تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا
ذریعہ ہوتی ہے، لوگوں میں اسی تعلیم سے ہی شعور پیدا ہوتا ہے،نئی نسل کی
ذہنی تربیت کا بہترین حل تعلیم ہی ہے،اسی تعلیم سے آراستہ ہو کر قومیں ترقی
کرتی ہیں،جس قوم کا تعلیمی نظام مظبوط اور مربوط ہوتا ہے ، وہ قومیں ترقی
اورخوشحالی کی زندگی گزارتی ہیں،دنیا کے ان ممالک نے بہت زیادہ ترقی کی ہیں
جن میں نظام تعلیم یکساں ہے،ہمارے ملک میں سب سے بڑی خرابی ہی یہیں سے شروع
ہوئی،کہ پہلے ہمیں مسٹروملا کی تفریق سے دو چار کیا گیا پھر ہمارے عصری
اداروں میں بھی اب نصاب تعلیم میں زمین آسمان کا فرق آگیا ہے،جن کی وجہ سے
ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوگئی ،آ پ پرائیویٹ سکولوں اور سرکاری سکولوں کا
نصاب تعلیم دیکھ لیں،کتنا بڑا فرق ہے،اس تعلیم کا سارا دارومدار نصاب تعلیم
پر ہوتا ہے ،یہاں تو سب کچھ الگ ہے ،غریب کے بچے میں خواہ کتنا ہی ٹیلنٹ
کیوں نہ ہو،وہ آگے بڑھنے سے قاصر ہے،وہ جدید علوم سے آراستہ نہیں ہو
سکتا،اور انتہائی افسوس کہ ہمارے سرکاری سکولوں کی حالت انتہائی قابل رحم
اور قابل توجہ ہے،ان سرکاری اسکولوں کا بجٹ بھی دیکھیں اور ان کا معیار
تعلیم بھی دیکھیں آپکو اندازہ ہو گا،بلامبالغہ کئی اسکول آپ کو ایسے ملیں
گے جو برائے نام ہیں،انکے اساتذہ کی تنخواہیں جاری ہیں ،نہ بچوں کا پتہ ہے
اور نہ اساتذہ کا،لوگوں نے اسکولوں میں جانور باندھ رکھے ہیں،جہاں اس جیسے
سکول ہیں وہاں پر معیاری اسکولوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر بہت کم تعداد میں،
اﷲ تعالیٰ نے ہمارے پاکستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ رکھا ہے،لیکن اس نظام
تعلیم کے بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی
ہیں،جہاں ہمارے تعلیمی نظام میں پختگی کی ضرورت ہے وہاں سب سے زیادہ ضرورت
نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ہے،نصاب تعلیم کے بہت زیادہ فرق نے ہمارے اندر
بھی تفریق ڈال دی ہے،ہمارے دینی اور دنیوی اداروں کے نصاب میں بہت زیادہ
فرق ہے،جو کافی عرصے سے چلا آرہا ہے،اس پر نظر ثانی کہ سخت ضرورت ہے،اور
اگر ہم نے اس ضرورت کو پورا نہ کیا اور اسی طرح دوریاں رہیں تو پھر وہی ہو
گا جس کا ہم آئے روز مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے وزیر تعلیم جیسے منصب پر فائز ہونے والے شخص کو یہ پتہ نہیں ہے کہ قرآن
میں چالیس پارے ہیں یا تیس، اور ایک اور منصب وزیر داخلہ صاحب کا ہوتا ہے
ملک کے نہایت ذہین ترین فرد کو وہ منصب دیا جاتا ہے، اس پر فائز ہونے والے
موصوف اجلاس میں قرآن کی چھوٹی سی سورۃ کو بار بار پڑھنے پر بھی ٹھیک طرح
سے نہ پڑھ سکے، اور کوئی خاص شرمندگی بھی محسوس نہ کی جاسکی،یا پھر کبھی
ممتاز قانون دان جنہوں نے اتنے قانونی نکات یاد کر رکھے ہیں کہ ان کی بات
قانون کی دنیا میں سند رکھتی ہے،جتنا مرضی پیچدہ کیس ہو ،ان میں ان کا کوئی
ثانی نہیں رہا،وہ سورۃ اخلاص کو پڑھتے ہوئے بھول گے، میرا مقصد ان حضرات کی
تضحیک کرنا نہیں ہے،غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ،مگر غلطی غلطی میں بہت
فرق بھی ہوتا ہے، اتنے بڑے منصب کے ساتھ اس طرح کی غلطی کو غلطی نہیں کہا
جاتا بلکہ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر اتنا دوریاں کیوں ہیں ،یہ کوئی ایسی
چیزیں تو نہیں ہیں کہ کبھی کبھار پیش آتی ہوں ان سورتوں کی روزانہ ہم نماز
میں اکثر وبیشتر تلاوت کرتے ہیں ،بہر حال اس طرح کی بہت ساری مثالیں موجود
ہیں ،اورا سی طرح دینی طبقہ بھی روز مرہ پیش آنے والے مسائل میں کب تک
دوسروں کا محتاج رہے گا،اور مستقبل میں یہ سلسلہ تو اور بھی گھمبیر نظر
آرہا ہے، ہمارے ان اداروں میں نصاب تعلیم میں واضح تبدیلی کرنا ہو گی ،ماضی
میں بھی اس پر بہت کچھ ہوا،تبدیلیاں بھی ہوئیں،مگر اب اس میں مزید تبدیلیوں
کی بہر حال ضرورت ہے،ورنہ یہ دوریاں ہمیں اور زیادہ دور کر دیں گی،اور اس
میں ہمارے ملک وملت کا جہاں نقصان ہے وہاں پر ہمارے علوم کا ضیاع بھی ہے جس
کی قدرٹھیک طریقے سے نہیں ہو رہی، اس سلسے میں ہم آگے نامور مفکرین کی آراء
جو نصاب تعلیم میں تبدیلی کے حوالے سے ہیں وہ نقل کریں گے، جس کا یقینا
فائدہ ہو گا ۔ |