اب ورنہ کبھی نہیں
جب سے یہ افسوسناک خبر سنی ہے کہ مقتول شاہ زیب کے قاتلوں کو معافی ملنے
جارہی ہے یہی سوال بار بار دماغ میں گونج رہا ہے کہ آخرکو خاک سے بنے ہیں
اور عنقریب خاک نشین ہوجا نا ہے۔ اور
ہم اﷲ سے ڈرتے کیوں نہیں کیوں ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ مملکت اسلام کے نام
پر حاصل کی گئی تھی۔
بانی پاکستان نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کا مُطالبہ ہم ایک قطہ
زمین حاصل کرنے کے لئے نہیں کر رہے بلکہ ہمیں ایک ایسی تجربہ گاہ چاہیے
جہاں ہم اسلام کے اُصولوں کو آزما سکیں۔ اور اسلام کا نظامِ عدل کیا ہے؟ جس
میں خلیفہ ِوقت حد کی سزا میں کوڑوں کی تعداد اپنے بیٹے کی لاش پر پورے
کرتا ہے۔ جہاں حاکمِ وقت بھی قاضی کے طلب کرنے پر مُلزموں کی طرح حاظرہوتا
ہے اور اپنی صفائی پیش کرتا ہے۔ بظاہر ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں ہمارا
معاشرہ منافقت کی کس حد پر آچکا ہے اندازہ لگائیے کہ یہ بات اجتماعی رویے
کے ساتھ طے شُدہ حقیقت بن گئی ہے کہ قانون کمزور کے لئے الگ ہے اور طاقت ور
کے لئے الگ۔
آج معافی کے نام پر اسلام کے قوانین حدود کی آڑ میں درندوں کو کھُلا چھوڑنے
کی تیاری کی جا رہی ہے۔د ہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے امیربااثر مجرم
کو بچانے کیلئے قتل کاایسا عام سا کیس بنایا جا رہا ہے جس میں ورثاسے جبری
رہائی کی آڑمیں خونی کو رہا کرنے کی زورو شور سے تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کیا
یہ صرف قتل کا مقدمہ ہے! یہ تو فساد فی الارض اور دہشت گردی کا کیس ہے ۔
ساری دُنیا نے دیکھا کہ کس طرح کمرہ عدالت سے باہر نکل کر ایک بگڑے ریئس
زادے نے ساری دُ نیا کے سامنے V (وکٹری) کا نشان بنایا او ر انتہائی طمانیت
و آسودگی کے ساتھ بے فکری سے قہقے لگاتا ہُواپولیس بکتر بند گاڑی میں
بیٹھایہی نہیں بلکہ گاڑی کی چھت سے بھی اُسکا V ہمارے گلے سڑے تباہ حال
نظام کا منہ چڑاتا رہا۔
اپنے نبی کریم ﷺ کا ارشادِ پاک بے اختیار ذہن میں آیا اور خوف اور دہشت سے
لرزہ طاری ہو گیا۔ کہ خدا کی قسم اگر محمدﷺ کی اپنی بیٹی بھی چوری کرتی تو
اُس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔اور تُم سے پہلے کی قومیں اَس لئے تباہ ہوئی ہیں
کہ کمزور کو سزا دی جاتی تھی اور طاقتور کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔
کہیں یہ نام نہا د رہائی ہماری بربادی اور تباہی کا اشارہ تو نہیں؟؟ جب
ساری سوسائٹی میڈیا نظامَِ عدل اور ریاست کا سب سے بڑا مُنصف مل کر ایک
بدمست جنونی قاتل کو سزا نہ دلوا سکے ۔ جس نے ہوش و حواس میں سرِعام درندگی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ماں کی گود اُجاڑ دی بہنوں سے بھائی چھین لیا ایک
ہنستے مسکراتے شحص کی جان لے لی اور ایسے بے فکری سے وہ عدالتی کاروائی کے
لئے آتا ہے جیسے پکنک منا رہا ہے کبھی برگر کھا رہا ہے اور کبھی منرل واٹر
پی رہا ہے۔ اسکی خبا ثت دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ مجرم ہے جس کو
معصوم اور نابالغ کہہ کر انصاف کی آنکھوں میں دُھول ڈالی جا رہی تھی۔ کیا
نابالغ مجرم ایسے ہوتے ہیں؟ عادی مجرموں والا بے پروا انداز نہ خوف نہ
شرمندگی نہ پریشانی نہ پچھتاوا اُلٹا اُچھل اُچھل کر گویا فتح کا جشن مناتا
ہوا انصاف کو چڑاتا ہوا وہ اطمینان و یقین سے رُخصت ہوا جیسے اُسے رتی بھر
عدالتی فیصلے سے سروکار نہیں ہے۔اتنی درندگی تو جنگلی جانور بھی لہو بہا کر
نہیں مناتے ہوں گے گویا خون کرنا ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔
کیا ہم کبھی ایک مہذب قوم نہ بن پائیں گے؟ خُدارا ایسے بدمست قاتلوں کو
کُھلا نہ چھوڑیں ورنہ دُنیا ہمارے اُوپر ہنسے گی ۔ ہم مُسلمان جن کا آخرت
پہ یقین ہے وہ کیوں خدا سے نہیں ڈرتے؟؟ روزِ محشر جب سب سے بڑی عدالت لگے
گی تب ہمارا کیا حال ہوگا حضرت علیؓ کا قول آج حرف بہ حرف ہم پر صادق آتا
ہے کہ معاشرہ کُفر پر زندہ رہ سکتا ہے مگر بے انصافی پر نہیں ۔ واقعی بے
انصافی معاشروں کو مٹا کر رکھ دیتی ہے۔
اگر اس کیس کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو مجرم بیک وقت کئی جرائم کا
مُرتکب ہوا ہے کیا اُسے اس بات کی سزا نہیں ملنی چاہیئے کہ کس طرح جرم کر
کے وہ راتوں رات فرار ہوا کیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر وں میں
اُس نے دُھول جھونکی ۔کس طرح اُسے نابالغ قرار دینے کے لئے حیلے بہانے کیے
گئے۔لیکن اٰسے سزا دینے کے لئے جیسے کوئی حیلہ چارہ اُسکی مدد نہ کر سکا
اور انصاف پر مبنی فیصلہ آگیا۔ جہاں تک اُس کو دی جانے والی معافی کا تعلق
ہے تو یہ کوئی عام قتلِ عمد کا مقدمہ نہیں تھا-
یہ دہشت گردی کا مقدمہ بھی ہے وُرثا معاف کر بھی دیں تو سزا دینے کا ریاستی
اختیار اپنی جگہ موجود ہے۔
اور اس معافی کے سارے معاملے کی مکمل انکوائری ہونی چایئے۔ یہ ساری قوم کی
عزتِ نفس کا معاملہ ہے۔ قاتل کو چھوڑ کر قانون گویا طاقتور کے آگے جھک جائے
گا۔ یہ رہائی نہیں بلکہ لائسنس ہوگا ہر با اثر طاقتور کے لئے کہ جو مرضی
کرو بس پیسہ اور طاقت ہونی چائیے ۔ کیا ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری
ہیں؟
محترم چیف جسٹس آف پاکستان یہ suo motu ایکشن اس قوم کی بقا کے لئے ضروی ہے
اس معافی نے ہمارے گلے سڑے تباہ حال سسٹم کو عٰیاں و عریاں کر دیا ہے کیا
اس کے بعد کوئی کسی بے گناہ کے لئے حق و انصاف کی آواز بلند کرے گا ؟اب تو
طاقتور پہلے سے ذیادہ دندناتے پھریں گے۔ کس طرح کن حالات میں مقتول کا
خاندان اس معافی کے لئے مجبور ہو ا آن پر کیا کیا ستم توڑے گئے شازیب کے
والد کو چھریاں کِس نے کیوں ماریں؟؟؟
آج آپ سے یہ ساری قوم التجا کرتی ہے ہمارے لیے آنے والی نسلوں کے لئے ایک
مثال قائم کردیں کہ کوئی دولت و طاقت کے نشے میں چُور ہو کر خود کو قانون
سی بالاتر نہ سمجھے ۔ خدارا کُرسی انصاف کو چھوڑنے سے پہلے اس بے بس قوم کو
یہ ا نصاف دے جایئں جسے کبھی انصاف نہیں ملا۔ |