سیاسی مداخلت ملازم کو معلم بنانے میں بڑی رکاوٹ ہے

8 ستمبریوم عالمی خواندگی ہے پوری دنیا میں اسے زوروشور سے منایا جاتا ہے اور تعلیم کی اہمیت و افادیت کو اجاگرکرنے کیلئے پروگرام، سیمینارز،تقاریر اور تقاریب منعقد کی جاتیں ہیں اور قلم کار حضرات اپنے قلم کی نوک سے صفحہ ابیض پر اپنے علم کے موتی پروتے دکھائی دیتے ہیں۔وطن عزیز میں بھی کہیں کہیں اس قسم کی تقریبات ترتیب دے لی جاتی ہیں جن کا مقصد حقیقتا فوٹو سیشن ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی لفظ اقرا سے اپنی تعلیم کا آغاز کرنے والی قوم خواندگی کے میدان میں اڑتی گرد میں کہیں بہت پیچھے نشان منزل کھو چکی ہے۔دنیا میں پانچ ممالک ایسے ہیں جہاں پر شرح خواندگی سو فیصد ہے اگر یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان ممالک نے اپنا اوڑھنا بچھوناتعلیم(پڑھنا،لکھنا،سیکھنا،سکھانا)کو بنا لیا ہے اور آج دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کہیں ننانوے فیصد تو کہیں پچانوے فیصد کہیں بیانوے تو کہیں نوے فیصد۔پاکستان میں شرح خواندگی 26 فیصد سے 43 فیصد تک کلیم کی جاتی ہے جو کہ انتہائی حد تک مایوس کن ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نے تعلیمی امرجنسی نافذ کی ہوئی ہے جس کا مقصد سکول نہ جانے والے بچوں کو انرول (Enroll) کرنا ہے لیکن اس میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور اس وقت تک ممکن بھی نہیں جب تک تمام لوگ بالخصوص اساتذہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام نہ دے لیں۔وہ ذمیہ ڈیوٹی کو بطور ملازم بن کر بادل نخواستہ سر انجام دیتے ہیں بطور معلم بن کر اپنے فرائض منصبی سے سبک دوش ہونے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ یہی بگاڑ کی جڑ ہے اور اس بگاڑ کو سدھار میں اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جاسکتا جب تک مروجہ لائحہ عمل کو اپنے روزمرہ کے معمولات میں شامل نہ کیا جائے گا۔

راقم ایک تقریب میں مدعو تھا جو کہ ایک این جی او کی جانب سے کنڈکٹ کی گئی۔ جس میں’’ تعلیمی مسائل اور موجودہ وسائل ‘‘کے حوالے سے ایک مکالمہ تھا۔ جس میں بتایا گیا کہ صرف ضلع لودہراں50 ہزار سے زائد بچے جن کی عمر4-16 سال ہے،سکول نہیں جاتے ان میں اور ان کے والدین میں تحریک پیدا کرنے کے حوالے سے تجاویز بلکہ قابل عمل تجاویز پیش کی گئیں۔ اور میرا ماننا ہے کہ وہ تجاویز ایسی تھیں کہ جن کو بآسانی نافذالعمل کیا جاسکتا ہے اور خواندگی کی شرح کو نہایت حد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ خواندگی کی شرح میں اضافہ صرف اور صرف استادیا پھر گورنمنٹ کی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹرائی اینگل ہے کہ جس میں والدین سٹوڈنٹ اور اساتذہ کا کردارمسلمہ ہے اور اگر ایک اینگل بھی مس ہوتا ہے کمی یا ضعف کا شکارہوتا ہے تو بہت مشکل ہے کہ وہ تکون اپنا وجود مضبوطی سے برقرار رکھے۔اس تکون کو مضبوطی او ر سہارا دینے میں زیادہ اہم کردار اساتذہ اور والدین کا ہے۔ ہمارے ہاں ایک چیز جو بڑی تیزی سے ہم میں سرایت کرتی جارہی ہے وہ ہے اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی برتنا۔ اپنے فرائض دوسرے کے سر تھوپنے کی کوشش کرنا۔ ہم خواہش اور کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں خود سے کوئی کام نہ کرنا پڑے۔ کوئی دوسرا تیسرا ہمارے اس کا م کو ہمارے لئے سرانجام دے دے۔جوکہ نہایت ہی نامعقول سوچ اور رویہ ہے۔یہی سوچ اور رویہ ہمیں کام کی عظمت کے درس کو بھلائے دے رہی ہے اور اب ہماری جوتے کھانے والی ہوچکی ہے۔سب سے پہلے تو اس فیکٹر(سبب)کو ختم کرنا ہوگا جس کے ذمے جو کام ہے جب اسے نیک نیتی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دے گا توکوئی امر مانع نہیں کہ ہم دنیا میں کسی سے پیچھے رہ جائیں

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم سدھر جائے۔ شرح خواند گی میں اضافہ ہوجائے اور ہر شخص اپنی ذمہ داری بخوبی احسن طریقے سے سرانجام دے تو پھر اس بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ’’سیاسی مداخلت‘‘کو اس نظام سے ختم کرنا ہوگامیں دعوی سے شرط لگاکر کہتاہوں کہ 90 فیصد بگاڑ ختم ہوجائے گا۔90 فیصد سدھار آجانے سے شرح خواندگی دنوں میں ترقی و بڑھوتری کی جانب گامزن ہوجائے گی۔کیونکہ سیاستدانوں اور ان کے چیلوں کی بنا پر محکمہ تعلیم ایک طوائف بن کر رہ گیا ہے۔جب جس کا جی چاہتا ہے۔استاد کی تذلیل کردیتا ہے۔تبادلہ،معطلی و برطرفی کی دھمکی دے کر اپنے جائز و ناجائزکام کروالئے جاتے ہیں۔ بھگتنا پھر استاد کو پڑتا ہے (یہ وہ چندفیصداستاد ہیں جو کہ پڑھانا چاہتے ہیں)۔چہیتے استاد سوائے ایک کام کے ہرکام سے بری الذمہ ہوتے ہیں۔سکول آتے ہیں پڑھاتے ہیں اور نہ ہی انہیں پڑھانے سے سروکار ہوتا ہے۔ ہیڈ ماسٹر سے لیکر ای ڈی او ایجوکیشن تک حتی کہ ڈی سی او بھی ان سے بازپرس نہیں کرسکتا۔بالفرض اگر کوئی اس قسم کی’’ حرکت‘‘کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد سیاسی رنگ میں بری طرح لتھڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سکول جہاں پر نونہالان اور معماران قوم نے تعلیم حاصل کرنا ہوتی ہے وہاں پر ایم این ایز ،ایم پی ایز، وڈیرے جاگیر دار یا کسی رسہ گیر کے جانور بندھے ہوتے ہیں۔سکول کی عمارت دیکھ کر اندر جانیوالے اس وقت حیران و پریشان ہوجاتے ہیں جب وہ سکول میں طلبا و طالبات کی بجائے بھینس گدھا گھوڑا بھیڑ بکری یا اونٹ وغیرہ بندھے دیکھتے ہیں۔ یہ گمان ہوتاہے جیسے کہ یہاں پر جانوروں کو زیورتعلیم(چارہ و بھوسہ) سے آراستہ کیا جارہا ہے۔لاکھوں کروڑوں روپے کی کثیر مالیت سے بنائے گئے اکثر پرائمری و مڈل سکول جانوروں کی کھولیاں اور جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔کچھ سکولز ایسے بھی ہیں جہاں پر دونوں کام متوازی چل رہے ہیں گرمیوں سردیوں میں ڈھوڑڈنگر اندر کمروں میں جبکہ ہیڈ ماسٹر اور سکول ٹیچر طلبا سمیت کھلے آسمان تلے ’’درس و تدریس میں ملوث ‘‘ہوتے ہیں لیکن زبان سے شکایت نہیں کرتے۔وزیر اعلی صاحب نئے سکول بنانے ،بلڈنگز تعمیر کرنے کی بجائے پہلے سے موجودسکولز کی حالت زار کو ہی بہتر بنالیاجائے ان سیاسی گرگوں کو لگام ڈال لی جائے۔سکولز کی عمارات کو صرف طلباو طالبات اور درس و تدریس کیلئے استعمال کیا جائے تو یقین جانئے کہ اقرا سے آغاز کرنے والی قوم تکمیل کے تمام مراحل کو بآسانی احسن طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچاسکتی ہے۔ کیونکہ اس بھولی بھالی قوم میں پوٹینشل بہت ہے صرف اسے درست نہج پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 212057 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More