آج کا سلطان

آجکل اپنے وطن مں ایک ترک ڈرامے میرا سلطان نے پوری قوم کو سحر میں مبتلا کر رکھا ہے اور چھوٹا بڑا ہر کوئی خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہے رات کو ڈرامہ دیکھ کر صبح اپنے ہم جولیوں سے ڈرامے کے اور کسی کردار کو ڈسکس کرے نہ کرے حورم کا ذکر ضرور کرتا ہے اس پہ آگے چل کے بات ہو گی فی الحال تھوڑاافسوس اس بات پر کر لیں کہ کبھی پاکستان میں بھی وہ شاہکار ڈرامے بنتے تھے کہ وقت مقررہ پر سڑکیں اور بازار سنسنان ہو جاتے تھے ، میڈیا کا واحد میڈیم ہونے کی وجہ سے پاکستان ٹیلی وژن کو مرکزی اور نمایاں حیثیت حاصل تھی،اکثر لوگ سر شام ہی کھانے پینے کے مشاغل سے فراغت حاصل کر لیتے تھے کہ ڈرامے کا ٹائم اس وقت 8بجے ہوتا تھا،اور ڈرامے بھی وہ ہوتے تھے جنہیں پوری فیملی بچے سے لیکر بوڑھے اور ماں سے لیکر بہن بیٹی تک گھر کے تمام افراد اکٹھے بیٹھ کے دیکھ سکتے بلکہ انتہائی سبق آموز کہانی کی وجہ سے اخلاق و کردار میں بھی بہتری آتی تھی،وارث،اندھیرا اجالا،جانگلوس،زنجیریں، سونا چاندی،اور سورج کے سا تھ ساتھ جیسے لاوازال کردار اور انکے تخلیق کرنے والے اور ان کرداروں کو نبھانے والے اپنے ناظرین کے ذہنوں سے ساری زندگی محو نہیں ہو سکیں گے ،اس کے علاوہ مزاح بھی نہات ہی جاندار اور شاندار تخلیق ہوتا تھا،ففٹی ففٹی،الف نون،نہلے پہ دہلا،چھوٹی سی دنیا،اور بہت بعد میں گیسٹ ہاؤس کے ٹپ ٹپ کرتا میں کمرے میں آتا ہوں مراد اور مائی نیم از ریمبو ریمبو جان ریمبو کاکروچ کلر کے علاوہ باؤ وحید کی :اٹھ اوئے ـ:کون بھول سکتا ہے جبکہ جنگ و جدل کے لیے نسیم حجازی کی تخلیق آخری چٹان اور رضیہ سلطانہ کا طوطی بولتا تھا اس کے علاوہ ایک دو انگلش فلمیں اور پروگرام بھی تفنن طبع کے طور پر دکھائے جاتے تھے،جن میں آدھے گھنٹے کی نو را کشتی یعنی ریسلنگ اور مشہور زمانہ فلم ائر وولف بھی مقبولیت میں اپنی مثال آپ تھیں،خیر یہ نہ میرا موضوع ہے نہ میں اس میدان کاکھلاڑی۔ ضمنی طور پہ بات آگئی تو جو کچھ تھوڑا بہت علم اس بارے میں تھا شیئر کر دیا بات ہو رہی تھی ترک ڈرامے میرا سلطان کی ،یہ ڈرامہ اپنی تخلیق نہیں بلکہ پڑوسی ملک ترکی سے امپورٹڈ ہے جسے اردو میں انتہائی مہارت سے ڈب کر کے پاکستانی ناظرین کے لیے ایک پرائیویٹ چینل سے پیش کیا جا رہا ہے،اس ڈرامے میں جہاں ایک طرف محلاتی سازشیں عروج پر نظر آتی ہیں وہیں دوسری طرف حر ص وحوس کو عشق کا نام دے کر اپنے حیوانی جذبوں کی تسکین کی جاتی ہے ،یہ ڈرامہ دکھاتا ہے کہ مسلمان بادشاہ اور شہنشاہ اپنے دور عروج میں کیا کیا گل کھلاتے رہے،والدہ کنیزوں کو منتخب اور تیار کر کے بیٹے کی خوابگاہ میں بھیجتی ہے ،یہاں ہر چیز طاقت کے کے مرکز یعنی سلطان کے گرد گھومتی ہے اور ہر کوئی اسے اپنا آقا و مالک تسلیم کرتا ہے سوائے ایک والدہ کے ہر کوئی آدھا میٹر خم ہو کے اسے تعظیم دیتا ہے،اس کی کہی ہوئی ہر بات حرف آ خر ہوتی ہے،کسی کو اس کے حکم چاہے وہ کوئی بھی ہو اس سے سرتابی کی مجال نہیں،بادشاہ اپنے آپ کو شہنشاہ دوجہاں کہلوانا اور سننا پسند کرتا ہے اور تمام لوگ اس بات سے متفق ہیں،ڈرامے کی کہانی بتاتی اور دکھاتی ہے کہ نوجوان لڑکیوں کا ایک پورا حرم آباد ہے جس میں سینکڑوں حسین و جمیل لڑکیا ں مو جود ہیں اور ہر وقت اپنا آپ باددشاہ کو پیش کرنے کے لیے بے تاب ہیں ،اور جب کبھی کسی کو اذن باریابی ملتا ہے تو وہ اپنے آپ کو دنیا کی خوش نصیب ترین عورت سمجھتی ہے اور بادشاہ کی خواب گاہ سے ہو کے آنے کے بعد بجائے ندامت و شرمندگی کے اس کا مقام و مرتبہ حرم میں نمایاں ہو جاتا ہے ،حورم نام کی ایک کنیز جو غالباً کسی جنگ میں مال غنیمت کے طور پر ہاتھ آتی ہے کو بھی حرم میں شامل کر لیا جاتا ہے بادشاہ اس کی خوبصورتی سے اس قدر متائثر ہوتا ہے کہ اسے سب سے الگ مقام ومرتبہ عطا کر دیتا ہے اور جب وہ آقا کے تین چار بچوں کی ماں بن جاتی ہے تو اس کے بعد اس سے نکاح کرتا ہے وہ بھی مجبور ہو کر کہ ایک جذباتی لمحے میں حورم کو آزاد کر بیٹھتا ہے اور آزاد کرنے کے بعد حورم نکاح کی شرط لگا دیتی ہے جسے اول محل بدر کر دیا جاتا ہے بعد ازاں بادل نا خواستہ اس سے نکا ح کر لیا جاتا ہے،ساری کہانی بیان کرنا ممکن نہیں اب آتے ہیں اصل بات کی طرف ،بادشاہ کا جب دل کرتا ہے بیٹھے بیٹھائے کسی بھی طرف چڑھائی کا ارداہ کر لیتا ہے،خطے میں بلکہ دنیا میں کوئی دوسرا اس کی ٹکر کا نہیں ،بادشاہ اپنی تمام تر عیاشی اور محلاتی سازشوں کے با وجود طاقت کا نہ صرف توازن قائم رکھتا ہے بلکہ ہر دم اپنی سپاہ اپنے ہتھیار و اوزاروں پہ نظر بھی رکھتا ہے خود جنگوں اور جنگی مقابلوں میں شریک بھی ہوتا ہے،ساتھ ہی ساتھ اپنی رعایا کا بھی خیال رکھتا ہے لوگوں کے دکھ درد بٹاتا اور ان کا مداوا بھی کرتا ہے،فرانس کو فتح کرنے کی مہم پہ نکلتا ہے تو آس پاس کے قبیلے والے ہر قسم کی نہ صرف مددکے لیے تیار ہوتے ہیں بلکہ پہلے اطاعت کا یقین دلاتے ہیں،فرانس کی فوجوں کے سامنے پہنچتا ہے دشمن اسکی طاقت اور ہیبت سے گھبر ا کر اول پچیس ہزار اشرفیاں اور فوج کے آنے جانے کا تمام خرچ اور روٹین میں جگا ٹیکس ادا رکر نیکا یقین دلاتے ہیں اور اشرفیوں کی تعداد شہنشاہ سلیمان کے بولنے سے پہلے بڑھا کر پچیس سے پچاس اور ایک لاکھ تک کر دیتے ہیں ،شہنشاہ فرانس کے شہنشاہ کو معافی دیتاہے اور ساتھ ہی ایک انتہائی حتک آمیز خط بھی اسے بھجوا دیتا ہے،اور پھر وہاں سے واپسی کا قصد کرتا ہے،یہ جدھر چاہتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے چل پڑتا ہے کوئی اس کے راستے میں آنے کی جرات کر سکتا ہے نہ ہی کوئی اس کے مقابل ٹھر سکتا ہے، کیوں کہ اس کے پاس طاقت ہے جی ہاں بے پناہ طاقت اور یہ طاقت و جنگی وسائل اسے ایک جگہ آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے یہ جدھر چاہتا ہے جس کو چاہتا ہے اسے تاراج کر کے رکھ دیتا ہے ،اب آئیے ذرا آج کے حالات کی طرف آج دنیا کے سلطان کی حیثیت کس کو حاصل ہے اور یہ بات دوسری جماعت کے بچے کو بھی پتہ ہے کہ وہ امریکہ ہے،یہ بھی جدھر چاہتا ہے جس کو چاہتا ے برباد کر کے رکھ دیتا ہے میرا سلطان کے بادشاہ کی طرح اس کے بھی اپنے اصول اور ظابطے ہیں یہ دنیا کے کسی بھی ملک کو اپنے جنون اور پاگل پن کے سامنے کسی خاطر میں نہیں لاتا،یہ ایک ورلڈ آرڈر جاری کرتا ہے اور دنیا کے ایک سو نوے ممالک ہماری سی این جی ایسوسی ایشن کی طرح نہ نہ کرتے اس کی ہر ایک بات من و عن تسلیم کر لیتے ہیں ،یہ اتنا منہ زور ہو چکا ہے کہ اپنی بنا ئی گئی اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھتا ہے اس کے باوجود کوئی بھی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا ،کیوں صرف اس لیے کہ یہاں طاقت کا قانون چلتا ہے،نظام ہستی سے لیکر ایک ادنیٰ دفتر اور دکان تک سب کچھ طاقت ہی کے مرہون منت ہے،جو جتنا طاقتور ہے اتنا ہی مقبول ہے طاقت کے اپنے اصول اپنے ضابطے اور اپنے قوانین ہوتے ہیں،اگر غور کریں تو چاند سورج ستارے اور تمام کائنات کا نظام بھی تو ایک زبردست طاقت کے کنٹرول کی وجہ سے ہی تو قائم دائم ہے،یہ ایک دائمی اصول ہے جسے ہم یاد تو رکھتے ہیں مگر صرف اس حد تک کہ اپنے اسلاف کے قصے کہانیاں سنا سنا کہ ہی کام چلانا چاہتے ہیں جو کہ موجودہ دور میں ممکن نہیں،روز نت نئی ایجادات اور سائنس کے کمالات جہاں ایک طرف امریکہ کو اوج ثریا پہ لیے جا رہے ہیں وہیں ہم جیسوں کا سفر نہ جانے کیوں پاتال کی طرف جاری و ساری ہے،اب امریکہ نے گذشتہ روز ایک ایسی کار متعارف کروا کے 53کلومیٹر کی ٹیسٹ ڈرائیو بھی کر لی کہ یہ کار مکمل طور پر ایکسیڈنٹل فری ہے یہ خود کار نظام کے تحت دی گئی منزل پہ پہنچ جاتی ہے،اور مزے کی بات یہ کہ اس کے لیے ڈرائیور کی ضرورت نہیں،مزید سنیئے کہ یہ خود بخود لین تبدیل کر لیتی ہے اگلی گاڑی سے اورٹیک بھی کر لیتی ہے اور اسپیڈ بھی خود بخود کم یا ذیادہ کر لیتی ہے،اور یہ کار ایک یونیورسٹی کے طلبہ و سٹوڈنٹس کی مشرکہ کاوش ہے ،اس کے علاوہ نظروں سے پوشیدہ ہو جانے والا ٹینک تو اب کافی پرانا ہو چکا ہے کہ جو اپنے اوپر پڑنے والی روشنی کی ریز کو خود بخود کسی دوسری طرف ڈائیورٹ کر دیتا ہے ،اس کے علاوہ آبدوزیں ریڈار میں نظر نہ آنیوالے جنگی جہاز،بین البراعظمی اور خود کار میزائل سسٹم،اور سب سے بڑھ کر نیپام ،ہائڈروجن اور ایٹم بم کی نہ ختم ہونے والی کھیپ،جی ہاں وہی ایٹم بم جو اگر جاپانیوں کے خلاف شاید استعمال نہ ہوتا تو ان کا ارادہ سو سال تک لڑنے کا تھا مگر دو صرف دو ایٹم بموں نے کایا ہی پلٹ دی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے،تھوڑاا سا اس عروج وکما ل کا پس منظر بھی بیان کرتا چلوں اپنے ہاں کسی لائبریری میں جائیں اول تو لائبریری ڈھونڈنا کسی شہر میں جوئے شیر لانے کے مترادف اور اگر مل جائے تو کوئی ڈھنگ کی کتاب توکیا اخبار تک میسر نہیں ہوتاجبکہ جبکہ ادھر کافروں کے ہاں پہلی لائبریری 1157آکسفورڈ،1207کیمبرج،فرانسس ٹریج لائبریری1598،میلاٹسٹا لائبریری1452،ہاور ڈیو ایس اے1636اور کیوبک سٹی کینیڈا1779میں قائم کی گئیں اور ذرا یونیورسٹیوں کی تعداد بھی دل پر ہاتھ رکھ کے دیکھیں امریکہ میں کل تعداد،123000چائینہ میں 51000 انڈیا میں30000،جاپان میں یہ تعداد 3200 ہے اور اپنے ہاں شاید کسی کو یقین نہ آئے مگر تلخ اور شرمناک حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاں اس وقت یونیورسٹیوں کی تعداد 450 ہے جی صرف چار سو پچاس .یوں444444کو پاکستان میں ایک یونیورسٹی میسر ہے،تعلیم سے لیکر کھانے پینے کی اشیاء تک سب کچھ جعلی اور دو نمبر مگر فتوٰی چاہے جیسا مرضی اور جس قسم کا مرضی لے لیں،کبھی آپ نے اپنے اسکول گوئنگ بچے کا آئی کیو لیول ٹیسٹ کیا ،کیجیئے گا بھی نہیں یہ مشورہ ہے جومفت میں دے رہا ہوں ورنہ آپ کے چودہ طبق روشن بھی ہو سکتے ہیں،میرا بیٹا جو چھٹی کلاس کا اسٹو ڈنٹ ہے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چین کے اسکول میں زیر تعلیم ہے جو عام آدمی کی نظر میں غالباً تعلیم کی فیلڈ میں نمبر ون نہیں تو دوسرے نمبر پہ ضرور ہے فیس بھی سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے،اسٹاف بھی ہائی کوالیفائیڈ اور ایجوکیٹڈ ہے اور تعلیم کا معیار دیکھیں کہ گذشتہ روز میں نے بیٹے سے پوچھا کہ اگرپچاس روپے میں ایک کلو سیب آتے ہوں تو پچھتر روپے کے کتنے سیب آئیں گے جواب ملابارہ کلو۔پوچھا 3آدمی 6روٹیاں کھاتے ہیں 4آدمی کتنی کھائیں گے جواب ملا12۔جب اس کی نوٹ بکس منگوا کے چیک کیں تو پتہ چلا کہ ایک ایک ماہ سے اکثر ٹیچرز نے نہ کوئی کام دیا نہ پو چھا،جبکہ گئے زمانوں میں ٹیچرز کا سارا زور لکھنے پر ہوتا تھا کہ لکھے بنا کوئی چیز ذہن نشین ہو ہی نہیں سکتی،مگر آج رٹہ سسٹم عروج پر ہے اور کچھ پرائیویٹ اسکول مالکان نے باقاعدہ بورڈز والوں کے ساتھ اپنے معاملات سیدھے کر رکھے ہیں کہ وہ بھی اپنے ہی پاکستانی بھائی ہیں،قائدعظم کی تصویر کے احترام میں کل نمبرزمیں سے دوچار چھوڑ کے باقی بچے کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں اور بینرز سڑکوں اور چوراہوں پر آویزاں کر دیئے جاتے ہیں حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی گیارہ سو میں سے 1095 نمبر حاصل کر لے مگر اپنے ہاں یہ سب بھی ممکن ہے،تعلیم کا معیار جہاں یہ ہو اسکولوں اور کالجوں کا باقاعدہ مینا بازار اور تعلیم ایک باقاعدہ منعت بخش کاروبار ہو وہاں حالات یہی کچھ ہوتے ہیں جیسے اپنے ہاں ہیں، امرض سب کے سامنے ہے اور علاج بھی سب کے سامنے ،اسلاف کے کارناموں سے لپٹنے اور چمٹنے کی بجائے ان جیسا کوئی کام خود بھی کریں، واحد اور شافی علاج یہ کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فقط یہ قوم علم کو اپنی منزل بنا لے اور بس،،،،،جن کو سمجھ آئی وہ غور کریں اور جن کو سمجھ نہیں آئی وہ حورم کے جلووں سے اپنے من کو بہلائیں کہ بیمار ذہنینت کا علاج اس کے سو ا ممکن ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔