مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ
میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عون ؒ کہتے ہیں کہ حضرت انس ؓ نے
فرمایا میں نے اس امت میں ایسی تین باتیں پائی ہیں کہ وہ اگر بنی اسرائیل
میں ہوتی تو کوئی امت ان کا مقابلہ اور ان کی برابری نہ سکتی۔ ہم نے کہا اے
ابو حمزہؓ وہ تین باتیں کیا ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ صفہ
میں حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک مہاجر عورت حضور ﷺ کی
خدمت میں آئی اور اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ بالغ تھا حضورﷺ
نے اس عورت کو (مدینہ کی )عورتوں کے سپرد کر دیا اور اس کے بیٹے کو ہمارے
ساتھ شامل کر دیاکچھ ہی عرصہ کے بعد وہ مدینہ کی وبا میں مبتلا ہو گیا اور
چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گیا۔ حضور ﷺ نے اس کی آنکھیں بند کر دیں اور
ہمیں اس کا جنازہ تیار کرنے کا حکم دیا جب ہم نے غسل دینا چاہا تو حضور ﷺ
نے فرمایا جا کر اس کی والدہ کو بتا دو چنانچہ میں نے اسے بتا دیا وہ آئی
اور بیٹے کے پیروں کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اس نے یہ
دعا مانگی اے اﷲ میں اپنی خوشی سے مسلمان ہوئی اور میرے دل کا میلان بتوں
سے بالکل ہٹ گیا اس لیے میں نے انہیں چھوڑا ہے اور تیری وجہ سے بڑے شوق سے
ہجرت کی اور مجھ پر یہ مصیبت بھیج کر بتوں کے پوجنے والوں کو خوش نہ کر اور
جو مصیبت میں اٹھا نہیں سکتی وہ مجھ پر نہ ڈال ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں
ابھی اس کی والدہ کی دعا ختم نہ ہوئی تو اس کے بیٹے نے اپنے قدموں کو ہلایا
اور اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا(اور زندہ ہو کر بیٹھ گیا ) اور بہت عرصہ تک
زندہ رہا۔ یہاں تک حضور ﷺ کا انتقال ہو گیا اور اس کے سامنے اس کی ماں کا
بھی انتقال ہوا۔
قارئین آج کا کالم ایک مرثیہ، ایک نوحہ، ایک سرمیں خاک ڈالنے والی حرکت
سمجھ لیجئے یا حالات کا ماتم کہہ دیجئے مملکت خداداد پاکستان ہم اپنے ایمان
کی روشنی میں یہ سمجھتے ہیں کہ دورِ حاضر کی ایک بہت بڑی کرامت ہے۔ 27رمضان
المبارک کو قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کے
خوابوں اور تصورات کو عملی تعبیر دی تھی آج 66سال کا سفر گزرنے کے بعد جب
ماضی کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ فوجی آمروں ، سیاسی
شعبدہ بازوں،کالی چمڑی کے اندر موجود فرنگی روحوں ، الغرض ہر شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والے خود غرض اور کمینگی کی حد تک اترے ہوئے لالچی
لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ اس عظیم الشان نعمت پاکستان اور پاکستانی
عوام کی دل کھول کر مرمت بھی کی اور لوٹ کھسوٹ کا ایک ایسا بازار گرم کیا
کہ جو اگر دنیا کے کسی اور ملک و خطے میں کیا جاتا تووہ کب کا صفحہ ہستی سے
مٹ گیا ہوتا لیکن یہ لاکھوں مخلص شہداء کے خون کی برکت ہے کہ آج بھی
پاکستان زندہ ہے آج بھی پاکستان اغیار کی نظروں میں ایک کانٹے کی طرح
کھٹکتا ہے آج بھی پاکستان امریکہ ، اسرائیل،انڈیا اور دیگر استعماری قوتوں
کے لیے درد سر کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان آیا ہی اس
لیے وجود میں تھا کہ یہ دنیا کی قیادت کرے۔ انشاء اﷲ وہ وقت جلد ہی آئے گا
کہ جب ایک مخلص اور دیانتدار قیادت تسبیح کے بکھرے ہوئے دانوں کو ایک لڑی
میں پرو دے گی اور نشاۃ ثانیہ کا مرکز انشاء اﷲ پاکستان بنے گا۔
قارئین آج کے کالم کے عنوان کو دیکھ کر آپ ایک مرتبہ پھر ورطہ حیرت میں چلے
گئے ہوں گے اور آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب’’ انصار نامہ‘‘ میں کونسانیا گل
کھلایا جائے گا اور کون سا نیا ڈھول پیٹا جائے گا۔ مشتری ہوشیار باش کی
اصطلاح اخبارات اور رسائل میں عام استعمال کی جاتی ہے آج ہم بھی ہٹو اور
بچو کی آواز لگاتے ہوئے ایک انتہائی تشویش ناک معاملہ ملک کی تمام پالیسی
ساز قوتوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا اور فیس بک پر میرپور آزاد
کشمیر گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عارف خان کا ایک ویڈیو کلپ اپ لوڈ کیا
گیا ہے ۔ اس سال کے وسط میں گورنمنٹ کالج میرپور میں علامہ اقبال ؒ اور
کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک پاکستان
میں ولولہ انگیز کردار ادا کرنے والے ریسرچ سکالر اور کئی کتابوں کے مصنف
ڈاکٹر فتح محمد ملک نے خصوصی شرکت کی۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک نے گورنمنٹ کالج
لاہور کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں۔ اس تقریب میں ڈاکٹر فتح محمد ملک نے
تاریخی حوالوں سے طلباء اور پروفیسرز کے سامنے علامہ اقبال ؒ ، قائداعظم
محمد علی جناح ؒ کے تاریخی بیانات کی روشنی میں کشمیر اور پاکستان اور
کشمیریوں اور پاکستانیوں کے تعلق کو واضح کیا۔ ان کا یہ خطاب انتہائی مدلل
اور تاریخی حوالہ جات سے مزین تھا۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک کی اس تاریخی تقریر
کے بعد بقول راوی گورنمنٹ کالج میرپور کے پرنسپل ڈاکٹر عارف خان خطاب کرنے
کے لیے سٹیج پر تشریف لائے اور انہوں نے چھوٹتے ہی ڈاکٹر فتح محمد ملک کی
گفتگو کا جواب دیتے ہوئے تضحیک آمیز انداز میں مسکراتے ہوئے رسمی طور پر
معذرت چاہی اور اختلاف رائے کا حق رکھنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہہ دیا
کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے ریسرچ سے وابستہ ہیں اور انہوں نے ایک بھی تحریر
یا دستاویز نہیں دیکھی جس کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کو
پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہو۔ ڈاکٹر عارف کی یہ بات ، انداز گفتگو، طرز
تکلم اس قدر تمسخر آمیز ہے کہ دیکھتے ہوئے پاکستان اور کشمیر سے محبت رکھنے
والا کوئی بھی شخص پانی پانی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ ویڈیو کلپ اس وقت فیس بک
پر موجود ہے۔ موقع پر موجود ڈاکٹر فتح محمد ملک اور کالج کے دیگر پروفیسرز
ڈاکٹر عارف خان کی اس بات پر منہ دیکھتے رہ گئے سینہ گزٹ سے پھیلنے والی
اطلاعات کے مطابق اگلے ہی روز ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ جو علمی شغف بھی رکھتے
ہیں وہ پرنسپل موصوف کے دفتر پہنچے اور انہیں چیلنج کیا کہ وہ ایسے بیسیوں
حوالے اور دستاویزات ان کی خدمت میں پیش کر سکتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ
قائداعظم محمد علی جناح ؒ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ بھی قرار دیتے تھے اور
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقا کے لیے کشمیر کی آزادی کو ناگزیر تصور کرتے
تھے۔ جب ان ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے ڈاکٹر محمد عارف خان کو چیلنج کیا تو اس
پر وہ لاجواب ہو کر رہ گئے۔
قارئین گورنمنٹ کالج میرپور ایک تاریخی ادارہ ہے ایک ایسا تاریخی ادارہ جو
آزادی سے پہلے متحدہ کشمیر کے تین سب سے بڑے تعلیمی اداروں میں تصور کیا
جاتا تھا اس ادارے سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں شخصیات نے تعلیم
حاصل کی۔ صدور، وزرائے اعظم، فوجی جرنیلوں،چیف جسٹس صاحبان، ڈاکٹر،
انجینئرز، پروفیسرز، دانشوروں ، لکھاریوں، صحافیوں، ادیبوں، اساتذہ ، وکلاء
سمیت ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ایک بہت بڑی فہرست گورنمنٹ کالج
میرپور سے تعلق اور اس سے اخذ کیے گئے فیض کی شاہد ہے۔ یہ تمام لو گ اس وقت
ایک اضطراب کی کیفیت میں ہیں۔ ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے
ڈاکٹر عارف خان پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپور نے کشمیر اور پاکستان کے تعلق
کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح ؒ جیسی شخصیت کو ’’ریسرچ کے نام پر
تخلیق کردہ کٹہرے ‘‘ میں کھڑا کردیا اس وقت ہزاروں طلباء میں غم و غصہ اور
تشویش دکھائی دیتی ہے۔
قارئین یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم نے محسن امت مسلمہ پاکستان کے جوہری
پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک تاریخی انٹرویو ایف ایم
93ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ون جنید انصاری ‘‘
میں کیا تھا۔ استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور عزیزی محمد رفیق مغل سمیت
راقم نے محسن پاکستان سے انتہائی ادب سے ڈھیر سارے سوالات کیے ۔ ڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے اس انٹرویو پاکستان کے بننے سے لے کر پاکستان کے اسلامی
دنیا کے جوہر ی لیڈر بننے تک کی تاریخ انتہائی اثر انگیز انداز میں بیان کی
تھی اور نظریے کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی تھی ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی
اس گفتگو میں دیگر اہم ترین باتوں کے علاوہ یہ بات بھی شامل تھی کہ بھوپال
کی ریاست جو ان کی جائے پیدائش بھی تھی اور جہاں سے انہوں نے میٹرک تک
تعلیم حاصل کی تھی وہاں تعلیمی اداروں کا ماحول کیا تھا ، اساتذہ کیسے تھے
اور اخلاقیات کی تربیت کے حوالے سے کیا کام کیا جا رہا تھا ۔ ڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے اس انٹرویو میں بتایا کہ اس دور میں تعلیم انتہائی بامعنی
اور اساتذہ علم و عمل کاچلتا پھرتا نمونہ ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبد القدیر
خان نے بتایا کہ میٹرک تک کی تعلیم میں بھوپال میں انہوں نے فزکس، کیمسٹری،
ریاضی،انگریزی اور دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ کلام مجید اور سیرت النبی ﷺ کے
حوالے سے بہت کچھ پڑھ لیا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ اس دور
میں میٹرک کرنے کے بعد ایک بچہ یا نوجوان انتہائی سنجیدہ اور بامعنی مقصدیت
سے پر ذہن رکھتا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس بات پر انتہائی دکھ اور
تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان کی بنیادیں اور جڑیں کھوکھلی کرنے کی بنیادی
وجہ وہ اساتذہ اور والدین ہیں جو بگڑے ہوئے طلباء کو درست کرنے کی بجائے
انہیں شہ دیتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے کوئی بھی کردار ادا
نہیں کرتے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ سلیبس بھی
پاکستان کے ہر علاقے میں مختلف ہے اور اخلاقی تربیت کے نقطہ نظر سے استاد
کا کردار سوالیہ نشان ہے۔
قارئین ہم آزاد کشمیر کے صدر ،وزیراعظم، چیف سیکرٹری، وزیر تعلیم، سیکرٹری
تعلیم اوردیگر تمام ذمہ دار اداروں سے عاجزانہ گزارش کرتے ہیں کہ اگر یہ
تمام واقعات جو ویڈیو کلپ ، موقع پر موجود گواہان ، پروفیسرز اور طلباء کے
مطابق درست ہیں اور واقعی ڈاکٹر عارف خان نے پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپور کے
ذمہ دار عہدے پر تشریف رکھتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو ریسرچ سٹڈی
کے نام پر ’’کٹہرے‘‘ میں کھڑا کرتے ہوئے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لازوال
رشتوں اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے واضح بیانات کی نفی کی ہے تو ان سے
قرار واقعی باز پرس کی جائے۔ ڈاکٹر سی ایم حنیف جو کالج کی اولڈ سٹوڈنٹس کی
تنظیم ’’سروشینز‘‘ کے سینئر نائب صدربھی ہیں اور سٹی فورم کے چیئرمین بھی
ہیں انہوں نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی اداس لہجے میں گورنمنٹ کالج
میرپور کی نظریاتی ساکھ تباہ کرنے کی ان تمام حرکتوں کے متعلق اپنی تشویش
سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے پیچھے بھی نفرت پھیلانے والی
ایسی غلط فہمیاں تھیں جو تعلیمی اداروں ، یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ہوتے
ہوئے عوام تک پھیل گئیں جنہوں نے وہ زہریلی خلیج پیدا کی کہ جس کے نتیجہ
میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بلوچستان میں بھی اسی نوعیت کی انارکی پیدا کی
گئی جس نے زیارت میں موجود قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی تاریخی رہائش گاہ
کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ۔ ڈاکٹر سی ایم حنیف کا کہنا تھا کہ خدا
نخواستہ کہیں کشمیر میں بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسانہیں کیا جا رہا؟
آخرمیں حسب روایت ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے۔
اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نئے افسانے ’’بو‘‘پر کچھ
لوگوں نے طیش میں آ کر مقدمہ کر دیا اس پر ایک ادیب ادبی انداز میں منٹو سے
کہنے لگے۔
’’لاہورکے کچھ سرکردہ بھنگیوں نے ارباب عدالت سے شکایت کی ہے کہ آپ نے ایک
افسانہ ’’بو‘‘ لکھا ہے جس کی ’’بدبو‘‘ دور دور تک پھیل گئی ہے‘‘۔
منٹو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
’’کوئی بات نہیں میں جلد ہی ایک افسانہ ’’ فینائل ‘‘ لکھ کر ان کی شکایت
رفع کر دوں گا‘‘۔
قارئین سیکرٹری تعلیم سردار محمود ایک انتہائی دیانت دار اور پروفیشنل
بیوروکریٹ ہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارے آج کے اس کالم میں بیان کردہ حقائق کو
تحقیق اور تفتیش کی چھلنی سے گزرنے سے پہلے تشکیک کی نگاہ سے نہیں دیکھا
جائے گا اور اس میں بیان کردہ واقعات کے تعفن کی اصل وجہ کو جاننے کی کوشش
کر کے اصلاح احوال کی جائے گی۔ اﷲ حق کہنے ، سننے ، سمجھنے اور اس پر مکمل
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ |