کسی معاملے میں سیاسی پارٹیوں کا یکساں موقف بہت کم
دیکھنے میں آتا ہے بلکہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنا ہی سیاست کی بنیاد سمجھی
جاتی ہے اور اگر کہیں خوش قسمتی سے ایسا ہوجائے تو اتفاق رائے صرف زبانی
کلامی رہتا ہے عمل تک بات کم ہی پہنچتی ہے۔ لیکن کراچی کے معا ملے میں ایسا
ہونا ایک خوش آئند بات ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے
کہ کراچی پر جس آسیب اور دہشت کا سایا ہے اُس سے اُسے آزاد کرایا جائے چاہے
اس کے لیے فوج طلب کرنا پڑے بلکہ فوج طلب کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ
بات بھی خوش آئند ہے کہ کراچی کے حالات کے بارے میں فکر مندی پائی جا رہی
ہے اوراس گھمبیر مسئلے کے حل کے بارے میں سنجیدگی بھی دکھائی جا رہی ہے
لیکن اس سنجیدگی کو قوم کے مطلوبہ نتائج کے حصول تک جاری رہنا چاہیے۔
اگر چہ اب آپریشن حکومت سندھ کی نگرانی میں رینجرز اور پولیس کی مدد سے
شروع ہو چکا ہے لیکن فوج کی مداخلت کی آواز اب بھی اُٹھ رہی ہے اور یہ فوج
پر اعتماد کی مثال ہے تاہم ہر معاملے میں فوج کو شامل کرنا نہ تو خود اس کے
حق میں بہتر ہے اور نہ ہی دیگر اداروں کے لیے سودمند۔ قانون نافذ کرنے والے
دیگر اداروں کو اگر اختیارات دے دئیے جائیں اور مخلص افسران کی قیادت میں
پورے خلوص کے ساتھ کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نہ حاصل ہو
سکے۔ کراچی کا مسئلہ امن و امان کا مسئلہ ہے جس میں سیاسی جماعتوں کا کردار
بھی انتہا ئی اہم ہے اور مذہبی جماعتوں کا بھی، خبروں کے مطابق ان جماعتوں
کے عسکری گروپ بھی ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اِن کی آڑ لے
کر بہت سے جرائم پیشہ افراد نے بھی اپنے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور یہ بھی
ممکن ہے کہ یہ خود ساختہ گینگ بھی سیاسی جماعتوں کا نام استعمال کر رہے ہوں
بہر حال اس جرم سے بری الذمہ کوئی بھی نہیں ہے اور حکومت کو اگر ملکی مفاد
عزیز ہے تو اسے پوری ایمانداری سے ہر ذمہ دار کی پکڑ کرنی ہوگی جس کے لیے
رینجرز کا یہ مطالبہ بھی اہم ہے کہ اُسے مزید اختیارات دئیے جائیں تاکہ وہ
اس معاملے اور مسئلے کو سلجھا سکے۔ پولیس اور رینجرز جن لوگوں کو پکڑ لیتی
ہے انہیں تیز اور شفاف تحقیقات کے بعد سزا بھی دی جائے ورنہ خواہ مخواہ کی
پکڑ دھکڑ آپریشن کو بار آور اور کامیاب نہیں ہونے دے گی ۔ اس میں کسی سیاسی
یا مذہبی جماعت یا لسانی اور علاقائی گروہ کو رعایت نہیں ملنی چاہیے۔
یہ بات بھی نظر میں رکھنی چاہیے کہ کراچی کے حالات ملکی معیشت ، تجارت،
صنعت اورکئی شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کراچی کا بے تحاشا پھیلائو بھی
اس کے مسائل کی ایک وجہ ہے اور یہاں علاقوں کی لسانی گروہوں یا مذہبی فرقوں
کے درمیان تقسیم نے بھی اسے مصیبت میں مبتلا کیا ہوا ہے اور یہ سب منصوبہ
سازی فوج کا نہیں حکومت کا کام ہے لہٰذا تمام مسائل کے حل فوج کو سونپ دینا
اصل حل نہیں۔ اس وقت رینجرز اور پولیس کے آپریشن کو سیاسی اور اخلاقی سپورٹ
کی ضرورت ہے نہ کہ فوج کو اس نئے محاذ پر مصروف کرنے کی ہاں اگر خدانخواستہ
یہ ٹارگٹڈ آپریشن بھی کامیاب نہ ہو تو پھر آخری آپشن استعمال کیا جا سکتا
ہے لیکن ابھی نہیں ،کہ نہ تو سرحدوں کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں نہ دہشت
گردی کے خلاف جنگ کے اور نہ ہی بین الاقوامی منظر نامہ۔ رینجرز اور پولیس
ابھی تک تند ہی سے یہ کام سرانجام دے ر ہی ہے،کچھ ٹارگٹ حاصل بھی ہو رہے
ہیں اسی لیے اس وقت ان کی ہمت بندھانی چاہیے اور ان تمام قوتوں کا تعاون ان
کے لیے بہت ضروری ہے جو خوش قسمتی ہے اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی کا امن
بہر حال بحال ہونا چاہیے ۔ کراچی پاکستان کے اندر ایک چھوٹا پاکستان ہے جس
میں پاکستان کے ہر صوبے ہر شہر بلکہ ممکن ہے ہر گائوں کا کوئی نہ کوئی شخص
یا خاندان موجود ہے لہٰذا اس کے امن کے لیے سب کا تعاون حاصل ہوجانا کوئی
بہت مشکل کام نہ ہوگا بس کوشش مخلصانہ ہو اور اگر مثبت نتائج حاصل ہوں تو
اسے دل سے قبول کر لینا چا ہیے۔ اس کے لیے حکومت، قانون نافذ کرنے والے
ادارے، عدلیہ، سیاست دان اور عوام اگر کوشاں ہو جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ
رینجرز اور پولیس کا یہ آپریشن کامیاب نہ ہو بلکہ ممکن ہے ہفتوں کے لیے
پلان شدہ یہ آپریشن دنوں میں ختم ہو اور کراچی کا سورج پھر سے پورا دن اور
اس کی روشنیاں پوری رات امن اور سکون سے جگمگائیں۔ |