سچ لکھنے سے ڈرنا نہیں چاہیئے کیونکہ آج سچ نہیں لکھیں گے
تو کل قیامت کے روزخدانخواستہ سچ نہ لکھنے پر بھی پکڑ ہو سکتی ہے اس لئے
کوشش یہی ہوتی ہے کہ سچ لکھ دیں یا سچ کا اشارہ ہی کر دیں۔پشاور میں
کرسچئین کمیونٹی حملہ کرنے والے دہشت گرد ہی نہیں نا مرد بھی ہیں۔دہشت گرد
اس لئے کہ انہوں نے ملت پاکستان کے غیر مسلموں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت
ابھارنے کا بہترین موقع ڈھونڈا ،یوں انہوں نے نہتے لوگوں میں گھس کر
بہیمانہ کاروائی کی جس سے نہ صرف کافی جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ پاکستان
کی دنیا بھر میں بدنامی بھی ہوئی۔دہشت گردنامرد اس لئے تھے کہ حکومت
پاکستان نے امن کے قیام کے لئے ملکر ایک بہترین فیصلہ کیا تھا کہ ’’طالبان
سے مذاکرات‘‘ کی کوئی راہ نکالی جائے اور مظلوم پاکستانی عوام کو مزید
نقصان سے بچایا جائے لیکن دہشت گردوں نے اس کوشش پر پانی پھیرنے کے لئے
عورتوں اور معصوم بچوں کو بھی اپنا نشانہ بنایا ۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری
پاکستانی فوج اور ایٹیلیجنس میں بہت خوبیاں ہیں اور اگر یہ دہشت گرد مر د
ہیں یا مرد کے بچے ہیں تو ہماری قوم کو کھل کر موقع دیں کہ بھائی صاحب فلاں
دن فلاں گراؤنڈ میں آمنے سامنے ذرا فائرنگ کا لڑائی کا محاذ ہو جائے۔چھپ
چھپ کر بے گناہ لوگوں کو اور عوام کو قتل عام کرنے والے کون سے بہادر لوگ
ہیں۔یہ بزدل اور ذہنی مریض لوگ ہیں جو اپنی ذہنی تسکین کو بجھانے کے لئے
ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں یا آلہ کار بنتے ہیں۔
اسی ہفتہ پشاور میں مرنے والے چرچ کے تما م افراد پاکستانی ہیں ۔پاکستانی
چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم ہم سب پاکستانیوں کو اس کا شدید صدمہ ہے اور رہے
گا۔پشاور چرچ حملہ کیس میں مرنے والے تقریباً نوے افراد اورپچاس زخمی افراد
کے واقعہ پر تما م پاکستانی قوم نڈھال اور پریشان ہے۔ابھی ہماری تمام سیاسی
و عسکری قیادت کو دوبارہ بڑے تحمل سے اور تدبر سے ’’مذاکرات کرنے یا نہ
کرنے پر سوچنا ‘‘ ہے۔دعا یہ کریں کہ جو بھی ہو اس میں اﷲ تعالیٰ حکومت ،فوج
اور عوام کی مدد کرے۔آمین۔ہماری ساری قوم اور قیادت عیسائی بھائیوں کے ساتھ
کھڑی ہے اور انشاء اﷲ ہمیشہ انہیں پاکستان میں تحفظ حاصل رہے گا ،انشاء اﷲ۔
اس حادثے کی ٹائمنگ سے دو محرکات سامنے آتے ہیں ،ایک دو یہ کہ جب وزیر اعظم
صاحب اقوام متحدہ جارہے تھے تو ان کے لئے دہشت گردوں نے شرمندگی کا سامنا
اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور دوسرا مقصد جو سب کو پتہ کہ جو مذکرات ہونے جار
ہے تھے ان میں رکاوٹ پیدا کی جائے۔
قارئین اگرچہ اس کالم کو جلدی کمپائل کرنا چاہیئے لیکن چند گوناں گوں
مصروفیات کی وجہ سے لکھنے میں تاخیر والی کوتاہی ہوگئی۔کالم کمپائل کررہا
تھا کہ بلوچستان میں زلزلے سے تباہی کی خبریں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔منگل
کی سہ پہر آنے والے شدید زلزلے سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں وسیع
پیمانے پر تباہی ہوئی جس کے نتیجے میں 328 سے زائد افراد اپنی جانوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ آواران ہے جہاں پر
ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔بلوچستان میں زیادہ تر علاقے میں کچے
راستے ہیں جس وجہ سے حکام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ آوران ہسپتال کے ڈاکٹر
امیر بخش کے مطابق لوگ لاشیں لے گئے ہیں اور تدفین کا سلسلہ شروع کر دیا
گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پوری رات مشکلات میں گزری کیونکہ دوائیں اور
سٹاف کم تھا، صبح دوائیں اور دوسرے ڈاکٹر آگئے ہیں۔ ڈاکٹر امیر بخش کا کہنا
ہے کہ چھتوں کے نیچے دب جانے کی وجہ سے زخمیوں میں سے اکثر کی ہڈیاں ٹوٹ
گئی ہیں۔ اس لئے سیریس مریضوں کو کراچی منتقل کیا جا رہا ہے کیونکہ کراچی
خضدار اور کوئٹہ سے نزدیک پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں لیڈی
ڈاکٹر بھی نہیں تھیں جس کے باعث قبائلی علاقے کی وجہ سے زخمی خواتین کو طبی
امداد دینے میں مشکلات سامنے آ رہی تھیں لیکن صبح کو لیڈی ڈاکٹر آ گئی ہیں,
اب صورتحال بہتر ہے۔
حکومتی مشینیری حرکت میں آ گئی ہے اورمتاثرہ علاقوں میں محکمہ صحت کے تعاون
سے میڈیکل ٹیمز بھی ادویات کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں روانہ کر دی گئی ہیں۔
لیویز ہیڈ کوارٹرز میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی ہنگامی
صورتحال سے نمٹنے کیلئے تمام سرکاری محکموں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ادھر
ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے میجر جنرل سید علیم نے میڈیا کو بتایا کہ فوری طور
پر بارہ ٹرکوں پر مشتمل امدادی اشیاء آواران روانہ کر دی گئی ہیں۔ زلزلہ سے
بلوچستان کے شمالی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ متاثرہ علاقوں میں فوج کے
دستے اور میڈیکل ٹیمیں پہنچ گئی ہیں۔ سب سے پہلی کوشش زخمیوں کی امداد کی
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی تک عالمی برادری سے مدد کی اپیل نہیں
کی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک اور عوام پر رحم کرے۔کوئی بھی قدرتی آفت ہو،زلزلہ ہو
یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سارے پاکستانی مل
کر تمام مصائب کا مقابلہ کریں ۔چاہے پشاور ہو یا بلوچستان سب پاکستان ہے۔ہم
سب کو مل کر پاکستان خوشحال اور پرامن بنانا ہے۔بلوچستان میں مسائل ویسے
بھی بہت زیادہ ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم غریب ،بے حال اور مجبور بلوچی
بھائیوں کی فراخدلی سے مدد کریں اور انہیں مضبوط کریں تاکہ ہمارا ملک بھی
طاقتور ہو۔ |