جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کا نہ ہونا ۔۔۔۔۔۔۔حقائق یہ بھی ہیں

ہم نے بہت سے آسان اور ضروری کام خود ہی مشکل بنائے ہوئے ہیں۔ اکثر نفل یا مستحب کے درجہ کے کاموں کو فرض سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جوکام جلدی کرنے کے ہوتے ہیں۔ ان میں دیر کردیتے ہیں۔ اور اس کی درجنوں وجوہات بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ ہم اپنا کان چیک نہیں کرتے کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ بچے دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ بڑے دیکھ کر اپنا لیتے ہیں۔ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اس کے پاس پچاس ایکڑ اراضی ہے میرے پاس پانچ ایکڑ کیوں؟ اس کے پاس قیمتی کار ہے میرے پاس موٹرسائیکل کیوں؟ اس کی آمدنی دس ہزار روپے روزانہ ہے میری ایک ہزار روپے کیوں؟ ہم اپنی زندگی ناک اونچی کرنے اور بچانے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں یہی فکر کھائے جارہی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ اتنا بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنے بیٹے کی شادی کی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ لوگ شادیوں میں اعتراض لگاتے ہیں۔ اس لیے اس نے شادی میں خصوصی انتظامات کیے۔ ضرورت کی ہر چیز فراہم کی۔ اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ کسی طرف سے اعتراض یانکتہ چینی نہ ہو۔ بارات تیار ہوکر چل پڑی۔بارات ٹریکٹر ٹرالیوں پر تھی۔ راستے میں کھیتوں کی زمین تھی جو نرم ہوچکی تھی۔ ٹریکٹر کے ٹائر اس میں دھنس گئے۔ اب کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ راستے میں ٹریکٹر کا ٹائر زمین میں دھنس جائے گا ۔ کسی کو اس کا پیشگی علم ہوتا تو وہ اس کا انتظام کرکے چلتا۔ ٹائر نکالنے کی کوشش کی گئی مگرنہ نکالا جاسکا۔ مٹی نکالنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے لیے کدال کی ضرورت پڑی مگر یہ کدال کسی کے پاس بھی نہ تھا۔ کسی طرف سے آواز آئی اتنا بھی نہ ہوسکا۔ دولہا کے باپ کو الہام تو نہیں ہوا تھا کہ راستے میں ٹریکٹر کا ٹائر زمین میں دھنس جائے گا۔ اس کو نکالنے کے لیے کدال کی ضرورت پڑے گی۔ اس کو اس کا پتہ ہوتا تو وہ کدال ساتھ لے کر چلتا۔ آوازیں کسنے والوں نے اس طرف تو توجہ نہ دی ۔ یہ کہہ دیا کہ اتنا بھی نہ ہوسکا۔ اب بتایئے لوگوں کی باتوں اعتراض سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ ہم نے ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے ۔ ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا۔ ہم آسان کام کو خود ہی مشکل بنادیتے ہیں۔ پھر خود ہی رونا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے اور اس طرف بہت کم افرادکی توجہ ہوگی وہ یہ ہے کہ ہم یہ تو کہتے ہیں۔ یہ ہورہا ہے ۔ وہ ہورہا ہے۔ یہ کیوں ہورہا ہے وہ کیوں ہورہا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے وہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مفت میں ہمدردی جتانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ایک فیصد بھی ہمدردی نہیں کرتے۔ ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ ہم یہ کام یوں نہیں یوں کرلیں تو بہتر رہے گا۔ ہم یہ کام چھوڑہی دیں تو اچھا رہے گا۔ اگر ہمیں ایک دکان سے مطلوبہ چیز نہیں ملتی تو کسی اور دکان سے لے لیں۔ ہم جو چیز فروخت کرنا چاہتے ہیں اگر ایک مارکیٹ اس کے معیار کی نہیں ہے تو کسی اور مارکیٹ میں چلے جائیں ایسا تو نہ کریں گھر بیٹھ کر شورمچانا شروع کردیں کہ اس کا تو خریدار ہی نہیں ہے۔ اب ہم کیا کریں ۔ ہماری محنت اور سرمایہ برباد ہو رہا ہے۔ پھر ہم اس کی ذمہ داری دوسروں پرڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتنی طویل تمہید اس لیے باندھی ہے کہ اس تحریر میں ہم جس موضوع پر لکھنے جارہے ہیں۔ اور جو لکھنے جارہے ہیں۔ اس کی آپ کو سمجھ آجائے۔

ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی کے نواحی علاقے چاہ حمبل والا کے رہائشی ایک شخص کی پانچ بیٹیوں نے شادی نہ ہونے پر گھر سے بھاگ کر میلسی سائفن کے قریب میلسی کینال میں چھلانگیں ماردیں۔ ان میں سے ایک خاتون کو موقع پر موجود لوگوں نے زندہ بچالیا۔ اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122کی ٹیمیں اور تھانہ صدر کی پولیس موقع پر پہنچ گئیں۔ ریسکیو کی ٹیمیوں نے چار بہنوں کی تلاش شروع کردی۔ اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ ان کی عمریں تیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ جب کہ ان کے والدین نے ان کی شادی نہ کی۔ اور ہر آنے والے رشتے سے انکار کرتے رہے۔ جس سے اکثر اوقات گھر میں جھگڑا رہتا تھا۔ وقوعہ کے روز بھی ان کا والدین سے جھگڑا ہواتھا۔ اور انہوں نے گھر سے بھاگ کر نہر میں چھلانگ لگادی۔ بتایا جاتا ہے لڑکیوں کا والد محنت مزدوری کرکے گھر کا گزربسر کرتا ہے۔ ادھر میلسی کینال میں چھلانگ لگا کر ڈوبنے والی چار بہنوں کی تلاش ریسکیو ٹیموں نے جاری رکھی ۔ دوسرے روز اعلیٰ حکام جائے وقوعہ پر نہ پہنچے۔ ریسکیو کی کشتی الٹنے کے بعد انہوں نے بھی امدادی کاروائیاں بند کردیں۔ اور مقامی غوطہ خوروں نے رات گئے چاروں بہنوں کی نعشیں نکال لیں۔ پہلے دوبہنوں کی نعشیں مغرب کے وقت علاقہ خیرپور ٹامیوالی سے تیرتی ہوئی ملیں۔ جنہیں غوطہ خوروں نے باہر نکالا۔ جبکہ دیگر دوبہنوں کی نعشیں ہفتہ اگلے دن صبح چاربجے پل اعظم کے قریب تیرتی ہوئی ملیں۔ انہیں بھی غوطہ خوروں نے باہرنکالا۔ ریسکیو 1122کے عملہ نے ان کی نعشیں ان کے گھر پہنچائیں تو پورا علاقہ وہاں امڈ آیا۔ پانی میں دیرتک رہنے کی وجہ سے اجتماعی خودکشی کرنے والی چاروں بہنوں کی نعشیں مسخ ہوچکی تھیں۔ تاہم چاروں بہنوں کی تجہیزوتکفین کے بعدان کی ان کے آبائی قبرستان میں تدفین کردی گئی۔ اجتماعی خود کشی کرنے والی لڑکیوں کے والدین نے کہا ہے کہ ان کی تذلیل بند کی جائے۔ ان کی بیٹیوں نے خودکشی نہیں کی۔ وہ تو اپنے ہونے والی بھابھی کو ملنے بہاولنگر جارہی تھیں۔ کہ دریائے ستلج کی سیروتفریح کے لیے میلسی سائفن پرگاڑی سے اتر گئیں۔ مچھلی کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے ہوئے پھسل کر نہر میں جاگریں تو قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک بیٹی گرنے سے بچ گئی۔ جس نے بہنوں کو بچانے کے لیے چھلانگ لگادی۔ چاربچیاں ڈوب گئیں ایک خوش قسمتی سے بچ گئی۔ جو کہ صدمے سے نڈھال ہو کر کومے کی حالت میں ہے۔ میڈیا نے نام نہاد این جی اوزکے ساتھ مل کر ہماری تذلیل کی ہے۔ میڈیا اور این جی اوزکے نمائندگان ہمارے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے کی بجائے ہمیں ذلیل ورسوا کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹیوں نے شادیاں نہ ہونے کی وجہ سے اجتماعی خودکشیاں نہیں کیں۔ وہاں پر موجود اہل علاقہ کی کثیرتعداد نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ لڑکیوں نے اجتماعی خودکشیاں نہیں کیں۔ یہ تمام من گھڑت کہانی ہے۔

ان لڑکیوں نے اجتماعی خودکشیاں کی ہیں یا نہیں کیں۔ اس بحث میں ہم نہیں پڑتے۔ پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سانحہ کے بارے میں کس نے کیا کہا ہے سرائیکستان قومی کونسل کے صدر ظہور دھریجہ نے دھریجہ نگر میں سرائیکی تحریک کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میلسی میں پانچ بیٹیوں کا شادی نہ ہونے سے اجتماعی خودکشی کا واقعہ ان حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو لاہور میں اسی ارب روپے کی میٹرو اور اربوں کے میوزیکل رنگین فوارے تو بنا لیتے ہیں۔ مگر سرائیکی وسیب میں بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ جہیز نہ ہونے پر میلسی کے نواحی علاقے میں غریب لڑکیوں کی خودکشی پر ایک فورم میں گفتگو کرتے ہوئے سماجی، سوشل ورکر خواتین نے کہا ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایسے واقعات کسی المیہ سے کم نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں فرمائشی جہیز کارجحان بھی عام ہوگیا ہے۔ جبکہ مزدورطبقہ غریب لوگوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابرہونے کی وجہ سے شادیوں میں غیر ضروری تاخیر جیسا مسئلہ پیداہونا شروع ہوگیا ہے۔ ہم انہی رویوں کے باعث آج اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ ہماری بیٹیاں شادی نہ ہونے پر موت کو گلے لگانے پر مجبور ہیں۔ دانش بتول اور زہرہ سجاد زیدی نے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور اس واقعہ کے ہم سب ذمہ دارہیں۔ کیونکہ ہم نے ہی شادی جیسے مذہبی فریضے کو مشکل بنا دیا ہے۔ غریب کے لیے اپنی اولادجہیز جیسی فرسودہ روایات کے خاتمے کے لیے نہ تو نام نہاد این جی اوز کے پلیٹ فارم سے آوازاٹھائی جاتی ہے۔اور نہ ہی حکومتی سطح پر جہیز کی لعنت کوختم کرنے کے لیے تاحال کوئی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث آج ہرگھر میں لڑائی جھگڑا ہورہا ہے۔ غربت کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے اور انہیں اپنے ہاتھوں موت کی آغوش میں سلانے پر مجبور ہیں۔ طاہرہ نجم اور رخسانہ محبوب نے کہا کہ شادی کے موقع پر لڑکیوں کو سونا اور دیگر قیمتی اشیاء دیناخلاف شریعت اور مسلم معاشرے کے لیے ناسور ہے۔ اور جہیزکے خاتمے کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔ اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ جولائی کے اخبارات میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ اس وقت پاکستان بھر میں مختلف وجوہات کی بنا پر چالیس لاکھ لڑکیوں کے بالوں میں شادی نہ ہونے کے باوجود چاندی اترنے لگی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شادی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ جہیز کا نہ ہونا ہے۔ جہیز کی لعنت کی وجہ سے پچیس لاکھ سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر سے ڈھل رہی ہیں۔ گزشتہ چونسٹھ سالوں سے عوام پر مسلط ہونے والے حکمرانوں نے پاکستان سے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے دعوے تو کیے مگر اس کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہرچوتھے گھر میں دو سے زائدلڑکیاں شادی کی عمر سے ڈھل رہی ہیں۔

اب تک ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا ۔ اس لیے ان خبروں ، بیانات اور رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے پہلے چند باتیں لکھنا ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ کہ جہیز کو لعنت کہنا اور فرسودہ روایات کہنا درست نہیں۔ اس کی وجہ سے اگر مشکلات آرہی ہیں یا مسائل پیدا ہورہی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام ہی غلط ہے۔ اس میں جرم تو ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے ہی اس کو مشکل بنا یا ہوا ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے جو کام کیا ہو اس کو لعنت کہنا مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ رحمت دو جہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اپنی لخت جگر خاتون جنت رضی اﷲ عنہا کو جہیز عطا کیا تھا ۔ اس جہیز میں کیا کچھ تھا یہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔

اولاد کی شادیاں کرنا والدین کے فرائض میں سے ہے۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اورزیادہ سے زیادہ جہیز دینے اور دیکھا دیکھی میں سب کام کرنے کی وجہ سے اب والدین کے لیے اپنا یہ فرض ادا کرنا مشکل ہورہا ہے۔ شادی میں سب سے اہم بات نکاح ہوتا ہے۔ نکاح میں دولہا حق مہر ادا کرتا ہے جو اس کی حیثیت کے مطابق مقرر کیا جاتا ہے۔ اور دلہن کے والدین یا سرپرست اس کو کچھ ضروری سامان دیتے ہیں تاکہ یہ اپنے نئے گھر میں اپنے گھر میں اس کو استعمال کرے کسی سے مانگتی نہ پھرے۔ اب یہ چرچا تو بہت کیا جاتا ہے کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں کنواری بیٹھی ہیں۔ ان کے بالوں میں چاندی اتر رہی ہے۔ جہیزنہ ہونے کی وجہ سے ان سے رشتہ کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ باتیں اپنی جگہ سچ ہیں ۔ جھوٹ نہیں ہیں۔ اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے یا کم ہونے کی وجہ سے بارات واپس لوٹ گئی۔ شوہر اپنی بیوی کو جہیز کم لانے کا طعنہ دیتا تھا جس سے دل برداشتہ ہوکر شادی شدہ خاتون نے زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ میکے چلی گئی اور اس شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے سے انکار کردیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ لڑکے والے لڑکی والوں سے جہیزکا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور باقاعدہ فہرست بنا کر دیتے ہیں کہ ان کی بہو کو جہیز میں یہ یہ چیزیں دی جائیں۔ اب جن لڑکیوں کے والدین اپنے داماد والوں کی فرمائشیں پوری کرسکتے ہیں ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب جو والدین مطلوبہ جہیز نہیں دے سکتے ان کے لیے تو مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب نہ وہ منہ مانگا جہیز دے سکتے ہیں نہ ہی ان کی بیٹیوں کے رشتے طے ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی عمریں بڑھنے لگتی ہے ۔بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔ والدین اس فکر میں نڈھا ل رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی بیٹیوں کو اچھے رشتے مل جائیں یہ اپنے گھر بسالیں۔ اور بیٹیاں اس فکر میں رہتی ہیں کہ وہ بوڑھی ہورہی ہیں ابھی تک ان کی شادیاں نہیں ہوئیں ۔ پتہ نہیں ہمارا رشتہ مانگنے کوئی کیوں نہیں آتا۔ ایسا پاکستان میں تو ہوتا ہے تاہم ہر گھر میں نہیں ہوتا۔ جہیز کے خلاف آواز اٹھانے والے اس پہلو کو تو دیکھتے ہیں جو ابھی آپ نے پڑھ لیا ہے ۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کے بارے میں یا تو ان کو علم نہیں ہے یا یہ جان بوجھ کر اس پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ کچھ لڑکے والے ایسے ہوتے ہیں جو لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں ان کی بہوکو جہیز میں یہ یہ چیزیں ضرور دی جائیں۔ اس کے برعکس کچھ لڑکیوں کے والدین ایسے ہوتے ہیں جو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ جیہزتم لے آؤ یہ جانا تو تمہارے ہی گھر ہے۔ ہم نے اپنے گھر میں تو نہیں رکھنا اس لیے جہیز تم ہی لے آؤ۔ ایک اور غلط رواج یہ ہے کہ لڑکیوں کو بیچا جاتا ہے۔ چالیس ہزار سے پانچ لاکھ تک لڑکیوں کو بیچا جاتا ہے اس کوکوئی عیب بھی تصور نہیں کیا جاتا۔ والدین لڑکے والوں سے طے شدہ رقم لے کر اپنی لڑکیوں کا نکاح کر دیتے ہیں۔ کچھ لڑکیوں کے والدین کا طریقہ واردات کچھ مختلف ہوتا ہے۔ وہ لڑکے والوں پر احسان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے رہے ہیں۔ اس کے بدلے میں ہم آپ سے کچھ بھی وصول نہیں کریں گے۔ پھر جب بات آگے بڑھتی ہے رشتہ طے ہونے لگتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے جوہم اپنی بیٹی کو جہیز میں دیں۔ یہ جہیز جانا تو آپ کے بیٹے کے گھر ہی ہے نا۔ ہم نے اپنے گھر میں تو نہیں رکھنا اس لیے جہیز تم ہی لے آؤ۔ پھر وہ سامان کی ایک لمبی فہرست لڑکے والوں کو دے کر کہتے ہیں کہ یہ سامان شادی سے پہلے پہلے ہمارے گھر دے جاؤ پھر یہ شادی کے دن جہیز میں آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ پھر کہتے ہیں کہ حق مہر میں اتنا سونا دے دو۔ ایک مکان ہماری بیٹی کے نام کردو۔ اتنی زمین بھی حق مہر میں لکھ دو۔ اب دو لاکھ روپے کا جہیز کا سامان آجائے۔ ڈیڑھ لاکھ روپے کے زیورات بن جائیں۔ پھر دو لاکھ کا مکان بھی ان کی بیٹی کے نام ہوجائے۔ اب اگر ایک کنال بھی ان کی بیٹی کے نام زمین کردی جائے ۔ اس کی قیمت تو آپ کے علم میں ہے۔ احسان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے رشتہ مفت دیا ہے۔ جہیز بھی لڑکے والوں سے مرضی کاخرید کرایاجاتا ہے۔ حق مہر بھی اپنی مرضی کا وصول کر لیتے ہیں۔ اب آپ بتائیں یہ رشتہ مفت ہے۔ اب ایسے لوگوں کو بھی اس طرح کے رشتے نہ ملیں جوجہیز بھی خود لے آئیں اور حق مہر بھی ان کی مرضی کادیں۔ اور وہ بھی یہ شورمچانا شروع کردیں کہ ان کی بیٹیاں بوڑھی ہورہی ہیں۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کے رشتے نہیں آتے۔ جو لڑکے والے لڑکی والوں سے فرمائشی جہیز مانگتے ہیں وہ اچھا کام نہیں کرتے یا ان کا چھا کام نہیں جو لڑکے والوں سے جہیز کی خریداری بھی کراتے ہیں اور حق مہر بھی اپنی مرضی کا وصول کرلیتے ہیں پھر یہ مکان ، زمین ، زیورات اور دیگر سامان حق مہر میں نکاح نامے میں بھی لکھوا لیتے ہیں۔ اب ہمارا ان لوگوں سے سوال ہے جو جہیز کے خلاف لکھتے ہیں یا بولتے ہیں۔ کہ ان دونوں فریقین میں سے اچھا کام کس کا نہیں۔ ان میں سے مسائل کون پیدا کررہا ہے۔اب کس فریق کے رویے کی وجہ سے لڑکیاں شادی کی عمرسے ڈھل رہی ہیں۔ حقیقت میں دونوں ہی مسائل پیداکررہے ہیں۔ نہ تولڑکے والوں کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ لڑکی والوں سے مطالبہ کرتے پھریں کہ ان کی بہو کو جہیزمیں یہ سامان دیا جائے ۔ اور نہ ہی لڑکی والوں کے لیے یہ اچھی بات ہے کہ وہ لڑکے والوں سے جہیز بھی خرید کرائیں اور حق مہربھی اپنی مرضی کا وصول کریں۔ دونوں فریقین کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اب ایسے لڑکیوں والے بھی ہیں جو نہ تو لڑکے والوں سے جہیز کی خریداری کراتے ہیں او ر نہ ہی مرضی کا حق مہر لیتے ہیں۔ ایسے لڑکے والے بھی ہیں جو لڑکی والوں سے جہیز کی فرمائش نہیں کرتے۔ جہیز نہ تو لعنت ہے نہ ہی برا ہے۔ اس کی آڑ میں لوٹ مار لعنت بھی ہے اور بری بھی ہے۔ نہ تو جہیز کی حد مقرر کی جاسکتی ہے اور نہ ہی حق مہر مقرر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو سب کی اپنی استطاعت پر ہے۔ جس کو اﷲ پاک نے جتنا دے رکھا ہے اس کے مطابق وہ حق مہر بھی دے اور اس کے مطابق جہیز بھی دے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں یہ یہ چیزیں دی ہیں۔ میں نے بھی وہ چیزیں تو لازمی دینی ہیں اس سے بڑھ کر بھی دینا ہے۔ اپنی بیویوں کو جہیز کم لانے کے طعنے دینا بھی درست نہیں ہے۔ ہمیں شادیوں کے مواقع پر خاص طور پر اسراف سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ شادی ایک مذہبی فریضہ ہے اس کو ہم نے ہی مشکل بنایا ہوا ہے اس کو اب بھی آسان بنایا جاسکتا ہے۔ شادیاں سادگی سے بھی کی جاسکتی ہیں۔ کم جہیز دے کر بھی کی جاسکتی ہیں۔ اﷲ پاک کے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے پاس کس چیز کی کمی تھی۔ دل میں خواہش کرتے جبرائیل علیہ السلام لے کر حاضر ہوجاتے۔ زیادہ سے زیادہ جہیز دینا ضروری ہوتا تو سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم اپنی لخت علیہم السلام کو اتنا جہیز دے دیتے کہ اتنا قیامت تک کوئی بھی نہ دے سکتا۔ اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے کیا حق مہر دیا وہ بھی آپ علماء سے پوچھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی ناک کی طرف دیکھنا چھوڑدیں او ر اس فکرمیں نہ پڑیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ تو ہمارے بہت سے اس طرح کے مسائل ازخود ہی حل ہوجائیں گے۔ حکومت پاکستان اورکوئی پابندی نہ لگائے صرف یہ پابندی لگادے کہ نہ تو کوئی جہیز کا مطالبہ کرے گا اور نہ ہی کوئی لڑکی والا لڑکے والوں سے جہیز کی خریداری کرائے گا اور نہ ہی حق مہر اپنی مرضی کا مقرر کرائے گا۔ حق مہر لڑکے والوں نے دینا ہے وہ اپنی استطاعت کے مطابق جتنا چاہیں دیں۔ جہیز لڑکی والوں نے دینا ہے وہ جوچاہیں دیں۔ لڑکے والے حق مہر کے ساتھ خلوص اور محبت دے دیں اور لڑکی والے اپنی بیٹی کو جہیزمیں جو کچھ دیں اس کے ساتھ اچھی تربیت اور گھر بسانے شوہر ساس سسر کا احترام او ر فرمانبرداری کرنے کی نصیحت کا تحفہ بھی دے دیں تو گھر خوشحال رہے گا۔ اور یہی نصیحت لڑکے والے اپنے بیٹوں کو بھی کریں تو دونوں کی زندگی خوشی سے گزرتی رہے گی۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302388 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.