حیوانیت پھیل چکی ہے ۔درندے بھی انسانی افعال پر شرمسار
ہونگے کہ اشرف المخلوقات وہ خباثتیں پیش کررہا ہے جو انتہائی بے حیا اور
بدترین جانور خنزیر بھی نہیں کرتا۔ خالق کائنات نے اولاد آدم کے خمیر میں
اچھے برے تمام اوصاف ودیعت فرمائے ہیں۔ ان میں اوصاف حمیدہ بھی ہیں اور
اوصاف خبیثہ بھی ہیں۔ اوصاف خبیثہ کے غلبہ کی وجہ سے انسان قتل، ڈاکہ،
بدکاری اور بدکاری میں درندوں سے بڑھ کر ان افعال کا مرتکب ہوتا ہے جن کا
ارتکاب خنزیر بھی نہیں کرتا ۔ گویا کہ انسان اشرف المخلوقات کے لبادہ میں
خنزیر سے بھی بڑھ کر کوئی مخلوق ہے۔ لاہور میں ایک حیا سوز واقعہ پیش آیا
ابھی میڈیا اسکی تشہیر کے فرائض سرانجام دے رہا ہے کہ فیصل آباد میں ایک
اور اسی نوعیت کا انسانیت سوز و حیا سوز واقعہ پیش آگیا۔ میں چاہوں گا کہ
اس قبیل کے کرتوت کب شروع ہوئے اور کیوں ، انکے اسباب کیا ہیں اور کیسے ان
کو روکاجاسکتا ہے۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کے حصو ل کا سلسلہ اس وقت امت میں
ایسا ہے کہ تبرکا کبھی کبھار تلاوت کی جاتی ہے یا کوئی مرجائے تو اسکے
ایصال ثواب کے لیئے قرآن خوانی کرائی جاتی ہے۔ غریبوں کے گھروں میں تو اسکا
سہارا کچھ زیادہ لیا جاتا ہے لیکن امرا اور رؤسا طبقہ بھی جب انکا ابا حضور
یا امی حضور دنیائے فانی میں اپنے اثاثے چھوڑکر بے خانماں ہوکر چند فٹ کے
کھڈے میں منوں مٹی کے نیچے چلے جاتے ہیں تو صاحبزادے اپنی سعادتمندی کے
اظہارکے طور پر قریبی مسجد یا مدرسے کے طلبا کو بلا کر اپنے ماں باپ کو
جنتی سہولتوں کی فراہمی کے لیئے قرآن پاک کی ورق گردانی کرا لیتے ہیں ۔ اس
موقع پر دعوت شیراز بھی ہوتی ہے جس کا زیادہ حصہ سوسائٹی کے بڑے لوگوں یا
رشتہ داروں کے پیٹ میں چلاجاتا ہے۔ قرآن کریم سے اس کے نزول کا اصل مقصد
حاصل نہیں کیا جاتا۔ دور حاضر میں امہ کا مجموعی طور پر یہی حال ہے۔ دنیا
میں کسی بھی اسلامی ملک میں قرآنی نظام نافذ نہیں اور نہ ہی اس کی تعلیمات
سے عوام کو مستفیذ کیا جاتا ہے نہ ہی معاشرے کی اصلاح اور بہبود کے لیئے
قرآنی احکامات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ حیوانی قوتوں پر قابو پانے کے
لیئے اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے ضابطوں سے ہی بھلائی کے راستے
ملتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران قرآن و سنت کی بجائے اہل مغرب سے مستفیذ ہوتے
ہیں جہاں شیطانی تعلیمات کا زور ہے۔ قرآن کریم میں ہے حضرت لوط علیہ السلام
نے ہم جنس پرست قوم سے فرمایا کہ تم وہ برائی کرتے ہوجو آج تک کسی انسان نے
نہیں کی۔ اس قوم نے کفر کیا اور اﷲ تعالی نے ان پر نامزد پتھر برسائے۔ یہ
واقعہ تقریبا چار ہزار سال پہلے کا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی
موجود تھے۔ یہودی اور عیسائی بعد کی پیداوار ہیں اور اس واقعہ کو سبھی خوب
جانتے ہیں مگرآج ان غیر فطری اور غلیظ کرتوں کے مرتکب یہودی اور عیسائی اس
خباثت و غلاظت کو قانونی تحفظ دے چکے ہیں۔ اب ہمارے سیاہ دماغ سیاستدان اور
بعض دانشور پاکستان میں اس غلاظت کو پھیلانے میں مستعد ہیں۔ ہم جنس پرستی
کی تعلیم ، اور جنسی تعلیم کو سلیبس میں جگہ دینا، گانے بجانے اور رقص و
سرود کو سلیبس کا حصہ بنائیں گے تو کیا متقی اور پرہیزگار جنریشن جنم لے
گی؟ جو کچھ حکومتوں نے سکھایا اسی کا یہ نتیجہ ہے۔ تھور بو کر گندم کی امید
نہ رکھیں۔گھر گھر میں بے حیائی بذریعہ میڈیا پھیلائی جارہی ہے۔ حیا سو ز
واقعہ کے بارے ٹی وی چینلوں کے نمائندوں نے ڈاکٹروں سے ایسے سوالات کیئے کہ
اگر انکی اپنی بیٹی کے بارے ایسے سوالات کیئے جائیں تو وہ سر ہی پھوڑ دیں
لیکن حیف ہے کہ رپورٹر نے پوچھا اور ڈاکٹر نے یہ بھی نہیں کہا کہ ایسے
شرمناک سوالات کے جوابات دینا میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا۔ یہ ساری کاروائی
میں نے ایک ٹی وی چینل پر سنی تو شرم کے مارے ٹی وی بند کردیا۔
بے حیائی کی تشہیر سے قرآنی حکم کے تحت ممانعت ہے ۔ جس پر ظلم ہوا ہے وہی
بیان کرسکتا ہے۔ ظالم، بے حیا اور غیرت باختہ فرد کو اذیت ناک موت سے دوچار
کیا جائے یہی حکم شریعت ہے۔لیکن پاکستان میں ایسا قانون سرے سے نہیں بنایا
گیا کیونکہ قانون ساز افراد یورپ کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اوروہاں سے
اسلامی اقدار اور قوانین کے خلاف وہ کچھ آئے گا جس کے نتیجہ میں نوجوان نسل
غیر اسلامی اور غیراخلاقی کام کریں گے۔
علم کس چیز کا نام ہے؟ جس علم کی اساس قرآن و سنت پر نہ ہوگی وہ گمراہی
ہوگی۔ خدا شناسی، تقویٰ بغیر دینی تعلیم کے حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ اخلاق تو
دین اسلام سکھاتا ہے اور ہمارے ملک میں کچھ بچے تعلیم بوجہ غربت حاصل ہی
نہیں کرسکتے اور جو استطاعت رکھتے ہیں انہیں مروجہ سلیبس کے مطابق جو تعلیم
دی جارہی ہے وہ دینی امنگوں کے خلاف ہے۔ بھانت بھانت کے نصاب اس پاکستان
میں پڑھائے جارہے ہیں۔ یورپ خاص کر برطانیہ کی ہمارے تعلیمی اداروں اور
نظام میں دراندازی ہمارے قومی تقاضوں کی تکمیل میں حائل ہے۔ برطانیہ کا
نمائندہ خادم اعلیٰ کو جو پٹی پڑھا دیتا ہے وہ لائی لگ اسی پر چل پڑتا
ہے۔پریشانیوں سے نجات کے لیئے کیا کریں؟ عام تعلیم کے لیئے مساجد کو مرکز
تعلیم بنایاجائے، سلیبس کی اساس قرآن و سنت کو بنایا جائے۔ غریبوں کے بچے
جو غربت کی وجہ سے مختلف قسم کے کاموں پر لگ جاتے ہیں ان میں زیادہ بے
رہروی ہوتی ہے۔ حکومت اپنے اخلاص کا اظہار یوں کرے کہ بلا تفریق سرکاری/نجی
تعلیمی اداروں میں داخل ہونے والے بچوں کا کم از کم 500=/ روپے ماہانہ
وظیفہ مقرر کرے اور کتب و لباسی مفت فراہم کرے ۔ ایسا اعلان ہوتے ہی لاکھوں
بچے داخل ہوجائیں گے۔ بالغوں کو فوری طور پر کسی نہ کسی کام پر لگایاجائے۔
یہ کچھ مشکل نہیں ۔ضروری مذہبی تعلیم لازمی کردی جائے۔ نشریاتی اداروں کو
مخرب الاخلاق اور غیر اسلامی پروگرام دکھانے پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ
کہ غیراخلاقی پروگرام دیکھ کر نوجوان نسل جنسی تسکین کے لیئے غیر انسانی
حرکات کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے لیئے قومی نصاب تعلیم فوری طور پر تیار
کیا جائے۔ اس وقت تو کہنے کو اسلام پسندوں کا اقتدار ہے تو پیرامین الحسنات
شاہ کی سربراہی میں قومی نصاب تعلیم کمیٹی تشکیل دی جائے جو نئے تعلیمی سال
سے جدید نصاب قوم کو دے۔ پھر دیکھیں کہ دہشت گردی اور غیر انسانی کرتوتوں
میں کس درجہ کمی واقع ہوتی ہے۔ اﷲ مسلمانوں کو مسلمان بنادے آمین۔ |