پولیس سٹیٹ

ایک اعلی پولیس افسر نے اپنے گھر میں محفل سماع کا انعقاد کیا۔محفل میں شہر بھر کے امراء کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔لوگ صاحب بہادر کی خوشنودی کے لئے قوالوں پر دھڑا دھڑ نوٹ نچھاور کر رہے تھے ۔رات بھر محفل جاری رہی اور قوال نوٹ اکھٹے کرتے اور انہیں تھیلوں میں بھرتے رہے۔فجر کی اذان کا وقت ہوا تو محفل سماع اختتام پذیر ہوئی۔ پولیس افسر نے بھی دل کھول کر قوال پارٹی کو انعام و اکرام سے نوازا۔ قوال پارٹی نے اپنا سازو سامان اور ملنے والے نوٹ سمیٹے اور اتنی زیادہ رقم اکٹھی ہونے پر ہنسی خوشی اپنے گھر وں کو چل دئیے ۔ابھی قوال پولیس افسر کے گھر سے کچھ فاصلے پر ہی پہنچے تھے کہ انہیں راستے میں مسلح ڈاکوؤں نے گھیر لیا اور کہا مال ہمارے حوالے کرو۔مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں نے قوال پارٹی کی خوب ٹھکائی کی اور رقم کے تھیلے لوٹ کر چلتے بنے۔قوال روتے پیٹتے تھانے پہنچے مگر ان کی بات کسی نے نہ سنی ۔جس کے بعد قوال پارٹی انصاف کی اپیل لئے متذکرہ پولیس افسر کے بنگلے پر پہنچی۔کئی گھنٹوں انتظار کے بعد افسر نے انہیں شرف ملاقات بخشا توانہوں نے ڈ اکوؤں کے ہاتھوں لٹنے کی اپنی رام کہانی سنائی ۔جس کو سن کر پولیس افسر نے مسکرا کر کہا کہ اب میں کچھ نہیں کر سکتا۔قوال پارٹی نے صاحب بہادر کی منت سماجت کی تو افسر نے کہا کہ اب یہی ہو سکتا ہے کہ تم آج رات دوبارہ قوالیوں کی محفل لگاؤ اورلوگ دوبارہ تم پر نوٹ نچھاور کریں گے ۔اسی طرح تمھارے نقصان کا ازالہ ہو سکتا ہے۔مجبورا قوالوں کو پولیس افسر کی بات ماننا پڑی ۔رات دوبارہ محفل سماع بر پا ہوئی ۔شرکاء محفل صاحب بہادر کی نظروں میں آنے کے لئے گزشتہ رات کی طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں زیادہ سے زیادہ نوٹ نچھاور کررہے تھے۔پولیس افسر بھی جھوم جھوم کر قوالوں کو داد دے رہا تھا کہ اچانک قوال قوالی گاتے گاتے رک گیا ۔محفل میں قوال کی اس حرکت سے ہر کوئی حیرت میں مبتلا تھا کہ قوال پولیس افسر کی جانب دیکھ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا حضوربرائے مہربانی اتنے ہی نوٹ پھینکے جائیں ۔جتنی ہمیں لے جانے کی اجازت ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں یہ معاملہ اس سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ہمارے ایک سنار دوست کا کہنا ہے کہ ان کے بزرگ کہتے تھے کہ اگر کوئی پہلی دفعہ سونار کے پاس انگوٹھی لائے تو وہ انگوٹھی ،دوسری دفعہ چھلہ اور تیسری دفعہ اﷲ ہی اﷲ،یعنی سونا سنار کا ہی ہوتا ہے۔اسی طرح آج صورتحال یہ ہے کہ اب شہریوں کا ڈاکے،چوری اور دیگر وارتوں میں لوٹا جانے والا مال پولیس کا ہی ہوتا ہے ۔اول تو ڈکیتی یا دیگر وارداتوں کا مقدمہ درج نہیں ہوتا۔لیکن اگر ڈھیٹ قسم کا شہری آئے روز تھانے اور پولس افسران کے دفاتر کے دھکے کھا کر باز نہ آئے یا پھر عدالت کا رخ کر لے اور پولیس کی مقدمے کے اندارج کے بغیر جان نہ چھوٹے تو پولیس کی طرف سے لاکھوں کی واردات پر چند ہزار کے نقصان کا اور ڈکیتی کی بجائے چوری یا جرم میں تحریف کر کے مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے اور برآمدگی کا سارا مال ہضم کر لیا جاتا ہے۔ واقف حال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ متعلقہ پولیس سے ملی بھگت کر کے خود ہی ڈاکو لوٹے ہوئے مال میں سے ان کا حصہ انہیں پہنچا دیتے ہیں جبکہ مبینہ پولیس مقابلوں میں بھاری رقم وصول کر کے مخالف گروپ کے ارکان کو ’’پار‘‘ کرنا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ایک طرف حکومت میرٹ اور تھانہ کلچر میں تبدیلی کی دعوے دارہے مگر حکومت کے قول و فعل میں تضاد نظر آتا ہے ۔پنجاب میں ’’یس مین‘‘ آئی جی کے لگانے کے علاوہ سی سی پی او لاہور جوایڈیشنل آئی جی کی پوسٹ ہے ، اس پر ڈی آئی جی عہدہ کے جونیئر ترین افسر چوہدری شفیق گجر کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ ان سے انتہائی سینئر دس ایڈیشنل آئی جیز اوربائیس سینئر ڈی آئی جیزکھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔آئی جی پنجاب خان بیگ کی جانب سے صوبہ میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کے لئے عملا کوئی اقدام نظر نہیں آتا مگر انہوں نے ایڈیشنل آئی جی سے مستقل ہوتے ہی تمام اضلاع کے افسران کو یہ حکم ضرور صادر فرمایا کہ وہ ایم این ایزاور ایم پی ایزکے دفاتر میں آنے پر انہیں پروٹوکو ل دیں ۔انہیں سر کہہ کر مخاطب کریں۔ ان کا فون فوری سنیں۔میٹنگ یا مصروفیت کی صورت میں پہلی فرصت میں انہیں بیک کال کریں ۔دوسری طرف تمام حکومتی نوازشیں اورسی سی پی او کی پگ سرپر ہونے کے باوجودچوہدری شفیق گجر کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ لاہور کے ایک کروڑ دس لاکھ باسیوں کو دہشت گردوں اور ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر حکمران جماعت کی ٹکٹ پرضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے بھائی چوہدری گلزار کو کامیاب کرانے کے لئے لمبی چھٹیوں پر چلے گئے ہیں اورخود عوام کی خدمت کے جذبے سے ’’سرشار‘‘ ہونے کے بعد اپنے بھائی کو بھی عوامی خادم بنانے کے لئے بے تاب ہیں ۔محکمہ پولیس میں صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ سیاستدانوں کے بعد اب بیشتر پولیس افسروں نے بھی اندرون خانہ’’ رئیل سٹیٹ‘‘ کا کاروبار شروع کر دیا ہے ۔جس سے لاہور قبضہ گروپوں کے لئے جنت بن گیا ہے۔ پہلے لینڈ مافیا سیا ستدانوں کی پشت پناہی کر کے پولیس افسران من پسند جگہوں پر پوسٹنگ کراتے تھے مگر اب پولیس افسر سمجھدار ہو گئے ہیں اور انہوں نے لینڈ مافیا سیا ستدانوں اور قبضہ گروپوں سے کاروبار میں باقائدہ پارٹنرشپ کر لی ہے تاکہ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو اور اپنی غربت ختم کر سکیں۔حکومت سے ادب سے عرض ہے کہ سفارشی اور سیاسی بنیادوں پر تقرری حاصل کرنے والے افسران کی بیساکھیوں کے سہارے نہ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی سرکار کاتھانہ کلچر کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میرٹ پر ایماندارپولیس افسران کی تقرریاں کی جائیں تاکہ سفارش نہ ہونے پرنظر انداز کئے جانے اور اپنے سے جونئیر کو پوسٹنگ ملنے پر محکمہ کے دیگر افسران میں جو بددلی پھیل رہی ہے۔اس کا خاتمہ ہو سکے ۔اس کے علاوہ کرپٹ پولیس افسران کے محکمہ پولیس میں آنے کے بعدبڑھنے والے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔بصورت دیگرمشرف کے دور آمریت کے دوران عدلیہ بحالی تحریک میں لگنے والا نعرہ’’یہ جو دہشت گردی ہے ۔اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘اب اس جمہوری دور کے ثمرات یہ ہیں کہ صرف وردی کا رنگ تبدیل ہو گیا ہے ۔عوام کی اب کالی وردی کے ہاتھوں درگت بن رہی ہے ۔
Ehsan Shoukat
About the Author: Ehsan Shoukat Read More Articles by Ehsan Shoukat: 3 Articles with 1990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.