سکول میں ایک تقریب کا انعقاد ہوا اساتذہ
نے مختلف کلاسوں سے مختلف بچوں کو تقاریر ،خاکے،نعت خوانی کے لئے نامزد
کیا۔ایک بچہ جیسے اس تقریب میں تقریر کرنی تھی وہ پریشان تھا کہ وہ معیاری
تقریر کس سے لکھوائے اور کیسے تیاری کر ے کہ اسے شاباش ملے وہ بیٹھا سوچ
رہا تھا کے اس کے ذہن میں خیال آیا کہ فلاں دن ،فلاں پروگرام میں ایک استاد
نے بڑی اچھی تقریر کی تھی انہیں کہتے ہیں کہ وہ مجھے بھی لکھ کر دیں وہ بچہ
استاد کے پاس گیا اور کہا کہ سر! آپ بہت اچھا بولتے ہیں لکھتے بھی اچھا
ہونگے مجھے اپنے سکول کی تقریب میں تقریر کرنی ہے آپ مجھے لکھ کر دیں۔استاد
نے تقریر لکھ کر دی بچے نے تیاری کی اور جب اپنے سکول کے پروگرام میں اس نے
اسٹیج پر آکر تقریر شروع کی تو سب کو حیران کر دیا سب نے اسے شاباش دی بچہ
بہت خوش ہوا اس کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی دوسرے دن اس بچے نے استاد کو فون
کیا ان کا شکریہ ادا کیا ایک دو باتیں کی پھر پوچھا سر! آپ سے ایک بات
پوچھوں سر نے کہا کہ جی پوچھیں بچہ بولا سر! آپ کس فیملی سے ہیں آپ کی
برادری کیا ہے ،استاد نے اس وقت تو بچے کو یہ جواب دیا کہ میں صرف انسان
ہوں میری کوئی برادری نہیں اور نہ کوئی فیملی ہے آپ نے ایسا کیوں پوچھا بچہ
بولا سر میں نے سوچا آپ میری فیملی کے ہیں ورنہ یہاں پر تو وہی کام کر کے
دیتا ہے جو اپنی فیملی کا ہوتا ہے آپ نے مجھے بہت اچھی تقریر لکھ کر دی تھی
اس لئے۔استاد نے بچے کا خوصلہ بڑھایا کہ میں بھی آپ کا اپنا ہوں آپ ایسا
کیوں سوچتے ہو۔ فون تو بند ہو گیا مگر استاد صاحب حیرانگی کے سمندر میں ڈوب
گئے کہ ہم اپنے بچوں کی نفسیات میں کیا فیڈ کر رہے ہیں آج اگر یہ بچہ یا اس
طرح کے لاکھوں بچے جو ہمارے سکولوں میں جاتے ہیں ان کے ذہن میں
برادری،فیملی اور تعصب ڈال دیا جاتا ہے جس سے بچہ نفسیاتی طور پر خود کو اس
معاشرے کا نہیں بس ایک خاندان کا فرد سمجھنے لگتا ہے اور پھر یہی سوچ جب اس
کی پختہ ہوتی ہے تو ایک متعصب قوم جنم لیتی ہے ۔وہ بچے جو قوم کا سرمایا
ہیں ہم اس سرمائے کو اپنی اپنی فیملی میں تقسیم کر کے ہم اپنا ہی نقصان کر
رہے ہیں ۔کہنے کو یہ کوئی بڑی بات نہیں لگتی مگر اس کے اثرات آنے والی نسل
پر بہت بری طرح سے پڑھ رہے ہیں۔جس نے وقت کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے ،وہ
پودے،وہ فصل جو آج تیار ہو رہی ہے جب اس نے تناور درخت بننا ہے آج برادری
ازم،تعصب، کے پانی سے اس کی پرورش ہو رہی ہے تو آنے والے وقت پر کیا امید
کی جا سکتی ہے کہ یہ اپنے دائرے سے باہر سوچے گے۔
سکول ،استاد کسی بھی معاشرے میں ،ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں نرسری اور
کارخانے کی مانید ہوتے ہیں یہ بچے جو آج سکولوں میں جاتے ہیں استاد کی
شفقت،محبت،اور غیر جانبداری سے متاثرہوتے ہیں ان کے ذہن میں آج جو فیڈ کیا
جاتا ہے یہ تا حیات رہتا ہے اسی بنیاد پر یہ کل اپنے اپنے معاشرے میں
پرفارم کرتے ہیں آج اگر سکولوں میں بچوں کو ،اخلاقیات،اسلام،بھائی
چارہ،مینرز،انسانیت،ہمدردی،اخوت،محبت،آپس میں ایک خاندان ہونے کا سبق
پڑھانے کے بجائے صرف کتاب اور برادری،قبیلہ،علاقائی ازم،اپنے اپنے خاندان
کا سبق سیکھایا جائے گا تو کل من حیث القوم کیا یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ
کرینگے۔ یہ بات تلخ اور کڑوی ضرور ہے مگر سچ ہے کہ آزادکشمیر کے سکولوں میں
تعلیم تو دی جاتی ہے مگر ساتھ ساتھ تعصب اور برادری ازم کا زہر بھی بچوں کے
اندر ان کی نفسیات میں بھرا جاتا ہے میرے ایک دوست نے بڑے افسوس سے یہ بات
بتائی کہ وہ پاکستان میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ عرصہ دراز سے سیٹل تھا اس
کے بچے پاکستان کے سب سے اچھے سکول میں زیر تعلیم تھے مگر کچھ خاندانی
مسائل اور مجبوریوں کی وجہ سے اسے کشمیر اپنے آبائی گاؤں منتقل ہونا پڑا اس
نے اپنے بچوں کو کشمیر کے ایک ویل ناون اچھے سکول میں داخل کروایا اس کا
کہنا تھا کہ میں بڑا مطمئین تھا کہ میرے بچے اچھے سکول کے اچھے ماحول میں
ہیں ان کی ذہنی تربیت بہت اچھی ہوگی یہ بچے بغیر نفسیاتی دباو کے اگے بڑھے
گے مگر افسوس کے بچے روز آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ آج فلاں فلاں بچوں نے ان
کوتنگ کیا اور ان کو برادری کا طعنہ دیا ان کو دبایا، بچے شام کو آکر حیرت
سے یہ باتیں کرتے ہیں کہ سکول میں تو ہمارے ساتھ بچے ایسی ایسی باتیں کرتے
ہیں،یہی نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ استاد سے جب بچے اس بات کی شکایت کرتے
ہیں توا ستاد بھی سرد مہری اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں جس سے بچے اور بھی
مایوس ہوتے ہیں کہ سر کوئی ایکشن ہی نہیں لیتے بلکہ بچوں کا پورا نام تک
داخل نہیں کیا جاتا ۔اگر سوچا جائے تو آج کا سیاست دان،بزنس
مین،ڈاکٹر،وکیل،انجینئر،ڈرائیور،دکاندار،جج،منصف،رپورٹر،صحافی ،رائیٹر،اداکار،مولوی،امام،مفتی
،عالم،خود استاد یہاں تک کہ ہر کوئی کسی نہ کسی حوالے سے شاگرد رہا ہے
استاد سے متاثر ہوا ہے اور اس نے تربیت حاصل کی ہے مگر جب سکولوں میں استاد
بچوں کو اپنی اولاد،اور روحانی باپ بن کر نہیں پڑھائیں گے تو وہ اپنی ذمہ
داری ،عہدے،منصب،سے نا انصافی ہی نہیں کرتے بلکہ وہ اس معاشرے میں آنے والی
نسل کے ذہن میں انتشار بھی پیدا کرتے ہے ۔استاد کا مقام روحانی ہے اعلیٰ ہے
لا فانی ہے، استاد کا مثبت کردار،غیر معتصب،رویہ ایسی قوم تیار کر سکتا ہے
جسکو دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکتا، قوموں کو بننے اور بگڑنے میں جو
کرادار استاد کا ہے اس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا صبح سب بچے ایک ساتھ
اسمبلی میں کھڑے ہوتے ہیں اس وقت ان کے اندر جو بھائی چارے اور اخلاقیات کے
دو چار لفظ بولے جاتے ہیں وہ ان کے اندر ہمیشہ کے لئے پیوست ہو جاتے
ہیں۔اگر ہم نے ایک قوم بن کر اس ترقی یافتہ دور کا مقابلہ کرنا ہے اگر ہم
نے آنے والے وقت میں انڈیا اور امریکہ جیسے آستین کے سانپ کا منہ توڑ جواب
دینا ہے تو ہمیں ایک قوم ایک قبیلہ،ایک برادری بن کر ایک ہی
پیار،اخلاق،ہمدری کا سبق پڑھنا ہوگا۔اگر آج ہم نے اپنی اپنی کی تو کل نہ یہ
تیری رہے گی نہ میری پھر وہی گا جو غلام قوموں کا مقدر ہوتا ہے۔اس لئے
اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کو ایک خاندان ہونے کا احساس دلائیں ۔۔۔۔
|