سود سے نجات صرف نیت کی ضرورت

بیگم ڈاکٹر محمد رفیق مرزا

کبھی ہم نے سوچا ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے اوپر آزمائشیں نہیں بلکہ اﷲ کی طرف سے عذاب کیوں آ رہے ہیں؟۔ آزمائش تو وہ ہوتی ہے جس کی تکلیف انسان کو اﷲ کی طرف رجوع کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی ، صراط مستقیم کو سمجھنے اور پانے کی جستجو پیدا کر دیتی ہے مگر عذاب تو وہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اﷲ اور رسولؐ کے احکامات سے بغاوت کی حد تک روگردانی اور منافقت کی حد تک تاویلیں اور دلیلیں دینا شروع کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ سود اﷲ اور رسول ؐ سے کھلی جنگ ہے اس کے ذریعے کمائی گئی رقم حرام ہے اور حرام کی کمائی سے کھایا ہوا رزق بھی حرام ہے۔ حرام کے رزق سے پلنے بڑھنے والے کا وجود ہی بلاتبصرہ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اگر کعبہ کی دیواروں سے بھی لپٹ کر رو رو کر دُعا مانگے تب بھی اس کی دعائیں قبول ہوں۔ بیداری فکر فورم میں اخوت کے بلاسود چھوٹے قرضوں کی فراہمی اور وصولی کی کامیابی کی داستان فضل الٰہی مغل نے بیان کی تو ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے قرآنی آیات کی روشنی میں سود خوروں کے انجام سے اچھی طرح باخبر اور خبردار بھی کردیا۔

منافق کون ہوتا ہے جو قرآن مجید اور رسول پاکؐ کے اسوہ اور فرمودات کو اچھی طرح جانتا ہے اور سمجھتا بھی مگر اپنے ذاتی دنیاوی فائدے کے لئے دین کی تعلیمات جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں بہت سے مقام ایسے آتے ہیں جہاں ہماری اپنی مالی استطاعت کسی کام کے پورا کرنے کے لیے کم پڑ جاتی ہے۔ ذاتی ضرورتوں یا پھرکاروباری معاملات میں یا پھر کسی خرید و فروخت کے سلسلے میں مزید رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ عموما بینک اور سود خور دولت مند ہمیشہ آپ کی مدد کے لیے تیار ملیں گے۔ آپ کو ہزار کی ضرورت ہے تو وہ دس ہزار دیدیں گے۔مگر جب ہم نے سود سے بچنے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہم تو اس طرف جائیں گے ہی نہیں۔ اب راستہ یہ رہ گیا ہے کہ ہم عزیز و اقارب اور دوست احباب سے رابطہ کریں اور قرض حسنہ کے طور پر رقم لینے کی کوشش کریں۔ مگر آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ آپ وقت مقررہ پر رقم واپس ادا کر دیں۔ جب معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا تو یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایسے لوگ بھی پیدا ہوجائیں جو مل کر رقم کو Pool کرلیں اور ضرورت مند کی مدد کریں۔ یا پھر آپ خود اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی کوئی پس انداز کی ہوئی قیمتی چیز کو فروخت کردیں اور اگر یہ سب کچھ ممکن نہ ہو تو اپنی ضرورت کا از سر نو جائزہ لیں اور صرف اتنا کام کریں یا وہ چیز لیں جو آپ کی استطاعت کے اندر ہو۔یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوگا مگر یقین جانئے کہ دنیا کی یہ زندگی چند روزہ ہے اور اس کو بہتر بنانے کی خاطر آخرت کا عذاب مول لینا یقینا صاحب عقل و دانش کے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کی زندگی بھی آپ کی اپنی ہے اور آخرت میں جو ہوگا وہ بھی آپ کا اپنا ہی ہوگا۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ جب آپ سے کوئی مدد کا طالب ہو اور آپ کے پاس اﷲ کی عطا سے گنجائش بھی ہو تو مصیبت زدہ کی مدد ضرور کریں۔ اسی سے معاشرہ میں بھلائی پرورش پائے گی اور وقت کے ساتھ اس کی اچھی اورفائدہ مند شکلیں پیدا ہو جائیں گی جو سود سے پاک بھی ہوں گی اور اﷲ کی رضا کا باعث بھی۔انشا اﷲ۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.