امن ومان کی ابتر صورتحال جرائم
کے اعدادوشمار میں اضافے سے ملکی حالات ایسے ہو رہے ہیں کہ ہر کوئی پریشان
نظر آتا ہے ہر طرف آگ و خون کا کھیل جاری ہے دہشت گردی ،مہنگائی ،بے
روزگاری،امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے عوام کا جینا دو بھر ہو چکا
ہے جس کی سب سے بڑی وجہ قانون کا ڈنڈاصرف غریب کے لئے ہے جبکہ امیراپنی
دولت کے بل بوتے پربڑی آسانی سے اسے خریدلیتے ہیں جس کی بہت سی مثالیں ہم
آئے روز دیکھتے اور سنتے ہیں ۔کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہے اور
پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے ملکی معیشت کا
آغاز ہوتا ہے وہاں پر ہر روز کئی گھرانوں کے چراغ گل ہو رہے ہیں ہر روز
پانچ دس آدمی ایسے مار دیے جاتے ہیں کہ جیسے انسان کی کوئی قدر ہی نہ ہو
جبکہ وہاں کی حکمران جماعتیں جن میں سب ہی جماعتیں شامل ہیں ایسے مزے سے سو
رہی ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اس کے لئے جس امن کی ضروت ہے وہ وہاں
قائم ہو ہی نہیں سکا کیونکہ وہاں پولیس جیسے انتظامی محکمے میں اتنی بڑی
تعداد میں وہ عناصر شامل ہیں جنھیں ہم دہشت گرد،بھتہ خور،ٹارگٹ کلر یا ڈکیت
کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں کئی رپورٹیں خود محکمہ داخلہ سند ھ جاری کر
چکا ہے ملک میں امن و امان قائم رکھنا،جرائم کو ختم کرنا اور عوام کے جان و
مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا پولیس کا اولین فرض ہے سابقہ حکومتوں سے
لے کر موجودہ حکومت تک امن و امان کی ناقص صورتحال اور پولیس گردی اور
پولیس کے ظلموں کیخلاف میڈیا نے بہت کچھ کہا اور سنایا ہر آنے والی حکومت
پولیس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی اور مزے کی بات یہ ہے کہ پولیس
خود ان کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے تیار نظر آتی ہے کسی پولیس آفیسر میں
اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ انکے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کر
سکیں بلکہ ہمارے ہاں تو پولیس کو کہلو کا بیل ہی سمجھا جانے لگا ہے جس کا
جہاں جی چاہا اس کا استعمال کر لیا کوجس کی وجہ سے ہماری پولیس فورس بے راہ
روی کا شکار ہوئی اور اپنی من مانیاں اور کارروائیاں کرنے میں فخر محسوس
کرنے لگی جرائم کی شرح میں اس قدر ہولناک اضافہ ہوا کہ جسے سن کر جسم پر
لرزہ طاری ہو جاتا ہے جسکا ذکر میڈیا اور اعلی عدالتیں انتہائی دکھ اور کرب
کے ساتھ کر تی رہتی ہیں ہمارے ہاں پولیس جو جھوٹے مقدمے درج کرتی ہے ان
جھوٹے مقدمات میں غریب اور شریف شہریوں کی تذلیل کی جاتی ہے اس طرح پیسے کا
ضیاع کر کے کربناک ذہن لئے لوگ نہ صرف معاشی بدحالی میں ڈوب کر انتہا پسندی
کی طرف راغب ہوتے ہیں بلکہ پولیس کے بے رحم رویے سے ان کی باقی زندگی جیلوں
کی نظر ہو جاتی ہے اعلی حکام زمینی حقائق سے بھی یقیناََ بے خبر نہیں ہوتے
کیونکہ جب بھی کوئی پولیس والاکسی وجہ سے معطل ہوتا ہے تو یہی اعلیٰ فسران
ہی ان کو بے گناہ قرار دے کر دوبارہ معاشرے کے بگاڑ میں حصہ ڈالنے کے لئے
بجوا دیتے ہیں چہرے بدلنے سے نہیں بلکہ پولیس والوں کی تربیت سے ان کی
ذہنیت بدل کر ہی لوگوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ جھوٹے مقدمات کی
آڑ میں مخصوص مفادات رکھنے والے عناصر کس طرح پولیس کے گلے میں لعنت کا طوق
ڈال کر مظلوم لوگوں کو بدنام کر کے ذلیل و خوار کر تے ہیں اس کا اندازہ
زیادہ مشکل نہیں جھوٹے مقدمات میں حالات وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں اصلیت
کا پتہ بھی پولیس کو ہوتا ہے مگر پیسے کی چمک پولیس کو اندھا کر دیتی ہے
اوپر کی کمائی کھانے سے انکی زبان گنگ اور کان بہرے ہو جاتے ہیں وقت گزرنے
کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا اس بات پر کسی کو حیرت زدہ نہیں
ہونا چاہیئے کہ پولیس نے کرپشن اوررشوت کی لعنت زدہ تالاب میں شرم و حیا کی
وردی اتار کر بے حیائی کا لنگوٹ پہن کر خود کو تر و تازہ رکھا ہوا ہے پولیس
کی وردی کی احیاء اور قانون کا احترام قانون کی سچی اور میرٹ پر تفتیش سے
شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اب پاکستانی معاشرے میں خورد بین سے بھی نظر
نہیں آتا آج اگر ان لوگوں کے اثاثہ جات کو چیک کیا جائے تو عام نظر آئے گا
کہ تھانیدار اور عام سپاہی آج لاکھوں کی جائیداد کے مالک بنے ہوئے ہیں جس
کی کئی مثالیں ملکی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں
جتنے بھی جھوٹے مقدمات درج ہوتے ہیں کسی اعلیٰ پولیس عہدیدارنے ان جھوٹے
مقدمات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی خودپولیس کے
اعلی افسران کا کہنا ہے کہ تھانوں میں 90%مقدمات جھوٹے درج ہوتے ہیں جو اس
بات کی غمازی کرتا ہے کہ معاشرے کی بگاڑ میں سب سے زیادہ حصہ پولیس کا ہے
جو کہ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے لیکن یہ پولیس ہمارے ہاں ہی
اتنی بدنام اور بری کیوں ہے ؟ اس بگاڑ اور مخدوش صورت حال کی سب سے بڑی وجہ
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے کارکنوں کو پولیس میں سیاسی طور پر بھرتی
کرانا ہے تاکہ وہ مشکل وقت میں اپنی جماعتوں کا ساتھ دے سکیں ۔لیکن ان سب
میں قصور کس کا ہے ہمارے حکمرانوں کا؟ عوام کا؟ یا ان پولیس افسران کا؟ یہ
وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی ٹھوس جواب نہیں دے سکتا-
آخر میں حضرت علیؓ کا قول نقل کر رہا ہوں کہ ایک ملحد معاشرہ تو ہو سکتا ہے
کہ تباہی سے بچ جائے پر وہ معاشرہ تباہ ہونے سے نہیں بچ سکتا کہ جہاں انصاف
ناپید ہو جائے اس بات کے تناظر میں اعلیٰ حکام کو ایسے عملی اقدامات کرنے
چاہئیں جہاں غریب مظلوموں کی آواز ان تک آسانی سے پہنچ سکے اور اگر معاشرے
کو بگاڑ سے بچانا ہے تو پولیس جیسے انتظامی محکموں میں بھرتیوں کو میرٹ کے
ترازو میں تولنا ہو گاتاکہ میرٹ پر آنے والے لوگ معاشرے کی اصلاح میں اپنا
کرداد ادا کر سکیں۔ |