آئینہ اور تبدیلی والے پاپڑ

آئینہ ان لوگوں کو دکھانا جو اپنی شکل دیکھناہی پسند نہیں کرتے یا انہیں اپنے چہرے پر پڑی گندگی سے اتنی محبت ہوگئی ہو کہ وہ کسی اور چیز کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے یا پھر اپنی پسند کے منظر دیکھنے کے خواہشمند ہوں ایسے لوگوں کو ان کے ارد گرد سے باخبر رکھنا یقینا دل گردے کی بات ہے راقم کے کچھ ساتھی ایک مخصوص پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی گالیوں دھمکیوں سے بچنے کیلئے اب انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے شائد یہ بھی خود فریبی کی ایک مثال ہو کہ جانتے بوجھتے سچ کو چھپا لیا جائے اور وہی کچھ لوگوں کو دکھایا جائے جو ان کو پسند ہو تو یقینا یہ اس قلم کیساتھ زیادتی ہوگی جسے اللہ نے بطور گواہ پیش کیا ہے قرآن کریم میں، اللہ تعالی یقینا جس طرح ہر انسان سے اس کی زندگی کے ہر سیکنڈ کا حساب کریگا اسی طرح راقم جیسے حقیر انسان سے بھی پوچھے گا کہ اے میرے بندے اگر قلم تیرے ہاتھ میں دیاتھا تو اس قلم سے میرے بند ے تو نے کیا کیا لوگوں کو خوش کرنے کا طریقہ سیکھا پیٹ کا دوزخ بھر ا یا پھر حرام کمانے کیلئے استعمال کیا اور یہ سوال ہر صاحب قلم سے ہوگا سو جن لوگوں کو راقم کا سچ برا لگتا ہے تو لگتا رہے کیونکہ رازق اللہ تعالی ہے اور زندگی موت دولت عزت و ذلت سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے اس لئے راقم اللہ تعالی سے مددگار کا خواستگار ہے-

ویسے بھی میری مثال اس بچے جیسے ہوگئی ہے جس کو سچ بولنے کی بیماری ہے اور اسی سچ کی وجہ سے ہر وقت اس کے اپنے گھر میں پٹائی ہوتی ہے ایک دن اسی بچے کی ایک دور کی رشتہ دار خاتون اس بچے کے گھر آئی جب گھر والوں کی طرف سے بچے کی پٹائی کا منظر دیکھا تو افسوس ہوا اور گھر والوں کو راضی کیا کہ اس بچے کو وہ اپنے گھر لے جائیگی گھر والوں نے بہت سمجھایا کہ یہ بچہ بڑا منہ پھٹ ہے اس لئے اسے ادھر ہی چھوڑ دیں لیکن رشتہ دار خاتون بچے کو اپنے گھر لے آئی آتے ہی پوچھا کہ تمھارے ساتھ گھر والے کیوں اتنی سختی کرتے ہیں بچے نے جواب دیا کہ میں سچ بولتا ہوں جو کسی کو پسند نہیں آتا خاتون نے جواب دیا کہ بس بیٹا آج سے ڈرنے کی ضرورت نہیں سچ بولو یہاں کوئی تمھیں نہیں مارے گا - دوسرے دن وہی بچہ گھر میں دوسرے بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا کہ وہی خاتون آئی اور بچے سے پوچھا کہ بیٹا کوئی مسئلہ تو نہیں سچ تو بول رہے ہو بچے نے خوفزدہ نظروں سے اس خاتون کو دیکھا اور جواب نفی میں دیا - خاتون نے کہا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں کہہ دیا کرو بچے نے جواب دیا کہ اگر ابھی سچ بول دیا تو آپ میری پٹائی کرینگی -بچے نے خاتون رشتہ دار کی یقین دہانی پر آخر کار سچ بول ہی دیا اور کہ خالہ"آپ بوڑھی بھی ہیں مجھے یہ بتائیے گا کہ اس عمر میں آپ کو لپ سٹک اور مسکارا لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے اللہ اللہ کرنے کی عمر ہے یہ لڑکیوں والے فیشن چھوڑ دیں اپنی عمر کا خیال کریں" یہ سننا تھا کہ اسی خاتون رشتہ دار نے جو بچے کو اپنے ساتھ لیکر آئی تھی جوتا اتارا اور بچے کی پٹائی شروع کردی - سو لالٹین اور تیر والی سرکار کے دور میں راقم پر الزام لگتا رہا کہ یہ تبدیلی والی سرکار کا پٹھو ہے کئی نزدیکی دوست اس معاملے پر ناراض بھی ہوگئے کیونکہ لالٹین اورتیر والی سرکار کے حق میں لکھنا ہی نہیں آتا ا س وقت تبدیلی والی سرکار کے جذباتی کارکن بڑے خوش ہوتے تھے اب تبدیلی والی سرکار کا دور ہے اور اسے ہم آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو لالٹین والے اور تیر والے بڑے خوش ہوتے ہیں حالانکہ ہم اپنی عادت سے مجبور ہیں کیونکہ حکمرانوں سے عوام کا حساب ہوگا اور ہم اسی حساب کا سوچ کران کو آئینہ دکھاتے ہیں جس پر تبدیلی والی سرکار کے کارکن گالیاں بھی دیتے ہیں خیر ہم پہلے بھی دعا کرتے تھے اب بھی ان جیسوں کیلئے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں اور عزت دے-

عزت پر یاد آیا کہ چند دن قبل تبدیلی والی سرکار کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء تنظیم کا ایک گروپ صحت کے محکمے پر براجمان وزیر کے دفتر گیا جہاں پر ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے دیکھا کہ وزیر صحت کی سیٹ پر چھوٹا بھائی بیٹھا ہوا ہے اور وہاں پر تعینات اہلکاروں سے بدتمیزی سے پیش آرہا ہے،اس کا رویہ ایسا ہی ہے جیسے کہ وہ خود وزیر ہو نظریاتی طلباء نے بھی یہ صورتحال دیکھی اس دوران طلباء کیساتھ بھی بدتمیزی ہوئی اور پھر انہی طلباء نے وزیر کے بھائی کی خوب عزت افزائی کی صورتحال یہاں تک پہنچی کہ کلاشنکوف بردارپہنچ گئے لیکن حالات پھر بھی کنٹرول نہ ہوسکے بقول ان طلباء کے ہم نے تحریک تبدیلی کیلئے شروع کی تھی اور یہ تبدیلی عوام کیلئے لائی گئی تھی کسی ایک پارٹی یا شخصیت کیلئے نہیں تھی تبدیلی والی سرکار سے نظریاتی کارکن اتنے بد دل ہوگئے ہیں کہ کہ پارٹی میں ہی تبدیلی والے فورم بن رہے ہیں جن کا موقف ہے کہ مفاد پرستوں نے تبدیلی کے نعرے لگانے والے نظریاتی کارکنوں کو کھڈے لائن لگا کر کاروبار شروع کردیا ہے اور انکی دکانداری شروع ہوگئی ہے -بات سے بات نکلی ہے تو یاد آیا کہ چند دن قبل اسی تبدیلی والی سرکار سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے یونیورسٹی ٹائون میں ایک میڈیکل سٹور کو بلیک میل کرتے ہوئے دھمکی دی کہ نقد "دو ورنہ پھر ہماری ٹیم چھاپہ مارے گی متعلقہ لوگوں نے اپنے آپ کو ماچس کی تیلی کی طرح دبلی پتلی ایک اہم شخصیت کا کارخا ص بتایا - خیر قصہ مختصر کہ مال تو وہ بٹور نہ سکے البتہ انہیں بھاگتے ہی بنی یہ الگ قصہ ہے اب ایسے لوگ بھی تبدیلی لائیں گے ویسے اگر بلیک میلنگ اور بدمعاشی ہی کرنی ہے تو پھر خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی جتلانے والے لالٹین والی سرکار اور عوام کے حلق میں تیر گھسیڑکر خون چوسنے والوں میںکیا فرق ہے ہاں فرق شائد اتنا ہی ہے کہ پہلے عام نسوار بازار میں ملتی تھی اور اب تبدیلی والی چیونگم سے لیکر تبدیلی والے پاپڑ تبدیلی والے نسوار اور تبدیلی والے جوس ہر جگہ دستیاب ہیں- باقی تو وہی پرانا ڈرامہ ہے-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422076 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More