دورِ حاضر کی غالب تہذیب کو ’’تہذیب ِنو‘‘ کے دلفریب
عنوان سے ذہنی دریچوں میں نقش کیا جا رہا ہے۔ اخبارات، میگزین،رسائل ، ٹی
وی چینلز اور ہر ممکنہ ذریعہ ابلاغ اس تہذیبی جال کو پھیلانے میں مصروف
ہے۔ماڈرن ازم کے جال کو پوری دنیا کا لباس بنانے کے لئے مکاری وعیاری سے
کام لیا جارہاہے۔ سوچ،خیالات،افکار،نظریات اور طبیعتوں کو تہذیبِ نو کے
سانچے میں ڈھالنے کے لئے ظاہری و باطنی طریقہ کار استعمال کئے جا رہے ہیں۔
اس تہذیب کی مخالفت کرنے والوں کو دقیانوس، قدامت پسند، انتہا پسند، شدت
پسند اور نئی دنیا کے قدیم باشندوں کے القابات سے بلایا جا رہا ہے۔ انھیں
بدنام کرنے ،مٹانے اور ختم کرنے کی ہر ممکنہ سعی کی جا رہی ہے ۔ تو یہ سوال
ضرور ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ کیا واقعی یہ تہذیب ’’ تہذیبِ نو‘‘ ہے؟۔کیا
واقعی یہ کوئی نئی تہذیب ہے ؟۔ کیا اس تہذیب کی پیدائش پچھلی ایک دو صدیوں
میں ہوئی ہے ؟ ۔انشااللہ ہم اپنی ان سطور میں اس سوال کا جواب جاننے کی
کوشش کریں گے۔
ہزاروں سال پہلے یونانی تہذیب کے علمبرداروں میں کچھ صفات خون کی طرح دوڑ
رہی تھی۔ نہ نظر آنے والی چیزوں کو بے وقعت قرار دینااور ان میں شک وشبہ
پیدا کرنا، روحانیت کا فقدان، دنیاوی زندگی کو سب کچھ جان کر اسی کے لئے تگ
و دو کرنا اور اس کی لذتوں کو لذت ِ کامل قرار دینا اور اس کے حصول کا
اہتمام کرنا ،اور وطن پرستی کی گہرائیوں میں اتر جانا، یونانیوں نے ان صفات
کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اگر ان سب صفات کو ایک لفظ میں ادا
کرنا چاہیں تو اس کے لیے مناسب ترین لفظ’’ مادہ پرستی‘‘ہے۔انھوں نے ہر
متعلقہ چیز کو مادیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔ اُ ن کے لئے نظر نہ آنی
الی چیزوں کو دائرہ ِ تصور میں لانا مشکل ہو گیا ۔ ان کے لئے خدا اور اس کی
صفات پر یقین کرنا اور اسے تصور میں لانا مشکل ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے
صفات باری تعالی کے لئے بت بنائے ، ان کے معبد تعمیر کئے اور ان کی پوجا
شروع کردی تاکہ’’ خدا ‘‘ ایسا ہو جو ہمیں نظر آئے اور محسوس ہو۔اس لئے ان
کے معبد خانے بتوں سے سج گئے۔ اب اگلا سوال ذہن میں اٹھا کہ یہ دیوتا،کام
کیسے کرتے ہیں حالاں کہ ہمارے سامنے تو یہ ساکن رہتے ہیں؟۔
جب اس سوال کا جواب ان کی عقل نہ ڈھونڈ سکی تو انھوں نے خدا تعالی کی صفات
اور اختیار کی نفی کرنا شروع کردی اور کائنات کی پیدائش و انتظام کو اپنے
خود تراشیدہ مفروضوں کی طرف منسوب کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا
کاتصور، خدا کی طاقت اورخدا کی ہیبت ان کے دلوں سے نکلنا شروع ہوئی ۔ وہ
اپنے خداوں کو ایک بے اختیار مذہبی شخصیت کی طرح سمجھنے لگے جسے دنیا میں
کوئی اختیار،طاقت حاصل نہ تھی۔
نتیجہ کے طور پر ان کی زندگیاں عقل کے تابع ہو گئیں اور وہ شخصی آزادی کی
راہ پر چل پڑے۔ دنیاوی زندگی کے انتہائی شوق و محبت، مجسموں اور تصاویر کے
شغف، رقص و سرود اور موسیقی میں انہماک اور خواہشِ نفس کی پیروی کی دلدلوں
میں دھنسنا شروع ہو گئے۔ خواہشات ِ نفس کی پیروی، زندگی سے زیادہ سے زیادہ
لطف اندوز ہونے کی خواہش ، حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر روپیہ کما کر اپنا
معیار ِ زندگی اونچا بنانے کی ہوس، زندگی بغیر اصولوں کے گزارنے کی عادت
اور کسی بھی نظام ِ زندگی سے اختلاف، روشن خیالی اور آزادی کی علامتوں میں
شمار ہو نے لگیں۔ سقراط ایک جمہوری جوان کی سیرت کو بیان کرتے ہوئے لکھتا
ہے:
’’ اگر اس سے کہا جاتا ہے کہ انسان کے سارے شوق اور خواہشات یکساں قابل ِ
احترام اور تعمیل کے لائق نہیں ، بعض خواہشات پسندیدہ اور لائق احترام ہیں
اور ان کی تکمیل میں کوئی مضائقہ نہیں اور بعض ناروا اور ناپسندیدہ، ان سے
اجتناب ہی بہتر ہےاور ان پر پابندی و بندش عائد کرنا ضروری ہے وہ شخص اس
صحیح قانون کو قبول نہیں کرتا اور اس کے سننےکے لئے بھی تیار نہیں ہوتا۔ جب
اس کے سامنے یہ باتیں پیش کی جاتیں ہیں تو تمسخر کے ساتھ اپنا سر ہلاتا ہے
اور بڑے زور و شور کے ساتھ تقریریں کرتا ہے کہ انسان کی تمام خواہشات اور
اس کے سارے شوق یکساں قابل ِ احترام ہیں۔ اسی کے مطابق اپنی زندگی
گزارتاہے،اور اپنی تمام خواہشاتِ نفس کی تسکین اور اپنے ہر شوق کی تکمیل
کرتا رہتا ہے۔ جس وقت اس کا جس بات کا جی چاہتا ہے ،کر گزرتا ہے‘‘
یہ صفات کسی بھی طرح اکیسویں صدی کے ’’ماڈرن‘‘ نوجوان کی سوچ، افکار،
خیالات اور نظریات سے مختلف نہیں ہیں۔ اور جب یہ فرسودہ خیالات شخصی آزادی
کی بیل پر پروان چڑھے تو دنیا میں دنگا فساد برپا ہوا۔ جنگوں اور جھگڑوں نے
باقاعدہ طور پر قوانین کی شکل اختیار کرلی۔ لوٹ مار، ڈاکہ زنی ، بدامنی ،
بد حالی، جاہلیت اور پسماندگی کے عنصر پہ مشتمل ایک تہذیب چلنے لگی جس کے
خاتمہ کے لئے آپ ﷺ مبعوث فرمائے گئے۔
تو ’’ تہذیب ِ نو‘‘ آج کل کی تہذیب نہیں ہے بلکہ صدیوں پرانی ہے ۔ اس کے
پیرو کار نہ ہی جدت پسند نہیں ہیں اور نہ ہی جدیدیت کے پیروکار ہیں بلکہ
حقیقی دقیانوس اور قدامت پسند ہیں۔ شدت پسند اور تاریک خیال وہی ہیں جو
دنیا کو اس تہذیب پہ چلانا چاہتے ہیں جس کا منحوس وجود دنیا ایک مرتبہ
برداشت کر چکی ہے ۔ اس کے نتائج کو بھی تاریخ کے اووراق میں رقم کر چکی ہے۔
اس کی ہولناک تباہیوں سے عاجز ہو کر کانوں کو ہاتھ لگا چکی ہے۔اس کے غلبہ
کے نتائج ایک مرتبہ بھگت چکی ہے اس کےرائج کردہ ظلم کی چکی میں پس چکی
ہے۔اس کا نام سے ہی پناہ مانگتی ہے۔آج ایک مرتبہ پھر یہ تہذیب غلبہ پارہی
ہے۔ معصوم اور پر کشش ناموں کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر دنیا کو اندھیر
نگری کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس کے منحوس قدموں میں چھپے شر اور فساد دنیا کی
طرف بڑھ رہے ہیں۔ خیر خواہی کے چمکیلے لباس میں دھوکہ دہی کا متعفن وجود
دنیا کو اپنے گلے لگا رہا ہے۔اس کا حل اور توڑ ایک ہی ہے۔ اس مرض کا تریاق
ایک ہی ہے اور وہی ہے جو چودہ صدیاں پہلے اسی گندی تہذیب کو بھگانے کے لئے
آپ ﷺ نے استعمال کیا تھا۔ہمیں وہی دوبارہ استعمال کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی
ذات کو ہی اس شاہراہ پہ ڈالنا ہوگا جس سے اس کے منحوس قدم پناہ مانگتے ہیں
۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس تہذیب کو ختم فرمایا ہے تو ہمیں اس نبی ﷺ کے امتی
ہونے کے ناطے اس تہذیب کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اسلامی تہذیبی کی ایمانی
شمع سے اس تہذیبی لباس کوجلا کر خاکستر کرنا ہوگا۔’’ تہذیب نو‘‘ کی آڑ میں
چھپی تاریکیوں میں خود کو گرنے سے بچانا ہوگا۔ یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے ،
فرض بھی اور قر ض بھی۔۔ |