حُرمتِ حوا …………اور انسانی بے حسی!

دنیا کے اندر ہر معاشرے میں عورت کا کچھ نہ کچھ مقام و حیثیت ضرور واضح کیا گیا ہے جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ اسلام جیسے آفاقی مذہب میں عورت کا مختلف حیثیتوں میں ایسا آبرومندانہ مثالی مقام متعین ہے جس کی نظیردوسرے مذاہب میں نہیں ملتی۔ یہ صرف مسلم معاشرے کا ہی خاصہ ہے جس نے مسلمہ رہنما اصولوں کے تابع عورت کو وہ جائز اور باعزت مقام بخشا ہے جس سے اغماض برتنا ہی دراصل عورت کو اس کی حقیقی عزت و حیثیت سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ہم خود بھی ان اصولوں کی پاسداری میں زیادہ کوشاں نظر نہیں آتے۔ اور یہی امر باعث تشویش بھی ہے۔ ہر معاشرے نے اپنی بساط کے مطابق اخلاقی و معاشرتی جرائم کی روک تھام کے لیئے کچھ قوانین وضع کر رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اسلامی تعلیمات کے زیر اثراس سلسلہ میں قانون سازی ہوتی رہتی ہے۔ آئے روز خواتین، کم سن بچیوں اور اب تو کم سن بچوں پر بھی بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی میں اضافے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہماری صفوں میں یہ گھناؤنا رحجان کو کس قدر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ایسی اخلاقی اور معاشرتی کمزوریوں کے پس پردہ ایک مخصوص منفی سوچ کے تحت ایسے عوامل کارفرما ہیں جنھوں نے رفتہ رفتہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انہی رحجانات کا مشاہدہ کرتے ہوئے پوری حکمت عملی کے ساتھ سدِّباب وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور دینی تقاضا بھی ۔

گزشتہ روز ایک خبر پر نظر پڑی جس میں شیخوپورہ کی دو سالہ معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کا افسوسناک واقعہ بیان کیا گیا۔ جنسی تشدد اور آبروریزی کی یہ قباحت تو ہر معاشرہ میں کم یا زیادہ پائی جاتی ہے مگر ہمارے اندر حیران کن حد تک اضافہ اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔ بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ بظاہرمسلمان کہلوانے والے ایسے کئی خون خوار بھیڑیئے کریہ کریہ کوچہ کوچہ سرگرداں نظر آئیں گے جو اپنی حوس کی تسکین کے لیئے بداخلاقی اور بے حرمتی کی حدیں پار کر جانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انسانی درندگی کا نشانہ بننے والی حوا کی بیٹی کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب، قبیلہ، نسل یا معاشرے سے کیوں نہ ہو ہر ذی شعور اس قبیح حرکت کی مذمت کرتا نظر آتاہے۔ نفرت، تعصب یا چند ٹکوں کی خاطر لوگوں کی عزتوں سے کھیلنا ہمارے ہاں اب تو ایک معمول بن چکا ہے۔ کبھی نہ کبھی تو اﷲ کا خوف دل میں جگہ بنا لیتا ہے مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے حسی، درندگی اور سفاکی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے یعنی جب جس کے دل میں جو آتا ہے کر گزرتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب یہ ننھے معصوم پھول بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہے ۔ عام شہری اپنی عزتوں کی حفاظت میں عملاًبے بس دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے شر پسندوں کے دلوں سے خوفِ الٰہی اور آنکھوں سے عملاً حیا کا پردہ اٹھ چکا ہے گویا برائی اب برائی ہی نہیں رہی۔ معاشرے کے ایسے مسترد شدہ افراد کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے عزت دار ماؤوں، بہنوں، بیٹیوں، بہوؤوں کی سرِ عام عصمت دری ہو رہی ہوتی ہے ۔ معاملہ میڈیا پر خبر نشر ہونے، پرامن عوامی احتجاج اور مذمت سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ سوائے اس کے کیابھی کیا جا سکتاہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ایسے افراد کا تعلق نہ توکسی مذہب سے ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی مہذب معاشرہ یا قوم کے باعزت فرد کی حیثیت اختیار کر پاتے ہیں۔ ان کے افعال و کردار سب کے لیئے باعث تکلیف ہوتے ہیں۔یوں جرائم پیشہ یہ لوگ معاشرے کے لیئے ناکارہ پرزے کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بطور امتی ہماری نسبت کہاں ملتی ہے اور ہم اپنے عمل و کردار سے ثابت کیا کر رہے ہیں۔ اﷲ کے عذاب کو دعوت دینے کے بعد بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ نرمی ہی برتی جائے۔ دراصل مثبت تعلیم و تربیت میں کمی کے رحجان کی وجہ سے بے راہ روی نے ڈیرے جما لیئے، بے حسی عام ہو گئی۔ ممکن ہے اگر ان عناصر کی بہتر سمت میں رہنمائی ہو تی رہے تو یہی مؤثر اور باکردار فرد کی حیثیت سے معاشرہ کے لیئے مفید بھی ثابت ہو ں۔

یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر اسلاف کی بے پناہ قربانیوں کے پیش نظر حاصل کیا گیا۔ اپنے شاندار ماضی اور تابناک مستقبل کے پیش نظر اور ایک مسلم معاشرہ میں آنکھ کھولنے کے ناتے ہمیں ایسی تمام اخلاقی، سماجی، معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کرنے میں اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ کیوں کہ ایسے شرم ناک غیر اخلاقی افعال اور سنگین جرائم ملک و قوم کے لیئے باعثِ ندامت ہیں جن سے اسلام کااصل چہرہ بھی بری طرح مسخ ہوتا ہے۔ ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ ہمیں تو دوسرے معاشروں کے لیئے ایک مثال قائم کرنا ہے۔ مہذب، اصول پسند اور مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیئے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ اپنی نوجوان نسل کو بھی بے راہ روی سے بچاتے ہوئے مثبت راستے پر گامزن رکھنے کے لیئے منفعت بخش تعلیم کے فروغ اور بے رورگاری کے خاتمے کے لیئے دیرپا مؤثر اقدامات کرنے میں ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں۔ معاشرے کو تباہی اور جہالت سے نکالنے کے لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملاً کردار ادا کرنے کا وقت ہے۔ ایسی صورت حال میں سوچ اور ریووں کو بدلنے کا یہ عمل اگر اوپر سے نیچے کی طرف سفر شروع کرے تو تبھی حقیقی معنوں میں اس کے مثبت ثمرات معاشرے کے ہر فرد تک پہنچ پائیں گے۔ اﷲ ہی راہِ ہدایت پر گامزن فرمائے۔ آمین !

Majeed Siddiqui
About the Author: Majeed Siddiqui Read More Articles by Majeed Siddiqui : 6 Articles with 4082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.