اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ مدارس دینیہ
اسلام کے وہ قلعے ہیں کہ جن کے کمزور ہونے سے اہل اسلام کا کمزور ہونا
یقینی امر ہے اور جن کے مستحکم ہونے سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں
اور اہل اسلام بھی مستحکم ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں دینی مدارس نے اپنی ذمہ
داریاں پوری کیں، وہ معاشرہ ہمیشہ دینی اقدار کا علمبردار رہاہے اور اس
معاشرے میں احکام الہٰی کی حاکمیت کی بر کت سے انسانوں نے پ ±ر امن زندگی
گزاری ہے اور جب بھی کسی مسلمان معاشرے میں انسانی قدروں کی پامالی، گناہوں
کی بہتات، نیکیوں کا فقدان، ظالموں وستم گروں کی حکمرانی، مکار وعیاروں کی
بھر مار، جاہل ونادان افراد کا مسند علم وفتویٰ پر قبضہ،جھوٹ موٹ کے
دانشوروں اور اسکالروں کی مذہبی اجارہ داری اور اہل علم و تقویٰ کی قدر کم
ہوجائے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس معاشرے میں دینی مراکز سے کہیں نہ کہیں
اور کچھ نہ کچھ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی ضرور ہورہی ہے۔ علماءکرام اور
اسلامی مراکز کی سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی معاشرے کی نظریاتی سرحدوں کی
حفاظت کے ساتھ ساتھ دینی احکام کی نشرواشاعت اور لوگوں کی زندگی کو اسلامی
احکام کے سانچے میں ڈھالنا، اسلام کے خلاف کھلنے والے ہر محاذ کا مقابلہ
کرتے ہوئے دین برحق اسلام کو قرآن اور سنت کے سر چشمہ سے لے کر بغیر کسی
کمی بیشی کے آئندہ نسلوں تک منتقل کر نا اور اسلام میں ہر قسم کی بدعت کے
دروازے بندکر کے اس الہٰی امانت کو تحریف و تبدل کے خطرات سے محفوظ رکھنا
ہے۔ دینی مدارس جہاں بیانات کے ذریعے اسلام کی نشرواشاعت کے امین ہیں ،وہاں
قلم کے ذریعے بھی اسلا می ورثے کو محفوظ رکھنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔اِن
مراکزمیں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اسلامی موضوعات میں تحقیق و تصنیف کاکام
انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے اسلاف و اکابر نے جو علمی ورثہ ہمارے لیے چھوڑا ہے
اور جن عظیم الشان علمی ذخیروں کے بل بوتے پر آج ہمارا دینی وعلمی تشخص
قائم ہے۔ وہ انہی مدارس دینیہ کے اندر درس وتدریس کر نے والے علماءکرام کی
دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے ناکافی وسائل کے باوجود عظیم الشان
کتابیں تالیف کیں اور اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر سوال کا مسکت علمی و
تحقیقی جواب دیا ہے۔ کسی بھی دور میں معاندین کے شبہات کا جواب دینے میں
ذرا بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔
آج مدارس اور طلبہ میں علمی و تحقیقی ذوق کی جس قدر ضرورت و اہمیت محسوس کی
جارہی ہے ،شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔ آج باطل کی جانب سے دین اسلام پر بہت ہی
منظم انداز میں علمی و تحقیقی سطح کے شاطرانہ اعتراضات کی بوچھاڑ ہے۔ اس
دور میں بھی اگر امت کے رہنمائے دین فقط درس وتدریس اور وعظ وبیان تک محدود
رہے اور تحقیق و جستجو کا میدان خالی چھوڑ دیا تو بعید نہیں کہ اغیار اور
دشمنان اسلام اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے اس میدان کو پ ±ر کر نے کی
کو شش کرنے لگیں ، جیسا مستشرقین کے ہاتھوں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر کیا
جارہا ہے اور علم وعمل سے عاری نام نہاد محققین اور مستشرقین کی اسلامی
تحقیقات سے متاثر اذہان دین کے بارے میں کھل کر اظہار رائے کر نے لگے ہیں
اور دینی علوم وفنون پر روشن خیالی اور جدیدیت کی آفات حملہ آور ہو چکی
ہیں۔مستشرقین اہل اسلام کو اسلام سے بدظن کرنے کے لیے جس محنت اور جستجو سے
کام کررہے ہیں، اس تحقیق و جستجو کے ساتھ تو ہم بھی شاید کام نہیں
کررہے۔مستشرقین نے اسلام،قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر، فقہ اور اسلامی علوم پر
اعتراضات کرنے کے لیے اپنی پوری زندگیاں وقف کردیں ہیں اور بے شمار کتابیں
لکھ چھوڑی ہیں۔اسلامی علوم میں خامیاں ڈھونڈنے کے لیے اسلامی علوم کو اتنا
زیادہ پڑھا کہ ہمارے ہی متعدد علوم پر ہم میں سے بہت سوں سے زیادہ عبور
حاصل کرلیا ہے۔بلکہ اسلام کی دشمنی میں انہوں نے اسقدر تحقیق کی کہ بہت
مرتبہ ان کی کی ہوئی تحقیق ہمارے لیے بھی مفید ثابت ہوجاتی ہے۔مستشرقین کا
مقصد تو فقط لوگوں کو اسلام سے دور کرنا ہوتا ہے۔پھر یہی لوگ مسلمانوں کی
غلط رہنمائی کرتے ہیں۔ قوم کو الٹی پٹیاں پڑھا کر راہ راست سے ہٹا دیتے
ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ سب کچھ فقط دینی مراکز اور اسلامی مدارس کی اپنی
دینی وعلمی ذمہ داریوں سے بے توجہی سے ہی صحیح، غفلت کا نتیجہ ہے۔مدارس اور
طلبہ نے اپنی ذمہ داریوں سے کچھ ہی پہلو تہی کی تو تجدد پسند لوگ
آگئے۔ڈاکٹروں، پروفیسروں اور نام نہاد دانشوروں کی کھیپ کی کھیپ میدان میں
آگئی اور آکر قوم کو دین سیکھانے کے ٹھیکے دار بن بیٹھے۔
سالہا سال تک دقیق ترین اسلامی علوم وفنون میں سر کھپانے والے علمائے دین
کی ذمہ داری یہی نہیں کہ وہ صرف کتابیں پڑھ لیں اور بس، بلکہ ان کی سب سے
بڑی مسولیت دین اسلام کا تحقیقی انداز میں علمی، وفکری میدان میں دفاع ہے۔
ہمارے اسلاف نے بھی علمی و تحقیقی محاذ کو سنبھالا تھا اور ہر ہر علم پر
مکمل تحقیق کرکے امت مسلمہ کے لیے ایسے ایسے علمی ذخیرے چھوڑ کر گئے ہیں ،
جنہیں دیکھ کر آج سوچ دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک ایسے دور میں جب وسائل نہ ہونے
کے برابر تھے، اتنا علمی و تحقیقی کام کیا جو وسائل سے اس بھرپور دور میں
کیا جاناممکن نظر نہیں آتا۔آج اغیار کی کوشش ہے کہ وہ اس دنیا پر اپنا مادی
فلسفہ مسلط کر دیں۔ لہٰذا دینی مدارس کی ذمہ داری اس لحاظ سے بہت ہی سنگین
ہو جاتی ہے، ا ±نہیں علمی، تحقیقی ونظریاتی محاذ پر چومکھی جنگ لڑنی ہے اور
ہمارے مدارس کو ہر قسم کے علمی اسلحہ سے لیس کر نا ان اداروں کے منتظمین کی
سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ہمارے دینی مدارس میں اس وقت علمی وتحقیقی کام کی
جتنی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے مدارس کے ذمہ دار افراد کو اس ذمہ داری کی سنگینی
کااحساس ہو جائے تو وہ تمام طلبہ کرام کو علمی وتحقیقی کام میں زبردستی
لگادیں۔اگرچہ ہمارے دینی مدارس گوناں گوں مشکلات ومسائل کا شکار ہیں، وسائل
کی کمی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے بھی وسائل کی کمی کے
باوجود ہی اتنے بڑے علمی و تحقیقی ذخیرے چھوڑے ہیں، اس دور میں ہمارے پاس
کم از کم ان سے تو زیادہ ہی وسائل ہیں۔
اس دور میں تحقیقی ذوق کے فقدان کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر کوئی عالم دین یا
طالب علم اپنی ذاتی دلچسپی اور کاوش کی بنا پر کوئی تحقیقی کام کر تا بھی
ہے، ایک تو اسے منظر عام پر لانے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور دوسرامسئلہ یہ
ہوتا ہے کہ اس کی اس قدر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جس کا وہ مستحق ہے
۔کوئی بھی قوم تحقیقی ذوق اور حوصلہ افزائی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔آپ
یورپ کو ہی دیکھ لیں کہ آج پوری دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے
کہ یورپ میں طلبہ کی ہر لحاظ سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔انہیں تحقیقی کام
کرنے کے مکمل مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔طلبہ کے تحقیقی کام کو منظر عام پر
لانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی ادارے قائم کیے ہوئے ہیں،ان اداروں
کا کام صرف یہی ہے کہ وہ طلبہ میں تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیںاور
پھر طلبہ جو تحقیقی سامنے لاتے ہیں اس کی مکمل حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور
اسے منظر عام پر لایا جاتا ہے۔یہ ادارے صرف طالب علموں کو تعلیم کے مختلف
ذرائع ہی فراہم نہیں کرتے، بلکہ ان کے لیے تحقیق کے دروازے بھی کھولتے ہےں۔
یہ ادارے طلبہ کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہےں۔یہ ادارے
تحقیق میں طلبہ کی دلچسپی بڑھانے کے لیے ہر سال مقابلہ جات بھی کرواتے ہیں۔
مقابلہ جات میں حصہ لینے والے طلبہ کو بیش بہا انعامات سے نوازا جاتا ہے
اور ان کی بے انتہا حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
ایک طرف تو مدارس دینیہ کے طلبہ کرام میں مطالعہ و تحقیق کا ذوق ختم ہوتا
جارہا ہے۔طلبہ محنت طلب کام سے دل چرانے لگے ہیں۔دوسری طرف مدارس کی جانب
سے بھی نہ تو ان کو اس حوالے سے کوئی خاص ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ہی
تحقیقی کام کرنے پر ان کی کوئی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ہونا تو یہ چاہیے کہ
مدارس میں جو رہا سہا تحقیق کا ذوق ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔جو طلبہ
کرام علمی و تحقیقی کام کرتے ہیں ان کا کام منظر عام پر لایا جائے،جو کام
اتنا بہتر ہوکہ جس سے قوم استفادہ کرسکتی ہے اسے شائع کروانے کا بھی کوئی
انتظام ہونا چاہیے۔تاکہ دوسرے طلبہ میں بھی شوق پیدا ہواور قوم کو بھی پتا
تو چلے کہ ابھی بھی ہم میںبہت سے ہیرے چھپے ہوئے ہیں۔ابھی بھی اپنے فرض
منصبی کو پورے حق اور محنت کے ساتھ ادا کرنے والے نوجوان اس ملت میں موجود
ہیں،جو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس امت کو علم و تحقیق کا بہت
بڑا خزانہ دینا چاہتے ہیں۔ سرکاری سطح پر نہ صحیح کم از کم مدارس کی سطح پر
ہی کوئی ایسا متفقہ ادارہ قائم کیا جائے،جو پاکستان بھر کے مدارس کے طلبہ
میں تحقیقی ذوق کو جانچے اور سال میں وقتا فوقتا ایسے پروگرام کرواتا رہے
،جن میں طلبہ کا تحقیقی کام منظر عام پر لایا جائے اور اس پروگرام میں شریک
طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے۔اس سے یقینا تمام طلبہ میں تحقیقی کا م کا
ذوق پروان چڑھے گا۔اور یہی سلسلہ ہر مدرسے کی سطح پر بھی ہونا چاہیے،
اساتذہ اپنی نگرانی میں طلبہ سے مختلف موضوعات کا مطالعہ کروائیں،اور مختلف
موضوعات پر مقالاجات لکھوائیں، اگر کوئی تحقیقی کام اچھا کیا ہوا اور وہ
قوم و ملت کا لیے نفع بخش ہوسکتا ہے تو اسے شائع کروانے کی بھی کوئی ترتیب
بنائی جائے۔اہل یورپ نے اپنے طلبہ میں تحقیقی ذوق کو پروان چڑھایا اور اپنے
طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جس سے تاریک ماضی رکھنے والے یورپین آج پوری دنیا
پر حکمرانی کررہے ہیں جبکہ ہم جن کا ماضی شاندار و روشن ہے، جب ہم اپنے
اکابر کے نقش قدم پر نہ چلے اور تحقیقی اور علمی ذوق کو خیرباد کہا تو پستی
کی گہرائیوں میں جاگرے۔ اغیار ہماری روشن روایات پر عمل پیرا ہوکرکامیابی
حاصل کررہے ہیں اور ہم اغیار کی تاریک روایات کی راہ پر چل کر ناکامی کا
منہ دیکھ رہے ہیں۔ |