آ ج الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے ۔مختلف نجی ٹی وی چینل کے
ذ ریعے جہا ں ہمیں دنیا بھر کی خبر یں پل بھر میں پہنچ جا تی ہیں، وہاں کسی
بھی اہم قومی مسئلہ پر ہمیں مختلف ا لخیال افراد کی رائے سے بھی آ گاہی حا
صل ہو تی رہتی ہے۔نائن الیون کے بعد دنیا میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔امریکہ
عراق اور افغا نستان پر چڑھ دوڑا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کا امن تہہ و با
لا ہو گیا۔طالبان جو روس کے خلاف نبرو آزمائی کے وقت مجا ہد کہلاتے تھے،
دہشت گرد پکارے جانے لگے۔الیکٹرانک میڈیا پر یار لو گوں نے اور اینکرز پرسن
(خصوصا جو پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں )نے اپنی ذہانت اور ایسی کمالِ گفتاری
دکھائی اور تا حال دکھا رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے،ان کے گفتگو سے صاف
نظر آ تا ہے کہ وہ پٹھانوں کے رسم و روج ، عادات، ضابطہ اخلاق اور طر زِ
زندگی سے واقف نہیں، پٹھانوں کی تا ریخ سے صرف دو واقعات کی مثا لیں اپنے
پنجا بی بھا ئیوں کی خدمت میں پیش کروں گا ، تاکہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ
پٹھان اپنے غیر تحریری آئین یعنی پختونوالی(پٹھانوں کا اپنے لئے مقرر کردہ
ضابطہ ء اخلاق ) کے کس قدر پا بند ہیں اور وہ اپنے ہاں آ ئے ہو ئے مہمانوں
یا پناہ لئے ہوئے افراد کی حفا ظت کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔
سر اولف کیرو نے اپنی کتاب ’’The Pathan‘‘ میں ایک مشہور واقعے کا حوالہ
دیا ہے جو پٹھانوں میں زبان زدِ خاص وعام ہے ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ احمد شاہ
ابدالی ایک دن اپنے دورانِ حکومت میں گھوڑے پر سوار ہو کر ایک جنگل کی طرف
شکار کھیلنے نکلا،کا فی تگ و دو اور خاردار جھا ڑیوں میں گھومنے کے بعد ایک
سؤر کو مار کر زخمی کر دیا۔سؤر زخمی حالت میں بھاگ کر ایک پٹھان قبیلے کے
خیمہ میں گھس گیا۔بادشاہ اس کا پیچھا کرتے ہو ئے خیمے تک پہنچا اور تیزی کے
ساتھ اپنے نیزے کے ساتھ سؤ ر پر وار کرنا چا ہا مگر جوں ہی اس نے نیزہ
اٹھایا،تو اپنے سر پر صاحبِ خانہ کا نیزہ دیکھا،اور دیکھتے ہی دیکھتے قریب
کے دوسرے خیموں سے نیزہ نردار پٹھان قہر آ لود نگاہوں سے بادشاہ کی طرف
بڑھے۔حیران ہو کر با دشاہ نے پو چھا ’’ کیا تم نہیں جانتے، میں تمہارا
بادشاہ احمد شاہ ابدالی ہوں ؟‘اور یہ سؤر نہ صرف میرا شکار ہے بلکہ ایک سؤ
ر ہے، تم اسے بچانے کی خا طر مجھے مار رہے ہو؟ نیزہ بردار پٹھانوں نے جواب
دیا ’ با دشاہ کی حیثیت آپ کو پختونوالی کا محا فظ ہو نا چاہئے،پٹھان اپنے
ہاں پناہ لئے ہو ئے مہمان کو کبھی کسی کے حوالے نہیں کرتے‘‘ احمد شاہ
ابدالی نے یہ سن کر معافی مانگی اور اپنا سا منہ لے کر چلا گیا۔
ایک اور واقعہ بھی ملا حظہ کیجئے،کہتے ہیں ، پٹھانوں کے ایک قبیلے پر
ڈاکووئں نے حملہ کیا، ڈاکوًں کا مقابلہ کرنے کے لئے سارے لو گ با ہر نکل آ
ئے، ایک بڑھیا اپنی جھو نپڑی میں اکیلی رہ رہی تھی، وہاں اچا نک دو آدمی
پناہ مانگتے ہو ئے بڑھیا کی کٹیا میں گھس آ ئے مگر جلد ہی گا وں کے چند لو
گوں نے بڑھیا کی جھو نپڑی کو گھیرے میں لے لیا اور غصے بھرے لہجہ میں بڑھیا
کو آ واز دیتے ہو ئے کہا کہ ان دو آ دمیوں کو فو را با ہر نکا لو۔بڑھیا نے
جواب دیا ’’انہوں نے میرے گھر میں پنا ہ لی ہے۔ میں ان کو ہر گز با ہر نہیں
نکا ل کر کر تمہارے حوالے نہیں کروں گی ‘‘ لوگوں نے کہا، تمہیں معلوم ہے کہ
جن لو گوں کو تم نے پنا ہ دی ہے ، یہ لوگ کون ہیں ؟ بڑھیا نے کہا ’ ہاں میں
جانتی ہوں،یہ ڈاکو ہیں۔ لوگوں نے بتایا ’ یہ صرف ڈاکو ہی نہیں ، انہوں نے
ابھی ابھی تمہارے دو بیٹوں کو قتل کیا ہے، مگر بڑھیا نے نہایت اسققامت سے
جواب دیا ’’کہ میرے دو بیٹے تو قتل ہو ئے لیکن اگر یہ دو آدمی میں آپ کے
حوالے کر دوں تو پشتو نوالی یعنی پٹھانوں کی غیرت قتل ہو جا ئیگی اس لئے
میں کسی صورت میں ان لوگوں کو آپ کے حوالے نہیں کروں گی۔اسی طرح نائن الیون
کے بع جاب امریکہ نے افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو کہا کہ اسامہ
ہمارے حوالے کردو ورنہ ہم افغانستان پر حملہ کر دینگے تو طالبان نے صرف اس
بناء پر اسامہ کو ان کے حوالہ کرنے سے انکار کیا کہ ہمارے ہاں آئے ہوئے یا
پناہ لئے ہو ئے مہمان کو دشمن کے حوالے نہیں کیا جاتا۔یوں طالبان نے اقتدار
گنوا دیا،ہزاروں جا نوں کی قر بانیاں دیں اور تا حال دے رہے ہیں مگر اسامہ
کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔‘ان واقعات کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو
لو گ اسلام آباد کے ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر قبا ئلی علاقوں سے متعلق
اظہارِ خیال کرتے ہیں یا حکومتِ وقت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جب تک شدت
پسند ہتھیا ر نہیں ڈالتے تب تک ان سے مذاکرات ہی نہ کئے جا ئیں۔وہ
شایدپٹھانوں کے رسم و رواج، پختونوالی، ضابطہ اخلاق اور کردار سے مکمل طو ر
پر واقف نہیں۔ان کو یہ علم ہو نا چاہئے کہ دیانت، غیرت،شجاعت،عزتِ نفس،
ننگ،ناموس،، اپنے قول پر پکا رہنا، مہمان نوازی اور خواتین کا احترام
پٹھانوں کی گھٹی میں شامل ہے۔۔۔۔۔۔۔ |