ویل ڈن ! عبدالقادر…………ویل ڈن

مغربی تہذیب در حقیقت وہ خنجرتھا جس سے اسلامی ریاست پر حملہ کیا گیا اور اس طرح مجروح کیا گیا کہ ریاست نے دم ہی توڑ دیا۔ پھر اسی خون آلودہ خنجر کو اس ریاست کے بیٹوں کو بڑے فخر سے دکھایا گیا کہ ہم ن اسی سے تمہاری ماں کو ختم کیا کیونکہ وہ بیمار تھی اور ایک ماں ہونے کا حق نباہ نہیں پارہی تھی اور اب تمہارے لئے ایک ایسی زندگی ہوگی جسمیں تم خوشیوں اور خوشحالی کے مزے لوٹوگے پھر ان بیٹوں نے اسی قاتل سے ہاتھ ملالیا جس کے ہاتھ کے خنجر پر اب بھی وہ خون تھا جوکبھی ان کی ماں کے جسم میں گردش کرتا تھا۔یہی وہ خنجر تھا کہ جس کا زہر ہماری ایک مخصوص کلاس میں سرایت کر گیا اور اتنے حدتک سرایت پذیر ہوگیا کہ اس کے غلیظ اثرات نے ہماری سوسائٹی بالخصوص نسل نوکو مدر پدر آزاد کردیا اور یہی وجہ ہے کہ ایلیٹ کلاس کہلوانے والے لوگوں کی اولاد اسلامی قدروں کو پامال کرتے ہوئے اس قدر مغرب زدہ اور ہندوپرست ہوگئی ہے کہ ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر نگاہیں شرم سے جھک جاتیں ہیں مگر حیف ہے ان والدین پرجن کی نگاہوں میں شرمندگی کی بجائے اولاد کیلئے تفاخر اور شرمندہ ہونے والوں کیلئے تمسخر موجود ہے اور کیوں نہ ہو کہ جب یہ اولاد پیدا ہوتی ہے ان کے کان میں اذان کی آواز کی بجائے گانے کی آواز سنائی جاتی ہے ان کے منہ میں پہلا قطرہ بھی امپورٹڈ لیکوڈ کا دیا جاتا ہے۔ اور پھروالدین بالخصوص عورتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے انگریز کی اولاد دکھا ئی دیں اور اکثر بیشتر جب والدہ بچے کو تیار کرکے دادی کے پاس لاتی ہے اور کہتی ہے کہ دیکھو اماں یہ ایسے لگتا ہے جیسے کہ انگریز کا بچہ ہوتو دادی کہتی ہے خدا کی قسم یہ تو ہمارا ہے ہی نہیں کسی انگریز کا تخم لگتا ہے اور انگریز ہونے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے

جب معاشرے میں اس قسم کی سوچ پروان چڑھ رہی ہوتو پھر اس قسم کے واقعات کا منظر عام پر آنا ایک عام بات سمجھی جاتی ہے کہ منچلے لڑکیاں اور لڑکے mud فیسٹیول (غلاظت کے میلے )ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے اپنے جسموں اور منہ پر غلاظت ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ مشہور کہاوت ہے کہ مکھی ہمیشہ گندگی پر بیٹھنا پسند کرتی ہے ۔قانون قدرت دیکھئے کہ بے حیا لڑکے لڑکیوں نے اپنی خوشی سے غلاظت میں نہانا پسند کیا اور دنیا میں دکھایا کہ میرے اور میرے نبی ؐکی نافرمانی اور ان کے احکامات کا مذاق اڑانے والوں کو کس طرح ذلیل ورسوا کرتا ہوں۔ جی ہاں جب معاشرے میں بے راوی عام ہو جاتی ہے والدین فری ہینڈ دے دیتے ہیں اور اولاد کی نفسانی اور مجرمانہ خواہشات کو بخوشی قبول کیا جاتا ہے اور سپورٹ کیا جاتا ہے تو پھر شاہ رخ اور شاہزیب جیسے واقعات کا وقوع پذیر ہونا ایک ضروری امر ہے ۔ مزید ہٹ دھرمی کہ مظلوم کو پریشرائز کرکے پیسے کی چمک دکھا کر معافی حاصل کرنا اور پھر وکٹری کا نشان بنانا ،قلم بیان کرنے کی سکت کے قابل نہ ہے۔ایک کالج میں ثقافت کے نام پر ایک کلچرل شو منعقد کیا جانا اور ثقافت کے نام پر اسلامی اور پاکستانی ثفاقت کی دھجیاں اڑانے کو status symbol کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ اس پروگرام میں ان تمام خرافات کوبڑی دیدہ دلیری اور بے غیرتی و بے حیائی کے ساتھ مغربی اور ہندو کلچر کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نجانے یہ مغرب زدہ کن کی اولاد ہیں۔یہاں پر بچے اور والدین ایک ہی رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں

دوسری طرف اولاد وہی ہے ناہنجار! مشہور و معروف کرکٹر عبدالقادر کا بیٹاعبدالرحمن قادر ایک جوئے کی محفل میں جوا کھیلتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔پولیس سٹیشن لایا جاتا ہے۔پولیس کی جانب سے عبدالقادر کو فون جاتا ہے لیکن وہ کوئی بھی سفارش کرنے سے انکار کردیتا ہے بلکہ اپنے بیٹے کو عاق کردیتا ہے۔ جب میڈیا اس حوالے سے عبدالقادر کے ویوز لیتا ہے اور عبدالقادر جو جواب دیتا ہے وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں’’میں نے ساری زندگی دولت نہیں کمائی میں نے زندگی میں اگر کچھ کمایا ہے تو عزت کمائی ۔یہ واقعہ میرے لئے دردناک، افسوسناک اور شرمناک ہے۔ میں عدالت سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ عبدالرحمن قادر کو سخت سے سخت سزا دے‘‘ الزامات کے بارے میں بھی ان کے الفاظ ملتے جلتے تھے کہ یہ الزامات نہیں ہیں بلکہ سچ ہے وہ اپنے بیٹے کے کئے پر پردہ نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات پر ہر مسلمان کو عمل کرنا چاہئے ۔آج ہم مسلمان اپنے قریبی عزیزوں دوستوں کی حمایت اور طرفداری کرتے ہوئے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کی نفی کرتے ہیں جس سے ہماے پورے معاشرے میں خرابی پیدا ہوگئی ہے۔انہوں نے اولاد کو تنبیہ کی کہ انہیں اپنے والدین کی عزت اور نیک نامی کا باعث بننا چاہئے نہ کہ ان کی بدنامی کا۔ میں اس معاشرے سے مایوس ہوچکا ہوں کہ جب بھی آزمائش کا وقت آتا ہے تو ہم اکثر مسلمان اپنی اولاد ،رشتہ دار ،دوستوں ،خاندان اور قبیلے والوں کی غلطیوں، ان کے گناہ اور جرم پر پردہ ڈالتے ہیں۔اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں یہ سب تعلیمات اسلامی کے منافی ہے
قارئین کرام! اوپر بیان کردہ واقعات میں بھی والدین ہیں جو کہ اپنے بچوں اور اولاد کیلئے تمام جائز و ناجائز حربے استعمال کرکے انہیں اس حالت تک پہنچاتے ہیں ان کی ہلا شیری سے وہ ہر غلط ،خلاف شریعت اور ناجائز کام کو صحیح جان کر کرنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور معاشرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں۔دوسری طرف عبدالقادر جیسے والدین(خال خال) ہیں جوکہ اولاد کو سدھارنے کیلئے ان کی غلطیوں پر پردہ نہیں ڈالتے بلکہ ببانگ دہل ان کی سرزنش کرتے ہیں اور انہیں سزاوار جانتے ہیں۔اور یقینا ایسے لوگ لائق تحسین ،قابل تقلید اور سیلیوٹ کے حق دار ہیں-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192908 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More