عبداللہ معتصم
آپ کسی جنرل سٹور پرچلے جاتے ہیں۔ وہاں پر آپ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ
خریداری میں مصروف ہیں، ایسے میں کسی صنفِ نازک کی آواز آپ کی توجہ اور سوچ
و فکر کادائرہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے،کسی کمپنی کی مصنوعات کا
تعارف،خوبیاں اورفوائد و ثمرات کو اس انداز سے آپ کے سامنے پیش کرتی ہےکہ
لمحہ بھر کے لئےآپ ذہنی اور قلبی تذبذب سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
آپ اپنی گاڑی میں جارہے ہیں، سرخ بتی روشن ہو گئی، دیگر گاڑیوں کی طرح سے
آپ بھی رک جاتے ہیں۔چوک میںنصب سائن بورڈ،اس پر بنتِ حوا کی بھڑکیلے لباس
میں کھنچی گئی تصویریں، آپ کی نگاہوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہے،ان کا
لباس،ہیئت اور رنگ ڈھنگ آپ کے ڈگمگاتے ہوئے ایمان کے لیے سوالیہ نشان بن
جاتے ہیں۔
قارئین کرام! یہ رونا اور دکھڑا کسی خاص مقام کا نہیں،شامتِ اعمال کہ یہ
مشاہداتی تصویریں آپ کو ہر گلی، چوک چوراہےاور قدم قدم پہ کھڑی دیکھنے کو
ملتی ہیں۔جاہلیت قدیمہ اورجا ہلیت جدیدہ دونوں میں عورت کی تذلیل،بےوقعتی
اور عدم توقیر کے حوالے سےکوئی فرق وامتیازنہیں۔حوا کی بیٹی ماضی میں
یونانیوں کے ہاں برائی کا منبع،دورجہالت کے عربوں کے ہاں بے وقعت متاع اور
اہل کلیسا اورکنیسہ کے ہاں ذلت و رسوائی کی علامت جانی جاتی تھی تھی۔ اس کے
بر خلاف اسلام نے عورت کومعاشرے میں ایک با عزت کردار دیا، ماں کی صورت میں
تقدس و توقیر،بہن کی صورت میں شفقت واحترام اور بیوی کی صورت میں پیار و
محبت جیسی لازوال نعمتوں سے نوازا،لوگوں میں اس کے حقوق بیان اور بحال کیے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تو صنف نازک کو مقدس آبگینوں
کے مانند بتلاتی اور اس کی حفاظت کا حکم دیتی ہیں۔
موجودہ دور میں مغرب زدہ این جی اوز نے حقوق نسواں کے نام پر ایک طوفان بد
تمیزی بپا کیا ہوا ہے،خواتین کو اسلام اور اسلامی احکام سے برگشتہ خاطر
کرنے کے لیے یہ دجالی ہرکارے کیا حربے، کیا طریقے اپنا رہے ہیں،ایک واجبی
سی نظر اس حقیقت پہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
1:ذرائع ابلاغ کے زریعے مخلوط محفلوں کی کہانیاں، خبریں اور رپورتاژ منظر
ِعام پر لائی جارہی ہیں، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے چلنے والے پروگرامز،ٹاک
شوز اورڈراموں فلموں میں خاندانی منصوبہ بندی اور جنسی آزادی کو خاص طور پر
اجاگر اور نمایاں کیا جاتا ہے۔
2: باقاعدہ اور منظم طریقے سےعورتوں کی جنسی آزادی کے نام سے عدالتوں میں
من پسند شادی کرنے کے مقدمات داخل ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر جنسیت کی
زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہو۔
3: جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے کے لیے مخلوط تعلیمی نظام کی حوصلہ افزائی
کی جاتی ہیں، جس کا نقد ثمرہ ہمیں یہ مل رہا ہے ،کہ ہماری نوجوان نسل ذہنی
طور پر مادر پدر آزاد معاشرے کو قبول کرچکی ہے،بلکہ انسانیت سے گری ہوئی اس
تہذیب کو اپنا آئیڈیل سمجھ بیٹھی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ بعض حالات و واقعات میں طلب معاش کے لیے عورت کا
چاردیواری سے باہر آنا اقتصادی مجبوری ہوتی ہے، لیکن اس کے لیے حدود شرع کو
پامال کرنااور احکام الہی کا سر عام عملی استہزاء کرنا کہاں کی دانشمندی
ہے؟اسلام دین فطرت ہے۔اس کی روشن، واضح اور غیر مبہم تعلیمات ہر خاص و
عام،مرد عورت کے لیے قابل عمل تھیں،ہیں اور رہیں گی۔کمی اورفتور انسان کی
اپنی ذات اور عقل میں ہوتی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان
خواتین اپنی عفت وعصمت کا پاس رکھیں،اور پردے کی اہمیت اور ضرورت کو اسلام
کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں سمجھیں۔
ایک صاحب ایمان ، باحیا خاتون کالبااس اسلامی نقطہ نگاہ میں کیا اہمیت
رکھتا ہے،آئیےاس سوال کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھونڈتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:اللہ تعالی ان عورتوں پر رحم فرمائے
جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں (مکہ سے مدینہ )ہجرت کی،جب اللہ تعالی
نے یہ آیت (ترجمہ:مومنات عورتیں بکل مارے اپنی چھاتیوں پر)نازل فرمائی تو
انہوں نے اپنی موٹی چادروں کو کاٹ کر دوپٹے بنا لیے۔مفسرین نے لکھا ہے کی
ایام جا ہلیت میں عورتیں سر پر دوپٹہ ڈال کر باقی حصہ کمر پر ڈال دیا کرتی
تھیں۔ اس کے بر عکس مسلما ن عورتوں کو یہ حکم ہوا کہ سر سمیت سینہ اور گلے
پر بھی دوپٹہ ڈالیں۔یہ سن کر صحابیات نے موٹی چادریں کاٹ کر دوپٹے بنالیے
کیونکہ باریک کپڑے سے سر اور بدن کا پردہ نہ ہو سکتا تھا۔
ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جہنم کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے نہیں
دیکھا۔پہلا طبقہ وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے،جن سے وہ
لوگوں کو نا حق ماریں گے۔ دوسرا طبقہ وہ عورتیں ہیں جو بظاہر کپڑے پہنے
ہوئی ہوگی، لیکن پھر بھی ننگی ہو ں گی،مردوں کو اپنے طرف مائل کرنے والی
ہوں گی اور خود بھی ان کی جانب میلان رکھنے والی ہوں گی، ان کے سر بڑے بڑ
ےاونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے(سر پر بالوں کا جوڑا کرنے کی وجہ سے)،وہ
جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی اور نہ وہاں کی خوشبو پا سکیں گی،حالانکہ اس کی
خوشبو اتنے اتنے فاصلے سے آتی ہوگی۔
(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2128)
قارئین کرام! کتنی سخت وعید ہے ان عورتوں کے لیے جو اسلامی احکام و معاشرت
سے صرف نظر کر کے جدت پسندی اور باطل رسوم و رواج میں لتھڑی ہوئی خواہشات
کی زندگی گزار رہی ہیں۔کیا آج کی عورت دوبارہ یونان اورعرب جاہلیت دور کی
ذلیل زندگی پر آمادہ نظر نہیں آرہی؟ کیا دختران ِ ملت مغرب کے دام تزویر کا
شکار نہیں لگ رہی؟ کیا ہماری یہ بہنیں اس مغرب کی تہذیب میں ڈوب کر ابھرنا
چاہتی ہیں جہاں سورج بھی جا کر ڈوب جاتا ہے؟
معاشرے کی اس حالت زار، اور خیالی روشنی کے حامل روشن خیالوں کے افکار پر
حفیظ جالندھری کے یہ اشعار خو ب صورت تبصرہ لگ رہے ہیں:
اب مسلمانوں میں بھی نکلے ہیں کچھ روشن خیال
جن کی نظروں میں حجابِ صنف نازک ہے وبال
چاہتے ہیں بیٹیوں ، بہنوں کو عریاں دیکھنا
محفلیں آباد لیکن گھر کو ویراں دیکھنا |