السلام علیکم
میں اپنے تمہیدی کلمات میں استاد کا مقام اسلام کی روشنی میں اس کے متعلق
کچھ باتیں کہنا چاہوں گا۔
جب سے کائنات کی تخلیق ہوئی اس وقت سے لیکر آج تک انسان کی بزرگی ء کمال
علم و ادب کی وجہ سے ہے اسی لئے ہر زمانے میں علم اورصاحبِ علم کو ہر ذی
شعور انسان نے عزت کی نظروں سے دیکھا۔چونکہ علم ہی ایک ایسا انمول جوہر ہے
جو تمام نعمتوں پر فوقیت لے گیا۔یہی وجہ ہے کے دنیا نے استاد کی تعظیم و
تکریم کو عین سعادت مندی جانا۔خصوصاََ مذہب اسلام نے اس کے درجہ کو بلند
کرتے ہوئے نماز جیسی اہم عبادت میں بھی فراموش نہیں کیا۔
انسان کے دو باپ ہیں نمبر ایک صْلبی یعنی حقیقی نمبر دو روحانی یعنی استاد۔
حقیقی باپ پر اپنی اولاد سے متعلق یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کے وہ اولاد کی
پرورش کرے اور اسکی حاجت پوری کرے۔ لیکن روحانی باپ یعنی استاد کا کام یہ
ہے کے بچوں کا تعلیمی معیار بلند کرے اور ایک بچہ جو اپنی حقیقت سے نا آشنا
اور انسانیت کی اصلی روشنی سے محروم ہوتا ہے اس کو انسان کے صحیح معنی سے
روشناس کراتے ہوئے گمراہی سے راہِ راست پر لائے۔ استاد ہی ہے جواپنے سینے
کے خزانے کو شاگرد کے سینے میں منتقل کر کے جھوم اٹھتا ہے۔اس کی کوشش یہی
ہوتی ہے کے کسی طرح طالب علم کے تعلیمی معیار کو بلند کرے اور اس کو زمانے
میں کامیاب بنایاجائے۔
علم کی تحصیل کے لئے استاد کی تعظیم و تکریم اور پھر صحیح معنوں میں اس کی
خدمت کی ضرورت ہے اس کی تعظیم اور محبت کے بغیر اس کے خزانے علم سے فیضیاب
ہونا نا ممکن ہے۔ایک سعادت مند طالبِ علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد
کو آقا اور خود کو غلام تصور کرے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایامیں اس
شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے علمِ دین سے ایک حرف بھی سکھلایا اور اْسے
اختیار ہے کے مجھے فروخت کردے، آزاد کردے ، یا اپنی خدمت میں رکھ لے۔ اس سے
بڑھ کر اور کیا جملہ ادا ہو سکتا ہے جو استاد کے حق کی وضاحت کرے۔اتنا
جاننے کے بعد ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ تمام حقوق پراستاد کا
حق بلند ہے کیونکہ وہ ہمیں گمراہی سے نکال کر کامیابی کی طرف لے جاتا
ہے۔اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ملک کی قسمت استاد کلاس روم کی چار
دیواری میں بناتے ہیں۔اس تعلق سے میں انگریزی میں ایک ماہرِ علمیات کا قول
پیش کر رہا ہوں۔
Prof Humayun Kabir writes Teachers are literally the arbiters of a
nations destiny.He is essentially a nation builder.He is the keyman on
whom depends the future of the child and the mankind.
اسی طرح کسی نے حضرت سکندر ذوالقرنین سے سوال کیا کہ آپ کیوں اپنے والدین
سے زیادہ استاد کی خدمت اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے
سمجھایا کہ میرے والدین مجھ کو آسمان سے زمین کی طرف لائے ہیں لیکن استاد
کے ذریعے میں زمین سے آسمان کی طرف جاوئں گا۔یعنی میں والدین کے ذ ریعے
عالمِ ملکوت سے عالمِ فنا کی جانب اتارا گیا ہوں جس میں خالص فسادات ہیں
لیکن استاد کے ذریعے انسان ان فسادات سے بچ نکلنے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو
راہِ راست پر لانے کا کام کرتا ہے۔
میں اب اپنے نفسِ مضمون کی طرف آرہا ہوں بچوں کا تعلیمی معیار بلند کرنے
میں اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔ ماں باپ بچہ کو صرف جنم دیتے ہیں لیکن
استاد انہیں علم کے سمندر میں ایسی تیراکی سکھاتے ہیں کہ بچہ ہر طوفان کا
مقابلہ کر سکتا ہے۔جس طرح مالی اپنے باغیچہ میں پودا لگانے کے بعد اْسکی
نشونما کے لئے زمین ڈھیلی کرتا ہے آس پا س کی گھاس کو نکالتا ہے کھاد ڈالتا
ہے پانی دیتا ہے اسی طرح سے استاد بچے کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں
پہلے اسکے دماغ کو وسعت دیتے ہیں ان میں نئی سوچ پیدا کرتے ہیں اور منزل
دکھاتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ منزل کو حاصل کرنے کے لئے سہی راستے پر چلاتے
ہیں۔بچوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے لازمی ہے کے استاد کا مطالعہ
گہرا ہو۔میں نے ایک قول ــمطالعہ کے تعلق سے معتبر حوالے سے سنا ہے کہ جو
استاد بنا مطالعہ کے بچوں کو پڑھاتا ہے گویا وہ بچوں پر ظلم کرتا ہے۔استاد
اگر سہی نہیں تو وہ بچے کا مستقبل سنوار نہیں سکتا۔اسکے تعلق سے ایک
انگریزی قول پیش کر رہا ہوں۔
Dr E.A.Pires stated,if a nation's teachers are C3 the nation itself
cannot but be C3.And let there be no doubt about this.If we wish to be
an A1 nation our teachers have to be A1.
جہاں تک طلباء کے تعلیمی معیار کا تعلق ہے یہ وہ گوہرِ مقصود ہے جو کسی
سوچے سمجھے طریقہء عمل سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔دراصل تعلیمی معیار سے
مراد وہ تبدیلیاں ہیں جو استاد ایک مخصوص نصاب اورمتعےّن طریقہء تدریس کے
ذریعے طلباء میں لانا چاہتے ہیں یہ تبدیلیاں طلباء کے خیال و عمل کو متاثر
کرتی ہیں اور مختلف حلقوں میں رونما ہوتی ہیں۔مثلاً حصولِ معلومات سے مبلغ
علم میں اضافہ ہوتا ہے۔معلومات اور حقائق کی بنیاد پر طلباء کو بصیرت حاصل
ہوتی ہے۔ذہنی و جسمانی مہارتوں سے ہنر مندی پیدا ہوتی ہے۔ان سب کی بنیاد
پرمختلف علومِ فنون سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے جو آئندہ زندگی میں طلباء کے
اندر تحریکِ ذہنی کا باعثبنتی ہے اور طلباء میں انسان ،فطرت اور سماج سے
متعلق صحیح روےّے فروغ پاتے ہیں۔ تعلیمی معیار بہت کچھ ان قوانین سے بھی
متاثر ہوتے ہیں جن کا تعلق طلباء کی پختگی، نشونما اور انسانی رشتوں سے
ہے۔کمرہِ جماعت کے اندر انسانی رشتوں کا خصوصیت کے ساتھ لحاظ رکھا جاتا ہے
اور اس کی رو سے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ جماعت کا ہر بچہ دوسرے ہم سبق سے نہ
صرف مختلف ہے بلکہ اپنی جملہ صلاحیتوں کے اعتبا ر سے منفرد اور انوکھا بھی
ہے۔ یعنی جماعتی تعلق کے ساتھ ساتھ اس کی ایک مسلّم انفرادیت بھی ہے۔لہٰذا
اسا تذہ ایسے مقاصد کے تحت کام کرتے ہیں جس میں بیک وقت جماعتی احساس
پیداکریں تاکہ جماعت یا کلاس روم میں بچوں کے درمیان اونچ نیچ بھی نہ پیدا
ہو اور بچوں کے انفرادی تقاضوں کو بھی تکمیل کریں اور ان کے تعلیمی معیار
کو بلند کریں۔
استاد بچوں کا تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں کافی اہم رول ادا کرتے
ہیں۔استاد طلباء میں ایسی عادت پیداکرتے ہیں کہ وہ ادبیات سے محبت کر یں
تاکہ وہ اچھے اور برے ادب میں تمیز کر سکیں اور اچھے ادب کے مطالعے سے
زندگی کی اعلیٰ قدروں کا عرفان حاصل کرسکیں۔ طلباء میں اس بات کی صلاحیت
پیدا کرنا کہ وہ ادب کے ذریعے اپنے خیالات،جذبات اور وِجدان (جاننے) کی
تربیت کر سکیں اپنی ذہنی قوتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاسکیں اور
ادب کی ان قدروں سے سچی محبت کر سکیں جن سے زندگی عبارت(مضمون) ہے۔
اسکے علاوہ بچوں کو مختلف اصناف ادب سے روشناس کرانا۔زندگی کے مختلف شعبوں
سے متعلق معلومات پہنچانا اور پیشہ وارانہ امور میں استفادہ کرنے کی صلاحیت
پیدا کرنا۔حصولِ معلومات اور لطف اندوزی کے لئے مطالعے کی عادت میں استحکام
پیدا کرنا۔طلباء میں جمالیاتی،تخیلی اور تخلیقی صلاحیتوں کی نشونما کرا
نا۔طلباء میں استدلالی فکر کی صلاحیت پیدا کرانا۔طلباء کو مشاہرین ادب کے
تخلیقی کا رناموں سے واقف کرانا اور انھیں اس بات کے لئے اکسانا کہ وہ اپنے
ذوق کے مطابق خود بھی کوئی اسلوب اختیار کرسکیں۔
لہٰذا استاد کا کردار بچوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں بہت اہم ہے۔یہ
وہی ہیں جو بچوں میں بیداری پیداکرتے ہیں ان میں سہی اور غلط کی پہچان
کرواتے ہیں۔اور ملک کو مستحکم بناتے ہیں۔میں اپنا مضمون ایک شعر کے ساتھ
ختم کرنا چاہتا ہوں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں |