ آرام سے باہر انتظار کرو انکے ٹھیک ہونے کا اور دعا بھی کرو۔۔۔ تو میں نے اسکا فقرہ پورا کیا کہ آپ سے ٹھیک ہونے کا! جو لوگ اپنے علم کو اپنے دماغوں میں دبا لیتے ہیں وہ اس علم کو پھر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رکھ سکتے۔۔

بات ابھی یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ یہی سے شروع ہوتی ہے۔ دوسرے دن ہمیں آئی سی او وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ اب یہاں کے قوانین بھی کچھ اور تھے جنکی تفصیل ابھی ضروری نہیں البتہ ایک قانون یہ تھا کہ رات کے وقت مریض کے ساتھ صرف ایک شخص رہ سکتا ہے۔ اب دن کو بھائی رہتے تھے اور رات کو میں نے رہنا تھا۔ میں گھر سے اپنا ایک تکیہ اور چادر لے کر گیا تھا کیوں کہ ظاہر ہے مجھے بھی آرام کی ضرورت تھی۔ میں رات کے تقریباً ایک بجے چادر فرش پر بجھا کر سونے ہی لگا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا ایک میل نرس دوڑتا ہواآیا اور وہ سب کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کے اٹھا رہا تھا۔ میں نے سو چا کہ شا ید زلزلہ آ گیا ہے جب میں نے اٹھ کر دیکھا تو ایک چھوٹے سے قد کا آدمی کھڑا تھا اور اس کے ارد گرد تین چار گارڈ بھی کھڑے تھے وہ شخص بڑے غصہ میں باتیں کر رہا تھا مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کو ئی آرمی سے آفیسر آیا ہو جسکی وجہ سے سب پر اتنی سختی آئی ہوئی ہے۔ جب سب اٹھ گئے اور اپنا اپنا بستر لیپیٹ کر اپنے مریض کے پیروں والی سائیڈ پر بیٹھ گئے ان میں سے کوئی تو خود مریض تھے کچھ بوڑھی عورتیں بھی تھی اور کچھ مزدور بھی تھے۔ خیر جب سب بے آرام ہو گئے تو وہ صاحب رخصت ہو گئے ۔ میں میل نرس کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ آخر یہ صاحب کون تھے؟ اس نے بتایا جنا ب یہ اس ہسپتال کے ایم ایس تھے اور انکا جب بھی دل چاہتا ہے کو ئی نہ کوئی عجیب حکم صادر فرما دیتے ہیں اب آپ خود دیکھو کہ جو بھی مریض کے ساتھ آ یاہے آخر وہ بھی تو انسان ہے اسے بھی تو آرام کی ضرورت ہے اور نیچے سونے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے اگر ہر بیڈ کے ساتھ ایک بنچ ہو تا توگزارا ہو جاتا تیمار داری کرنے والا ساری رات بے سکون رہتا ہے اور صبح تک ایک اور مریض کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

لیکن بات ابھی یہاں تک بھی ختم نہیں ہوتی میرے بھائی کے پاؤں کے انگھوٹھے کا ناخن خراب تھا کافی عرصے سے تو بھائی نے کہا چلو یار ہم چل کے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں کہ کیا کیا جائے تو میں نے سو چا ٹھیک ہے میرے بھی ہاتھ کی کلائی میں کافی دن سے درد ہے تو میں بھی چیک کروا لوں گا۔ ہم جنرل ہسپتال کے سامنے ایک پرائیوٹ سرجن کے پاس پہنچ گئے لیکن اس تک پہنچنے سے پہلے ہمیں ایک جرمانہ ادا کرناپڑا ہم نے فرنٹ ڈیسک پر بیٹھے شخص سے پوچھا سرجن صاحب ہیں انہوں نے کہا جی ہیں ہم نے کہا چیک اپ کروانا ہے اس نے کہا جی آپ تشریف فرمائیں اور ٹھیک پانچ منٹ بعد پانچ سو کی پرچی ہمارے سامنے تھی ہم نے کہا جناب ہم نے صرف چیک کروانا ہے جب کوئی علاج کروائیں گے تب ہی پیسہ دیں گے نہ تو اس نے کہا جنا ب چیک کرانے کے بھی پیسہ ہیں اور علاج کرانے کے بھی الگ پیسہ ہیں تو خیر پانچ سو دینے پڑے ۔ بھائی نے مجھ سے سوالیہ انداز سے پوچھا تم نے بھی چیک اپ کروانا ہے تو میں نے کہا او نہیں نہیں مجھے ابھی ابھی آرام آ یا ہے۔

ڈکٹیٹر لفظ فوج کے لیے استعمال ہوتا ہے ایک ڈکٹیٹر اپنی بات کو منواتا ہے او ر چاہے طریقہ کوئی بھی ہو۔ اپنی من مانی کا مالک ہوتا ہے۔ بلکل اسی طرح ہمارے معاشرے کے ڈاکٹر بھی کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہوتے۔ یہ ڈاکٹر اپنی پہلی ڈکٹیشن نسخہ لکھتے وقت استعمال کرتے ہیں ڈاکٹر نے جو دوائی جس کمپنی کی لکھ دی ہم پر واجب ہے کہ اسی کمپنی کی ہی دوائی لیں چاہے بلکل اسی فارمولے کے تحت کسی اور کمپنی کی دوائی ہو لیکن ڈاکٹر اس سے اعتراض کرے گا اسکی وجہ بھی ایک بہت لمبی کہانی ہے۔

گلاب دیوی کی نرس نے کیوں ایک ڈیکٹیٹر جیسا رویہ رکھا؟ کیوں کہ میں الف بے بھی نہیں جانتا تھا اس مشین کے بارے میں اور یہی بات وہ نرس جانتی تھی۔۔۔ وہاں کے ایم ایس نے کیوں آدھی رات کو آ کر سب کو جھاڑ کے اٹھا دیا تھا کیوں کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے اگر ہم اس سے بحث کرتے تو وہ ہمیں ہمارے مریض سمیت باہر نکال دیتا اور ہم کچھ بھی نہ کر سکتے کیوں کہ ہمیں اپنی اتھارٹی کا نہیں پتہ ۔ اس سرجن نے ہم سے صرف چیک اپ کے لیے یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ ہم سے بات کرنے کے لیے پانچ سو اس لیے کیوں کہ ہم نہیں جانتے تھے جو وہ جانتا ہے۔۔

اس وقت ہمارے معاشرے میں جو ڈاکٹر ز کی اجارہ داری ہے اسکی وجہ ایک عام شخص کی میڈیکل سے بلکل لا علمی ہے۔ اگر ہمارے گھر میں کوئی سوئچ خراب ہو جائے تو ہم زیادہ نہ سہی کچھ نہ کچھ ضرور اس کے بارے میں جانتے ہیں، کوئی فرش ٹوٹ جائے بنا سکتے ہیں ہماری گاڑی خراب ہو جائے ٹھیک کر سکتے ہیں اور ایسے کئی بے شمار کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں لیکن واحد میڈیکل ایک ایسا شعبہ ہے جس میں اگر کوئی شخص ریاضی، اسلامیات ،اردو یا پھر فزکس میں چاہے پی ایچ ڈی ہی کیوں نا ہو لیکن وہ جب ایک ڈی ایچ ایم ایس کے سامنے ہی کیوں نہ بیٹھا ہو وہ بے بس دکھائی دے گا اورڈاکٹر اسے چاہے جو بھی دوائی دے اسے بغیر پوچھے کہ یہ کونسی ہے کیا فارمولا ہے؟ یا پھر یہ کہے کہ میں اس کمپنی کی نہیں کسی اور کی لے لیتا ہوں وغیرہ وغیرہ نہیں پوچھ سکتا اسے بس کھانا ہے۔۔۔

اگر ہمیں ڈاکٹروں کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہے تو ہمیں کم از کم انٹر میڈیٹ تک میڈیکل کے ان مضامین کو مثلاً ایک مختصر کتاب ہو معدہ، جگر، دل، گردہ ،سکن، چہرہ اور دماغ پر بنیادی باتیں ہونی چاہیے اور ان کے بنیادی علاج کے طریقہ کار بھی ہونے چاہیے۔ تاکہ جب کوئی پڑھا لکھا شخص ہسپتال میں جائے تو وہ وہاں پر اندھا گونگا اور بہرہ نہ ہو۔ یہی ایک طریقہ ہے ان ڈیکٹیٹر ڈاکٹروں کی جمہوری انداز سے اجاراہ داری کا استحصال کرنے کا۔ ۔
Saddam Taj
About the Author: Saddam Taj Read More Articles by Saddam Taj: 9 Articles with 7702 views I am nothing.... View More