دولت کی جیت، انصاف کی ہار

کرنٹ آفیر سے دلچسپی رکھنے والا،اخبار ٹی وی اور خبریں سننے والا ضرور شازیب اور شارح جتوئی کے نام سے واقف ہوگا ۔شازیب کراچی ڈیفنس کا رہائشی تھا وہ ایک ڈی ایس پی کا بیٹا تھا وہ اپنی گاڑی میں اپنی بہن کے ساتھ اپنے گھر جا رہا تھا کہ وہاں پر ایک امیر باپ کی بگڑی اولاد ،دولت کے نشے میں دھت شارخ جتوئی نے شاہ زیب کی بہن کو کچھ کہا جس پر شازیب نے اپنی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے روکا جس پر شارح جتوئی نے حوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دولت مند ہونے پر فخر کرتے ہوئے فائر کر کے نہ صرف شاہ زیب کا قتل کیا بلکہ پوری انسانیت کا قتل کر دیا۔شازیب اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکیلا بھائی تھا اس کا سفاکانہ،بے ایمانہ قتل نہ صرف قتل تھا بلکہ وہ قتل فی الارض تھا۔۔اس قتل پر شازیب کے والدین تڑپ اٹھے انہوں نے پہلے انصاف کی بہت کوشش کی مگر قانون کے رکھوالوں نے بھی دولت کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے ایف ائی آر تک درج نہ ہوئی مگر جب شاہ زیب کے والدین ، اورسول سوسائٹی نے میڈیا نے سامنے دوہائیاں دیں تو پھر جا کر قانون اور انصاف والوں کو سمجھ آئی کہ یہ خون بھی کسی انسان کے بچے کا ہوا جب میڈیا اور اخبارات نے اس کیس کو اٹھایا اس پر خوب لکھا گیا تبصرے ہوئے ،سول لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے تو یہ قتل کسی ایک گھر کا نہیں بلکہ معاشرے کا قتل بن گیا ۔وہ بگڑا شارح جتوئی جو دولت کے نشے اور اپنی ووڈیرہ شاہی کے غرور میں راتوں رات غیر قانونی طور پر دوبئی بھاگ گیا آخر کا عدالت کے سو موٹو ایکشن پر وہاں سے اس نے گرفتاری دی ۔۔شاہ زیب کے والدین جو اس دوران بار بار میڈیا کے سامنے آکر ایک ہی بات کرتے تھے کہ ہمیں انصاف چاہیے ،ہم کسی قیمت پر اپنے بیٹے کے خون کو معاف نہیں کریں گے،ہمارا بیٹا بے گناہ قتل ہوا ہے اس کے قاتل کو پھانسی ملنی چاہیے ان کی یہ دوہائیاں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کا انصاف کے لئے احتجاج رنگ لایا ،جتوئی خاندان نے دولت کو پانی کی طرح بہایا مگر وہ قانون کے سامنے اس وقت بے بس نظر آئے جب 7جون2013کو ووڈیرہ شاہی پر لات مارتے ہوئے عدالت نے شار خ جتوئی کو سزائے موت سنائی عدالت کے اس فیصلے کے بعد غریب عوام میں کچھ سکون ہوا اور یہ امید لگی کہ دولت مند والدین کی بگڑی اولاد کی لگام ابھی اتنی ڈھیلی نہیں جتنی سمجھی جاتی تھیں یہ امید ہو گئی کہ ووڈیروں کو بھی کوئی لگام دینے والا ہے ۔یہ قتل پہلے ایک قتل تھا مگر عوامی احتجاج ،امیر اور غریب کے فرق کو کم کرنے کے لئے یہ قتل فی الارض معاشرے میں انصاف،امیر اور غریب کے درمیان جنگ کا معرکہ بن گیا عدالتوں کے سامنے بھی ایک چیلنج ہو گیا اس کا انصاف ہونا دولت اور غیریب کے درمیان انصاف تھا یہ قتل،قتل خطا نہیں تھا جس کی قصاص ددیت ہوتی ہے یا جس کو ورثا معاف کرنے کا حق رکھتے ہیں،یہ قتل ،قتل عمد تھا جس کی کوئی ددیت نہیں ہوتی جس کو ریاست ہی معاف کر سکتی ہے یہ معاشرے میں فساد ،اور دہشت گردی کا باعث بنتا ہے اس طرح کے قتل کو معاف نہیں کیا جا تا۔شارخ جتوئی کی سزائے موت کے فیصلے سے عوام میں یہ تاثر بھی قائم ہوا تھا کہ عدالتیں ابھی آزاد ہیں انصاف قائم ہے،ابھی دولت مند بے لگام بھیڑے نہیں ہوئے،ان کو کنٹرول کرنے والا بھی کوئی ہے۔اس کیس کے دوران جتوئی خاندان کے بڑے بڑے خود ساختہ خداوں ،سرمایا داروں نے شاہ زیب کے والد اورنگزیب سے سمجھوتہ کرنے کی بہت کوشش کی ،ان کو دولت اور منہ مانگی قیمت لینے کی آفر بھی کی جس کی خبریں کبھی میڈیا کی زینت بنتی اور کبھی گم نام ہی دباو ڈالا جاتامگر وہ کسی بھی طرح سے ددیت لینے یا راضی نامہ کرنے پر تیار نہ تھے۔مگر دولت دولت ہوتی ہے اس کی طاقت انسان کے سامنے تو کچھ نہیں مگر وہ خون خوار بھیڑے ضرور خرید سکتی ہے وہ انصاف کو نہ خریدے مگر منہ کسی بھی طرح سے بند کروانے کی طاقت رکھی ہے ،اندرون خانہ جانے کیا کیا دھمکیا دی گئیں ہونگی،کیا کیا آفرز ہوئیں ہوں گی،کس کس سے دباو ڈالا گیا ہوگا ،کون کون سے کرایے کے قاتل خریدے گئے ہوں گے ۔کہ اچانک یہ خبر بریک ہوئی کہ شازیب کے والدین نے شارخ جتوئی کو معاف کر دیااس خبر کے آتے ہی ایک طرف تو عوام میں بے چینی اور پریشانی کی لہر دوڑ گی وہ لوگ جنہوں نے اس کیس کے حق میں صدائے حق بلند کی تھی وہ لوگ جنہوں نے اس کیس کا ساتھ دیا اور گوائیاں دی تھیں وہ غیر محفوظ ہو گئے اور ورطہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے اور دوسری طرف دولت کے نشے میں چور شرم ،پریشانی، ندامت ، اور انسانیت کے قتل کے افسوس سے عاری حوانیت اور ظلمت کے بادشاہ نہ صرف ووکٹری کا نشان بنا رہے تھے بلکہ وہ اپنی جیت اور فتح کے نعرے بھی لگا رہے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی انڈیا کو شکست دے کر آئے ہیں ۔اس خبر کے بعد یہ تبصرے بھی ہو رہے ہیں کہ شازیب کے والدین نے ڈیل کی 35کروڑ لیا باہر کے ملکوں کا ویزہ لیا اسٹریلیا میں مکان بھی لیا،اور ساتھ یہ بھی خبریں ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ان کو فی سبیل اﷲ معاف کر دیا گیا۔حقیت کچھ بھی ہو سچ تو یہ ہے کہ شازیب کا والد گولیوں سے چھنی ہے وہ زخمی ہے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو زخمی کس نے کیا اور اگر وہ یہ معافی یا ڈیل نہ کرتا تو کیا وہ اور اس کا خاندان زندہ رہتا ؟اس راضی نامے پر کیسے اور کس طرح دستخط کروائے گئے یہ تو شازیب کا خاندان ہی جانتا ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا ہے اس میں انصاف چیخ چیخ کر اس ملک کے حکمرانوں سے پوچھ رہا ہے کہ میں کہاں ہوں۔شازیب کی روح تڑپ تڑپ کر اس ملک کے انسانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ یہ میری شکست نہیں یہ اس ملک کے غریب کی شکست ہے،یہ اس ملک میں انصاف اور انسانیت کی شکست ہے ،یہ مذہب کی ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی ہار ہے ۔آج ایک شازیب دولت مند کے ہاتھوں بے بس انصاف مانگ رہا ہے کل پتہ نہیں کتنے اور شاہ زیب کے والدین تڑپے گے۔اس خبر کے بعد عدالت نے اپنا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس کیس کو راضی نامے پر ختم نہیں کرنا اور نوٹس لیا گیا چیف جسٹس کی طرف سے کہ اس کے حقائق سامنے لائے جائیں۔مگر یہ بات سچ ہوگی کہ اگر شارخ جتوئی دولت کی بنیاد پر معافی مل گئی تو یہ اس ملک کے قانون،انصاف،عوام میڈیا،اور اسلام اسلام کی رٹ لگانے والوں کے منہ پر ووڈیرہ شاہی ،اور دولت مندوں کا غبرت ناک طمائچہ ہوگا جس کا خمیازیہ آئندہ غریبوں کو بھگتنا ہوگا۔عدالت کو اپنا فیصلہ برقرار رکھنا چاہئے اس ملک کی بقاء اور انصاف کے بول بالے کے لئے،ورنہ انسانیت کی ہار اور حوانیت کی جیت ہوگی۔پھر نہ ہم محفوظ نہ تم۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69571 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.