کوئی بھی معاشرہ اس وقت ذلت کی انتہائی پستی میں کود پڑتا
ہے جب اس معاشرے کے لوگ بدی کو بدی نہ سمجھیں بلکہ اس پر اتر ائیں اور اپنے
غلط اعمال پر فخر کریں اورایسے کاموں کو قابل فخر سمجھنے لگیں جو مہذب دنیا
میں بہت غلط گر دانے جاتے ہوں،جب ایسی صورت حال ہوجائے تو پھر معاشرے کا
شیرازہ بکھر جاتا ہے اور لوگوں میں اخلاقیات بالکل ختم ہوجاتی ہیں اور
نفسانفسی کا عالم شروع ہوجاتا ہے ۔اگر تاریخ عالم پر نظر ڈالی جائے تو پتہ
چلے گا کہ جب جب مختلف معاشروں میں ایسے حالات پیدا ہوئے تو ان معاشر وں کا
شیرازہ بکھر گیا اور وہ دنیا کے لیے نشان عبرت بن گئے۔اگر پاکستان کے حالات
کو دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی معاشرہ بڑی
تیزی سے ذلت اور پستی کی گہرائیوں میں گررہا ہے اور ہر آنے والے دن میں
تیزی آتی جارہی ہے۔دنیا جہاں کی ساری بداعمالیاں ہمارے معاشرے میں بڑی
مضبوط جڑیں پکڑ چکی ہیں ۔ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو ٹریفک سگنل توڑ کر
اس پر فخر محسوس کرتی ہے ،جو قوم سیفٹی ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ پولیس کے ڈر سے
پہنتی ہے ۔ جو دوسروں کاحق کھانے کو اپنا جائز حق سمجھتی ہے ،جہاں صوبائیت
اور قومیت کے نام پر لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں ،جہاں 70،80 سال کے بعد
بوڑھے مجبور لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال
نہیں،جہاں رشوت کھانے کو اپنا جائز حق سمجھا جاتا ہے ،جہاں میرٹ کی دھجیاں
بکھیری جاتی ہیں، ،جہاں سیاست کو کاروبار اور وزارت کو وراثت سمجھا جاتا ہے
،جہاں مذہب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے ،جہاں سیاست دان اپنے
تھوڑے سے فائدے کے لیے ملکی وقار بھیج ڈالتے ہیں،جہاں اپنی ماؤں بہنوں کو
پکڑ کر غیروں کے حوالے کر کے پیسے بنائے جاتے ہیں ،جہاں اپنے بے گناہ
شہریوں کے غیر ملکی قاتلوں کو اپنے آقاؤں کی خوشی کے لیے چھوڑ دیاجاتا
ہے،جہاں پارلیمنٹیرین کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جاتی ہیں اور سیاست کے
نام پر ملک کی دولت کو بے دریغ لوٹا جاتا ہے ،بدعنوانی ہماری پہچان بن چکی
ہے ہم نے اپنے اداروں کو بدعنوانی کی وجہ سے تباہ وبرباد کردیاہے ،جہاں
ہمارے پارلیمنٹیرین جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ کے رکن منتخب
ہوجاتے ہیں اور اگر پکڑے جاتے ہیں تو بڑی آسانی کے ساتھ دوبارہ منتخب ہو کر
آجاتے ہیں لیکن اگر کسی عام آدمی کی ڈگری جعلی نکل آئے تو اسے ملازمت سے
برطرف کردیاجاتا ہے اور جیل میں بھی ڈالاجاتا ہے ،جہاں بڑے بڑے کرپٹ لوگوں
کو بڑے بڑے عہدے دیئے جاتے ہیں اور اپنی حکومت کو طوالت دینے کے لیے اپنے
حواریوں کے لیے اس غریب ملک کے خزانے کھول دیئے جاتے ہیں،جہاں اس غریب ملک
کی حکومت اپنے وزیروں اور وزرائے مملکت کی ایک بڑی تعداد صرف اس لیے رکھی
جاتی ہے کہ اس کے حواری اس کے ساتھ رہیں۔اور وہ مل کر ملک کو لوٹتے رہیں ۔جہاں
ملک کے پر امن شہریوں کو خوف و ہراس والی جگہوں میں بدل دیاگیا ہے،ہم اپنی
ذلت اور پستی کی گہرائیوں کو چھو چکے ہیں ہمارے اندر سے حیا، عزت اور وطن
کی محبت جیسے جذبات ختم ہوگئے ہیں لیکن ہمیں اٹھنا ہوگا اور اپنے پیارے وطن
اور اس کے باشندوں کووہ خوشیاں دینی ہونگی جن کے یہ مستحق ہیں ،اس سلسلے
میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی
ہوگی ،ہمیں اپنے اندر دوسروں کا احساس بیدار کرنا ہوگا ،ہمیں اپنی ذمہ
داریوں اور فرائض کو پہچاننا ہوگا ،ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض
کو دیکھنا ہوگا،اور ہمیں حضور ﷺ کے اس فرمان پر عمل کرناہوگا.’’ تم میں سے
بہتر و ہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع مند ہے ‘‘ اگر ہم ایسا کرلیتے ہیں تو
یقینا ہم اپنی کامیابی کے راستے کی طرف لوٹ آئیں گے ،اور ایسا کرنے سے
ہمارے معاشرے میں امن وسکون کا دور دورہ ہوگا اور پھر وہ دن دور نہیں جب ہم
نے اپنے وطن میں خوشحالی کا طلوع ہوتا ہوا سورج دیکھیں گے ,لیکن اگر
خدانخواستہ ہم نے ایسا نہ کیا اور اپنی روش کو جاری و ساری رکھا توپھر
ہمارے معاشرے کو تباہی وبربادی کی طرف لے جائیں گے ۔اب فیصلہ ہمیں خود
کرناہے کہ ہم ذلت اور پستی کی گہرائیوں میں گرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں
رسوائی کے طلب گار ہیں یاہم چاہتے ہیں کہ ہم ذلت اور پستی کی ان گہرائیوں
سے نکل آئیں اور اقوام عالم میں بلند مرتبہ و مقام حاصل کریں یہ فیصلہ اب
ہمیں خود کرنا ہے۔ |